بھیڑیے تاک میں ہیں اور وزیر اعظم لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ کیا وہ کوئٹہ کو ایک اور کراچی بنانا چاہتے ہیں؟
بلوچستان کے مقدر میں کیا لکھا ہے؟ یہ کئی چیزوں پر منحصر ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت دو کمزور کڑیاں ہیں۔ سول انتظامیہ میں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے اور بروقت سلجھانے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ صوبائی وزیر اعلیٰ اسمبلی کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔ افسر شاہی مددگار نہیں۔ ''گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں صوبے کا انتظامی ڈھانچہ برباد ہو چکا اور اسے از سر نو تعمیر کرنا ہے‘‘ ڈاکٹر عبدالمالک نے مجھے بتایا ''جب میں ان سیکرٹریوں کے بارے میں سوچتا ہوں، جن کی لیاقت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے تو یہ تعداد چھ سے آگے نہیں بڑھتی‘‘۔
وزیر اعظم نواز شریف کی ترجیحات میں، بلوچستان کہیں بہت پیچھے پڑا ہے۔ اس صوبے کے لیے، جس کی سلامتی پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہے، وہ کچھ زیادہ وقت نہیں نکال پاتے۔ پلٹ کر لوگ عسکری قیادت کی طرف دیکھتے ہیں لیکن وہ تخریب کاروں سے نمٹنے کے سوا اور کیا کر سکتی ہے؟ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور روزگار کی فراہمی سے صوبہ دلدل سے نکل سکتا ہے۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار فنڈز کی فراہمی بنیادی مسئلہ نہیں مگر صلاحیتِ کار محدود ہے اور اسے بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں۔ مرکز کی طرف سے فراہم کردہ 45 ارب روپے میں سے 15 ارب روپے واپس کر دیئے گئے اور ایک اطلاع کے مطابق 35 ارب روپے۔ وفاقی حکومت اس سلسلے میں بے زاری کی حد تک لا تعلق ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے کہا: ایسے منصوبوں کی مرکز کو نگرانی کرنی چاہیے، جن کے لیے وہ رقوم فراہم کرتا ہے مگر وفاقی وزارتِ خزانہ غالباً دیدہ دانستہ اغماض برتتی ہے تا کہ مالی سال کے خاتمے پر فنڈز واپس چلے جائیں۔ پھر وہ اپنی سیاسی ترجیحات کے تحت، اس روپے کو اپنی پسند کے منصوبوں پہ صرف کر سکتے ہیں۔
کوئٹہ شہر ان دنوں ایک مخمصے کا شکار ہے۔ کیا 4 دسمبر کو اس معاہدے پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں، جس کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک صوبے کے اقتدار سے الگ ہو جائیں گے اور ثناء اللہ زہری ذمہ داری سنبھالیں گے۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا: ''کسی نے اس سلسلے میں مجھ سے بات نہیں کی۔اگر مجھے جاری رکھنے کو کہا جائے گا تو کوئی نخرہ نہیں اور اگر ہٹا دیا جائے تو کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ وہ اس عمل کو جاری رکھنے کے آرزومند ہوں گے، جس سے انہوں نے نیک نامی کمائی ہے۔ طویل عرصے کے بعد وہ صوبے کے پہلے مقتدر وزیر اعلیٰ ہیں، جن کی کارکردگی پر اکثر مطمئن ہیں، جن پر کوئی الزام نہیں اور کوئی سکینڈل ان کی ذات سے وابستہ نہیں۔ دہشت گرد پسپا ہوئے ہیں، ناراض لیڈروں کے ساتھ وہ مذاکرات میں مصروف ہیں، مسلسل جس میں پیش رفت ہے۔ 700 کے لگ بھگ فراری ہتھیار ڈال چکے اور مزید ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ ان میں یہ احساس بھی کار فرما ہے کہ کام کرنے کے لیے کافی وقت انہیں میسر نہ آ سکا۔ میرے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا: ''کئی ماہ تک کابینہ ہی تشکیل نہ پا سکی۔پھر ایک چھوٹے سے جھگڑے پر اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس وقت جب اسلام آباد میں دھرنا جاری تھا، ایک اقلیتی رکن اسمبلی اور ایک بلوچ سردار میں جھگڑا ہو گیا۔ اسے نمٹانے کی بجائے کچھ لوگ اس کمزور آدمی کی رکنیت ختم کرنے کے لیے، ایوان میں قرار داد پیش کرنے پر تل گئے جس کی میں نے مزاحمت کی‘‘۔
سردار ثناء اللہ زہری کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ من مانی کرنے والے آدمی ہیں۔ ان صحت مند رجحانات اور عوامل کو وہ آگے نہ بڑھا سکیں گے، گزشتہ اڑھائی سال میں کمال ریاضت، حکمت اور احتیاط کے ساتھ جن کی نیو رکھی گئی۔ طویل عرصے کے بعد جن کی وجہ سے امید نے جنم لیا ہے، جبکہ بلوچستان میں بد امنی پیدا کرنے پر تلی داخلی اور خارجی قوتیں موقع کی تلاش میں ہیں۔ بیشتر سرکاری افسر، زہری سردار سے خوفزدہ ہیں۔
