اس طالبِ علم کو قائدِ اعظمؒ یاد آئے اور بہت یاد آئے۔ کانگرسی قیادت اور انگریز حکمرانوں سے کس وقار اور شائستگی کے ساتھ وہ بات کیا کرتے۔ قائدِ اعظمؒ تو خال ہی ہوتے ہیں مگر ایسی بھی کیا مرعوبیت؟ وزیرِ اعظم صاحب ایسی بھی کیا مرعوبیت؟
کیا بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج فقط ہمیں بہلانے آئی تھیں، جیسا کہ بعض پاکستانیوں کا خیال ہے یا جیسا کہ میرے پسندیدہ انگریزی اخبار نے تاثر دیا، بھارتی رویے میں تبدیلی رونما ہوئی ہے؟
یہ دعویٰ کہ قلبِ ایشیا کانفرنس میں بھارتی شرکت محض عالمی دبائو کا نتیجہ ہے، صورتِ حال کی حد سے زیادہ سادہ توجیہہ ہے۔ داخلی عوامل بھی تھے۔ بہار کا الیکشن، ممتاز قومی شخصیات کی طرف سے تمغوں کی واپسی، کاروباری طبقہ اور ووٹروں کی حمایت محدود ہو جانے کا اندیشہ۔ آج کی دنیا میں کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ بھارتیوں کی ترجیح اقتصادی نمو ہے۔ سالِ گزشتہ میں ایتھوپیا کے بعد بھارت سب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرنے والا ملک تھا، 7.5 فیصد، چین سے ایک فیصد زیادہ۔ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اس طرح کی عیاشی ہمی کر سکتے ہیں۔ ہم بھی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے آرزومند تھے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ کئی گنا بڑی بھارتی معیشت پاکستان کے مقابلے میں دو گنا رفتار سے ترقی پذیر ہے تو قومی دفاع پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ دونوں ملکوں کو مذاکرات سازگار ہیں۔ امن ہی سازگار ہے... ہزار بار دہرایا گیا وہی جملہ "Stupid, its the economy"۔ سچ پوچھیے تو یہ کہنا چاہیے "Stupid, its the peace"۔ امن اور اس کے بعد حاصل ہونے والے استحکام ہی سے اقتصادی ترقی ممکن ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ معاشی خود مختاری کے بغیر آزاد خارجہ پالیسی ممکن ہے اور نہ قومی دفاع۔
تو کیا بھار ت نے ادراک کر لیا ہے کہ پرامن پاکستان خود اس کے مفاد میں ہے؟ کیا پاکستان کی عسکری اور سول حکومت پہ یہ نکتہ اب آشکار ہے کہ خطے میں حقیقی امن کے بغیر اس مجروح ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ ایک زیادہ وسیع اور پیچیدہ سوال ہے۔ اتنی سی بات البتہ کہی جا سکتی ہے کہ افراد کی طرح اقوام کا اندازِ فکر بھی پیچیدہ ہوا کرتا ہے۔ بہت سے عوامل بیک وقت فیصلہ سازی پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
اندھوں کے سوا یہ تو سب جانتے ہیں کہ بھارتیوں کی اکثریت نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ جنونیوں کے سوا ہم سب باخبر ہیں کہ بھارتیوں اور اسرائیلیوں کے سوا کوئی ملک پاکستان کے خاتمے کا خواہاں نہیں۔ مثلاً امریکہ اور برطانیہ پاکستان کو محتاج اور منحصر دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ وہ ہمیں ناپسند کریں مگر وہ جانتے ہیں کہ صرف افغانستان ہی ایشیا کا قلب نہیں، پاکستان بھی ہے۔ دو ہزار برس پہلے جس خطے کو ایرانیوں نے خراسان کا نام دیا تھا، وہ ملتان تک پھیلا ہوا تھا۔ بعد ازاں یہ علاقے ایران، افغانستان اور پاکستان میں بٹ گئے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے اسی میں دجّال کے ابھرنے کی پیش گوئی کی تھی اور اسی سے اس لشکر کے نمود کی، جو ہند کے مشرکین سے نبرد آزما ہونے کے بعد دمشق میں یہودیوں کا سامنا کرے گا، ترکوں کا لشکر بھی۔ عالی جنابؐ نے جب یہ ارشاد کیا تو ہندوستان اور ترک
سرزمین پر ایک بھی مسلمان موجود نہ تھا۔ ترکی نام کے ملک کو متشکل ہونے میں ابھی آٹھ صدیاں باقی تھیں اور برصغیر میں ترکوں کے نمود کو بھی، جنہیں ہم ''مغل‘‘ کہتے ہیں۔
ہمارے بارے میں امریکی اندازِ فکر کا بہترین اظہار کلنٹن کی وزیرِ خارجہ البرائٹ کی نورِ نظر میڈلن البرائٹ نے کیا تھا:
''Pakistan is a migraine‘‘۔''پاکستان ایک دردِ سر ہے‘‘۔
