چمن کبھی آتشِ گل سے دہکا ہوا تھا۔ پھر سے میرؔ صاحب کو یاد کیا جائے۔
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
الطاف حسن قریشی کی صحافت کے کئی ادوار ہیں۔ الگ الگ ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پی ایچ ڈی کا ایک شاندار مقالہ اس موضوع پر لکھا جا سکتا ہے۔ 1961ء سے 1977ء تک اردو ڈائجسٹ کے قارئین کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ اب بھی برقرار ہے۔ گزشتہ صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے میں مگر یہ ایک فروغ پذیر اندازِ فکر کا مظہر تھا۔ چمن آراستہ اور نگاہ خیرہ تھی۔
علی گڑھ کی تحریک، مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان، روشن ضمیر قائد اعظم اور نادرِ روزگار اقبالؔ کی فکر نے تحریکِ پاکستان کے پیش و پسِ منظر میں مسلم برّصغیر میں عظمتِ رفتہ کی آرزو کو جنم دیا۔ اردو زبان، اسلامی اخلاق اور مغر ب کی ایجادات سے فیض پا کر جدید علوم کی ترویج، اس کے کبھی نہ جدا ہونے والے حصے تھے۔ شکاریات، عزم و ہمت کی داستانیں، اسلامی تاریخ کے دمکتے ہوئے کردار۔ اردو ڈائجسٹ کا خیال ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے قلب و دماغ میں ریڈر ڈائجسٹ کے بغور مطالعے سے پھوٹا۔
حمید نظامی دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ نوائے وقت مگر پوری آب و تاب سے زندہ تھا۔ شعلہ فشاں شورش کاشمیری، جو پسِ دیوارِ زنداں نہ ہوتے تو آمریت کے خلاف مورچہ زن، کبھی قادیانیوں اور کبھی دوسرے مذہبی یا فکری مکاتبِ فکر کے خلاف شمشیر زن۔
1947ء میں برصغیر کی آزادی کے ہنگام ونسٹن چرچل نے کہا تھا: اگر اختیار مقامیوں کے ہاتھ میں دیا گیا تو وہ شعبدہ بازی، مکر و فریب اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیں گے۔ ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی مگر متبادل کہیں زیادہ لغو تھا... غلامی کا تسلسل!
غلامی کی صدیوں میں اجتماعی حیات کو شائستگی سے منظم رکھنے کا سلیقہ ہم بھول گئے۔ مزاجوں میں خوف گہرا تھا، احساسِ کمتری بھی۔ علم سے محرومی نے افراتفری اور خود غرضی کی جبلّتوں کو بڑھا دیا تھا۔ سیاستدان ناکام نظر آتے تھے مگر آج کے لیڈروں کی طرح بدعنوانی میں سفاک نہیں۔ نظریاتی منظر پر مسلم لیگ نڈھال تھی۔ بائیں بازو کی تحریکیں مشکلات کے باوجود جارحانہ عزم کے ساتھ کشمکش کا حصہ تھیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے باغی نوجوان اس کی جانباز سپاہ تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں مغائرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی جگمگا رہے تھے اور جماعتِ اسلامی سے ابھی امیدیں وابستہ تھیں۔ تعلیمی ادارے زوال پذیر نہ تھے یا کم از کم ان کا زوال محسوس نہ ہوتا تھا۔ افسر شاہی میں کچھ دم خم باقی تھا۔ عدالتیں اب کمزور تھیں مگر جسٹس اے آر کیانی ایسے لوگ احساس کی آگ سلگائے رکھتے۔ ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہوئے تین سال گزر چکے تھے، جب اردو ڈائجسٹ ظہور میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے روایتی مسلم گھرانوں میں روایت بن گیا۔ اسلامی احساس، سماجی ادراک اور تہذیبِ نفس کے علاوہ مسلم برّصغیر کی ان ادبی امنگوں کا مظہر، جن کی نیو اقبالؔ نے اٹھائی تھی۔ نسیم حجازی اس لہر کا حصہ تھے اور خود ایک پھیلتی ہوئی لہر۔
ہفت روزہ زندگی کا اجرا 1970ء میں ہوا، جس کی پیروی میں بہت جریدے نکلے، زیادہ تر بائیں بازو کے مگر ان میں سے کسی کا معیار ایسا نہ تھا۔ زبان و بیان کا سلیقہ۔ مجیب الرحمٰن شامی، مختار حسن، سجاد میر، سعود ساحر اور ظہیر احمد ایسے اخبار نویس اس پلیٹ فارم سے ابھرے اور جگمگائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اس تحریک کے مقابل بائیں بازو کے گروہوں کو ایک کارگر جماعت مہیا کر دی۔ بھٹو نے بھارت کو للکارا اور قوم پرستی کی علامت بن گئے۔ افتادگانِ خاک کی امیدوں کا مرکز بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو اڑھائی کروڑ آدمی سوشلسٹ ہو گئے۔ یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ سوشلزم کس چڑیا کا نام ہے۔
