مختصر یہ کہ اتنا ہی آدمی شادمان ہوتا ہے‘ جتنا فطرت کے قوانین سے وہ ہم آہنگ ہو اور اتنا ہی مضطرب‘ جتنا کہ ان سے دور ہو‘ اپنے آپ پرحد سے زیادہ اعتماد بھی خود سے ایک طرح کی دوری ہے۔
اس طرح کے معاملات میں جو درپیش ہے‘ ہمدردی اور نرمی کے سوا آخر کیا رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے ؟جب دونوں بڑے شاہی خاندانوں میں اس طرح کے سوالات اٹھے تو اکثر اوقات اس ناچیز نے تبصرہ کرنے سے انکار ہی کردیا۔ کچھ نہ کچھ تو معلوم ہی تھا بلکہ بعض چونکا دینے والی معلومات بھی‘ لیکن ہر چیز اگر بیان کی جانے لگے تو باقی کیا بچے گا؟
کپتان تو ایک ذاتی دوست بھی ہے۔ اتنی سی بات عرض کر سکتا ہوں کہ دونوں بار اس نے غلط فیصلہ کیا۔ علیحدگی کا نہیں بلکہ شادی کا۔ پہلی بار تو خیر مگر دوسری بار رہنمائی میسر تھی‘ اگر وہ اس کا آرزومند ہوتا۔ اس کا ایک تجربہ بھی اسے ہو چکا تھا مگر اب کی بار بھی اس نے خود پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ حد سے زیادہ پُراعتماد آدمی ہے‘ Over Confident۔
وزیرستان سے ہم لوٹ رہے تھے‘ جب خیرآباد کے قریب دریائے سندھ کے کنارے شام کا کھانا کھانے کا فیصلہ کیا۔معظم رشید کی شادی کا مرحلہ تھا۔ اس نے مجھے کہا‘ اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔ بچوں کی شادیاں ان کی رضامندی سے ہونی چاہئیں۔ پھر ایک ترنگ کے ساتھ بولا''اپنے بیٹوں کی شادیاں میں خود کروں گا‘‘ ''کیوں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ اس نے کہا '' میں خواتین کو خوب سمجھتا ہوں۔‘‘ افسوس کہ وہ نہیں سمجھتا۔ رجحانات کا ادراک ایک چیز ہے اور شخصیات کا بالکل دوسری۔
یاد رہے کہ جب بہت سے لوگ کنفیوژن کا شکار تھے‘ سلطان با ہو نے ڈٹ کر عالمگیر کی حمایت کی تھی۔ اورنگ نامہ کے نام سے ایک کتاب بھی انہوں نے لکھی‘ در آں حالیکہ اقتدار سے وہ یکسر بے نیاز رہے۔ انسان ایک پیچیدہ مخلوق ہے۔ عظیم ماہرین نفسیات تک نہیں‘ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ صرف جلیل القدر صوفیا ہی آدمی کے اندر جھانک سکے۔ عہد اورنگ زیب کے عارف سلطان باہو نے کہا تھا ۔ ع
دل دریاساگر سے گہرا‘ کون دلوں کی جانے ہُو
سیدنا عمرفاروق اعظمؓ نے سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے کہا: کبھی ہم انؐ کے ساتھ ہوتے تھے اور کبھی نہیں۔ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ اچھے ہوتے ہیں مگر اچھے نہیں لگتے۔ کچھ دوسرے اچھے نہیں ہوتے مگر طبیعت ان کی طرف جھکتی ہے۔ فرمایا: ہاں‘ میں نے آپؐ سے سوال کیا تھا۔ عالی جنابؐ نے ارشاد فرمایا تھا‘ روحیں لشکروں کی طرح اتاری گئیں‘ تب جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تھے‘ اس دنیا میں بھی ایک دوسرے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اللہ کے آخری رسولؐ کے گرد ''ع‘‘ والوں کا جمگھٹا ہے۔ عبداللہ( سیدنا ابوبکر صدیق ؓ) سیدنا عمرؓ بن خطاب‘ سیدنا عثمانؓ بن عفان‘ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب‘ سیدہ عائشہ صدیقہ، ؓ جناب عبداللہؓ بن مسعود‘ عبداللہؓ بن عمر‘ عبداللہؓ بن زبیر۔ آپؐ تو سبھی پر مشفق و مہربان تھے۔ نواح مدینہ سے ایک بہت ہی کم رو آدمی کبھی آپؐ کے لیے سبزی لے کر آیا کرتا‘ جب بھی وہ حاضر ہوتا‘ آپؐ ارشاد فرمایا کرتے ''میرا دوست آیا ہے۔‘‘ رحمۃ للعالمین آپؐ کو
قرآن کریم میں کہا گیا۔ ارشاد ہوا کہ مومنوں کے لیے وہ حریص واقع ہوئے ہیں‘ ان کی خیرخواہی کے لیے۔ قادر مطلق نے اپنے ناموں میں سے دو نام ہی عالی جنابؐ کو عطا کر دیئے۔ رئوف اور رحیم۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ کچھ خاص لوگوں کو اور بھی زیادہ فیض پہنچا؟۔ رحمت تمام کا دریا بے کنار بہتا تھا‘ کہیں کوئی رکاوٹ تھی ہی نہیں۔کوئی سمجھ سکے تو اب بھی اسی طرح رواں ہے۔