نواز شریف زرداری سے بہر حال بہتر ہیں۔ ان کے دور میں پاکستان میں ایسی کانفرنس کا شاید تصور بھی کیا نہ جا سکتا۔ بیس ممالک کے وزراء خارجہ اور سفارت کار کئی دن تک پاکستان میں آسودہ رہے۔ یہ ملک کی سکیورٹی صورتِ حال پر اعتماد کا اظہار ہے، جس میں ضربِ عضب کا کردار غالب ہے۔ خطے میں پاکستان کی اہمیت پر ایک بار پھر تصدیق کی مہر لگی۔ بھارتی وزیرِ خارجہ کو پاکستان آنا پڑا۔ یہ بھی ایک کامیابی ہے اور ان دونوں سے بڑی یہ کہ پاکستان اور افغانستان میں فاصلہ قدرے کم ہوا۔ پھر سے طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے مذاکرا ت کا امکان۔
یہ کانفرنس اور بھی زیادہ کامیاب بلکہ تاریخ ساز ہوتی، تیاری اگر بہتر ہوتی۔ اگر زیادہ لائق لوگ ملک کی ترجمانی کرتے۔ مثلاً خطا معاف، سرتاج عزیز کی جگہ سید مشاہد حسین جیسا کوئی شخص۔ مشیرِ خارجہ اور وزیرِ اعظم اگر آدابِ میزبانی کے ساتھ ساتھ قومی وقار کا بھی اتنا ہی خیال رکھتے؟ اگر وہ چوکس رہتے۔ سرتاج عزیز کی عمر لیکن 86 برس ہے اور وزیرِ اعظم دو تین منٹ سے زیادہ چوکس (Focused) نہیں رہ سکتے۔
سشما سوراج پاکستان نہ آتیں تو بھارت افغانستان کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں سے الگ رہتا۔ صدر اشرف غنی نے ساتھ بیٹھے وزیرِ اعظم نواز شریف سے کہا: چاہِ بہار کی وجہ سے ایران سے افغانستان کا زمینی رابطہ بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ بعد ازاں اس پر انہوں نے ایران اور بھار ت کا شکریہ بھی ادا کیا۔ افغان صدر نے فرمایا کہ پاکستان سے مواصلاتی تعلق میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ وزیرِ اعظم خاموش رہے۔ انہوں نے گوادر کا حوالہ نہ دیا۔ سامنے کا نکتہ یہ تھاکہ گوادر کے پوری طرح بروئے کار آنے سے افغانستان کو کیسے گراں قدر فوائد حاصل ہوں گے۔
اپنے خطاب میں سشما سوراج نے سرتاج عزیز پر نظر جمائی اور بولیں: بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، افغانستان کو بھارت تک رسائی دینی چاہیے۔ سرتاج عزیز مسکرا دیے۔ اشارتاً بھی نہ کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تجارت میں آپ کو بہتر رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستانی مصنوعات پر عائد ٹیکس کم کرنے چاہئیں۔ بھارت اگر ایسا کرے تو پاکستان اس کے لیے پہلے سے تیار ہے۔
افغانستان، ایران اور بھارت نے افغانستان کی معاشی نمو میں چاہِ بہار کی بندرگاہ کے مثبت کردار کا ذکر کیا۔ وزیرِ اعظم اور مشیرِ خارجہ کو اس تناظر میں گوادر کے ذکر سے گریز کیوں تھا؟ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا۔
افغان وزیرِ خارجہ جوّاد ظریف نے کہا: بعض ملک ابھی تک دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر برت رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے آواز بلند کی اور سامنے بیٹھے بھارتی خارجہ سیکرٹری ایس جے شنکر کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
اچھی چیزیں بھی بہت ہوئیں۔ فقط ترکی اور چین ہی نہیں، وسطی ایشیا، یورپی یونین اور امریکی وفد نے بھی مری مذاکرات کی ستائش کی۔ یہ وزیرِ اعظم نواز شریف، عسکری قیادت اور پاکستان پر اعتماد کا اظہار تھا۔
نواز حکومت داد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیرِ خارجہ کو اسلام آباد آنے پر مجبور کر دیا۔ قابلِ اعتماد ہی نہیں، بہترین حفاظتی انتظامات کیے کہ غیر ملکی وفود تو کیا، اسلام آباد کے شہریوں کو بھی زحمت نہ ہوئی۔ ہاں مگر گاہے میزبانی کا غیر ضروری جوش و خروش، ہاں گاہے وہ مرعوبیت، جس کی حدود خوف سے جا ملیں۔
اس طالبِ علم کو قائدِ اعظمؒ یاد آئے اور بہت یاد آئے۔ کانگرسی قیادت اور انگریز حکمرانوں سے کس وقار اور شائستگی کے ساتھ وہ بات کیا کرتے۔ قائدِ اعظمؒ تو خال ہی ہوتے ہیں مگر ایسی بھی کیا مرعوبیت؟ وزیرِ اعظم صاحب ایسی بھی کیا مرعوبیت؟