اردو ڈائجسٹ نے جس اندازِ فکر کی تعمیر میں حصہ لیا تھا، ہفت روزہ زندگی اور نومولود روزنامہ جسارت سیاسی محاذ پر اب اس کے علمبردار تھے۔ بھٹو آمریت میں امید کی شمع اگر جگمگاتی رہی تو دوسرے عوامل کے علاوہ اس میں، اسلامی جمعیت طلبہ، پنجاب یونیورسٹی کے جانباز طلبہ، ایئر مارشل اصغر خان اور ہفت روزہ زندگی کا بھی کردار تھا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا کردار کم ولولہ انگیز نہ تھا۔ قریشی برادران نے برسوں جیل کاٹی۔ شامی صاحب اور ان کے رفیق بہت دن مقتل میں کھڑے رہے۔ حیرت ہے کہ وہ سب کے سب تھک گئے۔ حکمتِ عملی اور سلیقہ مندی کے فقدان میں؟ کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ مشیتِ الٰہی سے ہر عہد میں ہر فرد اور گروہ ایک کردار ہوتا ہے۔ لشکر اور سالار ڈوبتے ابھرتے، بیش و کم ہوتے رہتے ہیں۔ زندگی اسی کشمکش، اسی نشیب و فراز اور اسی تنوّع کا نام ہے۔ اردو ناول نگاری کی ساحرہ قرۃ العین حیدر نے کہا تھا: ابدیت سفر کو ہے، مسافرکو نہیں۔
زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ، اسے کہنا
بیس برس ہوتے ہیں، کراچی کے ایک دوست نے کہا تھا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس عمر میں الطاف صاحب کس قدر ریاضت کیش ہیں۔ حیرت ہے کہ آج بھی۔ برگد کا درخت ظاہر ہے کہ کبھی چھوٹا بھی ہوتا ہو گا، ہم مسافروں نے ہمیشہ چھتنار ہی پایا۔ دیکھیے تو احساس ہوتا ہے کہ وقت جیسے ٹھہر گیا ہے اور آسماں تلے اس کا سایہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ آتش بداماں شورش کاشمیری چلے گئے۔ سر ہتھیلی پر رکھ کر زندگی کرنے والے صلاح الدین چلے گئے... الطاف حسن قریشی زندہ سلامت ہیں۔ 1961ء میں تازہ کار اردو ڈائجسٹ کا اجرا ہوا تو یہ ناچیز پانچویں کا طالبِ علم تھا۔ اب وہ روزانہ صحافت سے سبکدوشی کے بارے میں سوچتا ہے۔ الطاف صاحب ماشاء اللہ اب بھی جواں ہمت ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا جسم ڈھے گیا مگر اللہ نظرِ بد سے بچائے ''کاروانِ علم‘‘ مظہر ہے کہ ولولہ وہی ہے، آرزو ویسی ہی تابناک۔
جوانی کٹ گئی ہے لیکن خلش عہدِ جوانی کی
جہاں محسوس ہوتی تھی وہیں محسوس ہوتی ہے
درماندہ طلبہ کی سرپرستی کے لیے جو ادارہ انہوں نے قائم کیا ہے، خالد ارشاد کے قلم سے اس کی طویل کتابی روداد ایک شب میں پڑھی۔ کتاب کے اوراق پر میں رویا۔ پھر اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرا لڑکپن جاگ اٹھا، اقبالؔ، نسیم حجازی اور الطاف حسن قریشی کے مطالعے میں جس نے آنکھ کھولی تھی۔ یہی تگ و تاز ہے، جو قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔
الطاف حسن قریشی اپنے جلیل ماضی کا ایک سایہ ہیں، گاہے جس میں جوانی کا جلال و جمال جھلک بھی اٹھتا ہے۔ اس طویل صحافتی زندگی پہ قلم برداشتہ نہیں لکھا جا سکتا۔ اگر کئی ماہ نہیں تو کم از کم کئی ہفتے درکار ہیں۔
تشکیل و تعمیر فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں ،یہ نصف صدی کا قصہ ہے
بے شک ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں مگر مشعل بردار مسافروں کے بغیر کون سا سفر اور کون سی منزل؟
چمن کبھی آتشِ گل سے دہکا ہوا تھا، احساس کی لو سے۔ پھر سے میرؔ صاحب کو یاد کیا جائے۔
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
(الطاف حسن قریشی پر مرتبّ کی گئی ایک کتاب کے لیے لکھا گیا)