اعلیٰ سطح پر کرپشن اگرچہ کم ہوئی، کہنا چاہئے کہ برائے نام رہ گئی، مگر ماضی میں ہونے والے بہت سے المناک فیصلوں کا تدارک نہیں ہو سکا۔ مثال کے طور پر سابق وزیر اعلیٰ کے دور میں گوادر کی ایک لاکھ ایکڑ زمین ہتھیا لی گئی۔ کوئٹہ سے جاری ہونے والے شاہی فرمان کے ذریعے یہ مختلف با اثر لوگوں کو الاٹ کر دی گئی۔ وہ چینی کمپنی اب اس زمین پر ایک تجارتی شہر بسانے کا منصوبہ رکھتی ہے، بندرگاہ جس کے سپرد ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اس منصوبے کی پُرجوش حامی ہیں۔ ان لوگوں نے تقریباً مفت میں حاصل ہونے والی اس زمین کے لیے 23 ارب روپے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعلیٰ نے اگرچہ لیز منسوخ کر دی ہے، معاملہ مگر ابھی نمٹنا ہے۔ ان لوگوں کا مقدمہ اس قدر کمزور ہے کہ انہوں نے ہائیکورٹ سے حکم امتناہی حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ وہ موزوں وقت کے انتظار میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ موزوں وقت ایوانِ وزیر اعلیٰ سے ڈاکٹر عبدالمالک کی رخصتی کے بعد ہی طلوع ہو سکتا ہے۔
گزشتہ دو برس کے دوران معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدن پونے پانچ ارب سے کم ہو کر صرف ایک ارب بیس کروڑ روپے رہ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار صوبائی سیکرٹریٹ سے حاصل کئے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ کان کنی کے لیے اجازت نامے جاری کرنے کا کام چند سرکاری افسروں کے ہاتھ میں تھا۔ بے دردی کے ساتھ انہوں نے یہ اختیار استعمال کیا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دو اڑھائی لاکھ روپے کے عوض کوئی سا پرمٹ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ پانچ سرکاری افسروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور انہوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا ہے۔ سونے اور تانبے کے ذخائر سے مالا مال لاکھوں ایکڑ اراضی صرف اسی کروڑ روپے کے عوض ایک غیر ملکی کمپنی کو دے دی گئی۔ صرف کان کنی کا حق نہیں بلکہ زمین کے ملکیتی حقوق۔ دنیا میں یہ کہاں ہوتا ہے اور دنیا میں یہ کہاں ہوتا ہے کہ اس پر کوئی باز پرس ہی نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ نے کہا: لائسنس جاری کرنے کا نظام اب تبدیل کر دیا گیا ہے مگر بہت کچھ نقصان ہو چکا اور اس کا ازالہ کرنا ہو گا۔ رکوڈک کا معاملہ ثالثی کی عالمی عدالت میں ہے، جس کا صدر دفتر پیرس میں واقع ہے۔
صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ شاید اس کے ارکان صوبائی اسمبلی ہیں۔ان میں سے ہر ایک کو 30 سے 40 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیے جاتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر بعض لوٹ مار کرتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے منصوبے تشکیل دیتے ہیں اور متعلقہ افسروں سے مل کر گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں، جہاں گیس فراہم کرنے والے ادارے پی پی ایل اور مرکز کی امداد سے پانچ ارب روپے ہر سال مہیا کیے جا سکتے ہیں، بجلی، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں 50 بستروں کا شاندار ہسپتال بھائیں بھائیں کرتا، زچگی کے لیے رحیم یا رخان لے جائی جانے والی خواتین کی اکثریت راستے میں دم توڑ دیتی ہے۔ سرداروں کی قوت کمزور پڑ چکی، اس کے باوجود حال یہ ہے کہ اڑھائی سال قبل اواران کے زلزلے میں تباہ ہونے والے سکولوں میں سے صرف تین کی عمارتیں مکمل ہو سکی ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کو کوئی پروا نہیں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اگر ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ سونپنی ہے تو ڈاکٹر عبدالمالک کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ منصوبہ بندی کرنا ہو گی کہ ان کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے مزید لوگ علیحدگی پسندوں سے نہ جا ملیں۔ ''یہ ہمارے ہی لوگ تھے جو بھٹک گئے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا مستقبل کے لیے کیا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو اگر برقرار رکھنا ہے تو ان سے بات کی جائے۔ ثناء اللہ زہری کے لیے کوئی متبادل تجویز کیا جائے اور انہیں تعاون پر آمادہ۔ ہفتوں کی نہیں مہینوں کی ریاضت درکار ہے مگر وزیر اعظم نے ابھی آغاز تک نہیں کیا۔ نتیجہ ایک المناک کنفیوژن کی صورت میں نکلا ہے۔ افسر شاہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ فیصلے مؤخر ہو رہے ہیں۔سازشوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اور ارکان اسمبلی میں صف آرائی جاری ہے۔ عسکری قیادت واضح طور پر وزیر اعظم کو بتا چکی کہ جو بھی فیصلہ وہ صادر کرنا پسند کریں، ممکنہ نتائج کو ملحوظ رکھتے ہوئے از راہ کرم منصوبہ بندی فرما لیں۔
بھیڑیے تاک میں ہیں اور وزیر اعظم لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ کیا وہ کوئٹہ کو ایک اور کراچی بنانا چاہتے ہیں؟