پہلے چند عشروں کے بعد قرآن کریم کو مسلمانوں کی اکثریت نے بھلا ہی دیا‘ حدیث رسولؐ سے بھی کم ہی فیض پایا۔ ارشاد کیا: اپنی اولاد کے اچھے نام رکھا کرو۔ فرمایا: آدمی اپنے بیٹے کا نام امیر رکھتا ہے‘ حالانکہ اسے غریب ہونا ہوتا ہے۔ کچھ ناموں کو پسند فرمایا اور انہیں ترجیح دی‘ مثلاً عبدالرحمن‘ مثلاً عبداللہ‘ آخری نام اپنے پسندیدہ ترین ساتھی‘ اپنے دوست سیدنا ابوبکرصدیق ؓکو عطا کیا۔ عہد جاہلیت میں ان کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ اپنے لوگوں کے لیے جو اسماء آپ نے تجویز کیے ان میں عجزوانکسار اور دعا ہے۔ عبدالرحمن‘ رحمن کا ایک بندہ‘ عبداللہ‘ اللہ کا ایک بندہ۔ نام رکھنے میںآج فضلیت ہوتی ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ایک اور رجحان یہ ہے کہ بہت ہی منفرد قسم کے نام تجویز کیے جاتے ہیں۔ کئی خاندانوں کو میں نے ابتلا میں دیکھا ہے‘ کتنے ہی دوسرے ہیں‘ اہل علم سے جنہوں نے رہنمائی طلب کی اور فیض پایا۔
جمائما خان سے شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد چھوٹے موٹے مسئلے سر اٹھانے لگے۔ دونوں کے درمیان مباحثہ ہوتا مگر مشورہ بھی۔ یہ 2002ء کے الیکشن تھے‘ جس کے بعد اچانک ایک دن اس نے مجھ سے کہا: بظاہر علیحدگی کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ جمائما لندن جا چکی تھیں اور ہر چھ ہفتے بعد وہ اس سے ملنے جایا کرتا۔ انتخابی مہم کے ہنگام‘ جب اسے سیاسی بقا کا سوال درپیش تھا‘ چار ماہ میں صرف پانچ بار وہ گھر آ سکا۔ پھر یہ کہ شریف حکومت نے قدیم نادر ٹائلوں کی سمگلنگ کا ایک جھوٹا مقدمہ اس پر بنا دیا تھا۔ دانت پیس پیس کر آج کل مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں‘ درآں حالیکہ وہ خود تھے جو خاتون امریکی سفیراین پیٹرسن کے پاس درخواست لے کر گئے تھے کہ وزیراعظم بننے میں ان کی مدد کی جائے۔ بالکل اسی انداز میں نون لیگ اور کچھ مذہبی شخصیات جمائما خان کو صہیونی کارندہ ثابت کرنے پر تلی تھیں۔
پریشاں حال‘ جب اس نے مشورہ چاہا تو میں اسے عارف کے ہاں لے گیا۔ عمران خان احساس جرم کا شکار تھا کہ وہ اسے وقت نہیں دے سکا۔ درویش نے اسے بتایا کہ جمائما ذاتی طور پر اس سے زیادہ ناخوش نہیں بلکہ پاکستان میں اس کا جی نہیں لگتا۔ لندن کا مانوس ماحول اسے یاد آتا ہے۔ ''اگر آپ وزیراعظم بن گئے ہوتے تو شاید وہ یہیں کی ہو رہتی‘‘۔ ہر ایک کو مصروفیت کی ضرورت ہوتی ہے‘ ایک کردار کی اور دل لگانے کی۔ فردوسِ گم گشتہ کی یاد آدمی کے لاشعور میں اضطراب گھولتی رہتی ہے۔ یہی آدم زاد کی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے۔ اب ہر ایک فیصلہ کرنے والے پر ہے کہ اپنی ترجیحات وہ کس طرح مرتب کرتا ‘کس طرح زندگی کرتا ہے۔ یہ صرف اہل علم اور اہل ذکر ہیں‘ جو ہر طرح کے حالات میں شادماں رہتے ہیں‘ مجلس میں‘ تنہائی میں‘ گھر اور بازار میں‘ کامیابی اور ناکامی میں۔
تفصیل پھر کبھی عرض کروں گا۔ فقیر نے اس سے کہا‘ علیحدگی کا فیصلہ تلخی کے بغیر ہونا چاہیے۔ سوچ بچار کے ساتھ اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اپنے بچوں کے بارے میں وہ پریشان تھا۔ انہوں نے اسے بتایا: وہ مسلمان رہیں گے اور تم سے وابستہ رہیں گے۔ بیتے ہوئے برسوں میں اگرچہ اس نے انہیں کافی وقت نہیں دیا اور دوسری چیزوں میں اُلجھا رہا۔ ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کے اثرات مرتب ہوں گے۔
ریحام خان کے ساتھ اس کی علیحدگی پر ایک بھرپور تبصرہ کرنے سے میں نے گریز کیا۔ ایک طرف تو میرے پاس بہت سی معلومات ہیں‘ مگر ان کے اظہار پہ طبیعت آمادہ نہیں۔ دوسری طرف کچھ بنیادی سوالات ہیں‘ جن پر اس کے ساتھ بحث کیے بغیر حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ جلد ہی شاید زیادہ تفصیل کے ساتھ گفتگو ہو۔
مختصر یہ کہ اتنا ہی آدمی شاد مان ہوتا ہے‘ جتنا فطرت کے قوانین سے وہ ہم آہنگ ہو اور اتنا ہی مضطرب‘ جتنا کہ ان سے دور ہو‘ اپنے آپ پرحد سے زیادہ اعتماد بھی خود سے ایک طرح کی دوری ہے۔