کوئی دن میں فیصلہ ہو جائے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔ اس وقت تک انتظار فرمائیے۔ تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔
صدرِ پاکستان کی حیثیت سے زرداری صاحب نے پانچ برس کس طرح بتائے؟ بارش ہوئی تو لڑکا تاخیر سے پہنچا۔ ناراضی سے استاد نے دیکھا تو بولا: کیچڑ میں ایک قدم آگے رکھتا تو دو قدم پیچھے پھسل جاتا۔ ''پھر تم سکول کیسے پہنچے؟‘‘۔ ''میں نے اپنا منہ گھر کی طرف کر لیا تھا‘‘۔ زرداری صاحب دھمکی دیتے۔ ایک قابلِ اعتماد اخبار نویس کو بلا کر اسلحے کا ڈھیر دکھایا۔ فرمایا: مقابلہ کروں گا۔ ناجائز آمدن کے ڈھیر ہیں؛ لہٰذا شجاعت کہاں مگر ضدّی ہیں۔ ان کا پیشہ ایسا ہے کہ حاضر دماغی بھی وہ پیدا کر دیتا ہے، بقائے حیات کی جبلّت کو تند بناتا ہے۔ پھسلن بہت تھی۔ ایک قدم آگے بڑھاتے تو دو قدم پھسل جاتے۔ منہ گھر کی طرف رکھا اور اپنی ترجیحات پر ڈٹے رہے۔
دو مواقع پر عسکری قیادت عواقب کا اندازہ نہ کر سکی۔ ایک ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور دوسرے وزیرِ اعظم کو راج نیتی (گورننس) بہتر بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے۔ سیاست میں اس قدر بے تکلفی اچھی نہیں ہوتی۔ سیاست میں میاں صاحبان کا آدرش کاروبار تھا، گورننس بہتر بنانا ہرگز نہیں۔ تاجر گاہک سے محبت نہیں کرتا بلکہ آمدن سے۔
دونوں بڑی پارٹیاں مسئلے کا حصہ تھیں، حل کا نہیں۔ پیپلز پارٹی بظاہر انتہا پسندی کی دشمن تھی۔ حکمرانی مگر ایسی کہ ملک دشمنوں کو فائدہ ہی پہنچا۔ شہباز شریف نے برملا کہا تھا کہ طالبان کو حملے پنجاب میں نہیں کرنے چاہئیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے فوراً بعد میاں صاحب شمالی وزیرستان آپریشن کا حکم دیتے تو دہشت گردوں کی قیادت افغانستان فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوتی۔ اچانک حملے میں منصوبہ ساز مار دیے جاتے تو پشاور سانحہ بھی شاید پیش نہ آتا۔ عمران خان کی طرح نون لیگ بھی درندوں سے بات چیت کی حامی تھی‘ ملالہ یوسف زئیوں کے سروں پر دہکتا ہوا فولاد برسانے والوں کے ساتھ۔ پشاور چرچ میں دھماکے، ایف سی کے 23 جوان ، جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ماتحت شہید ہوئے تو قوم کی آنکھیں کھلیں۔ شریف خاندان نے سجدہ سہو کر لیا۔ زرداری صاحب پہلے سے ان کے خلاف تھے۔ ان کے خیال میں مگر یہ فوج کا دردِ سر ہے۔ اپنی توانائی وہ کیوں برباد کریں؟
کراچی کی دونوں جماعتوں کا موقف آشکار ہے۔ رینجرز دہشت گردوں کا نام و نشان مٹا دیں مگر ان کے اپنے لاڈلوں کا نہیں۔ اگر سپریم کورٹ نہ ہوتی، پیہم واویلا کرنے والا میڈیا اگر نہ ہوتا، فوجی قیادت کی ترجیح اگر نہ ہوتی تو وہ لمبی تان کر سوئے رہتے۔ دلدل میں استراحت فرماتے۔ کراچی میں اس قدر خون بہا کہ رینجرز کو گوارا کرنا پڑا۔ قربانی پیپلز پارٹی نے بہت بڑی دی۔ پیپلز امن کمیٹی کی صورت میں بہت مشقت سے تشکیل دیا گیا قاتلوں کا ٹولہ قربان کر دیا‘ مگر ڈاکٹر عاصم؟ اپنے عاصموں اور اپنی ایان علی کو کون قربان کرتا ہے۔ اپنے حواریوں کو بچانے میں ناکام رہتے تو ساکھ تباہ ہو جاتی۔ ایان علی کی حد تک سبھی نے گوارا کیا۔ میڈیا نے بھی کہ تماشا مددگار تھا۔ ع
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ناقابلِ برداشت تھی۔ میثاقِ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ فوج کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔ چھوٹی موٹی غلطیاں ہو جاتی ہیں مگر پیمان سے بنیادی انحراف کا سوال ہی نہیں۔ شور شرابہ کی بات دوسری ہے مگر 1990ء کی سیاست واپس نہیں آ سکتی۔
کسی کا خیال اگر یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان وزیرِ اعظم کے ایما پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں تو وہ خاطر جمع رکھے۔ وزیرِ اعظم کا مصرعہ ہوتا تو کیا دوسرے وزیر گرہ نہ لگاتے؟ دانیال عزیز تو ڈٹ کر مخالفت کر رہے ہیں، باقی اکثر خاموش۔ دو کشتیوں میں وزیرِ اعظم سوار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عسکری قیادت کے ساتھ ہیں، جنرل راحیل شریف کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں مگر احتیاط کے ساتھ۔ ''جنرل راحیل شریف‘‘ نہیں، ''جنرل راحیل‘‘۔ نیکٹا تشکیل دی‘ مگر نہ دی۔ رقوم فراہم نہ کیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہے مگر کفایت شعاری کے ساتھ۔ سول ادارے فوج کا ہاتھ بٹانے سے انکاری ہیں۔ وزیرِ خزانہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ضربِ عضب پہ اتنا سرمایہ صرف ہو چکا۔ گھر کا سربراہ جیسے آئے دن اعلان کرتا رہے کہ نعمت خانے کے اخراجات کتنے ہیں۔
میاں نواز شریف کو دہشت گرد اب گوارا نہیں۔ فوج کے ساتھ ان کے مگر تعلقات کار ہی ہیں۔ ایک صفحے پر نہیں۔ بعض بدگمان تو یہ بھی کہتے ہیں، کہ فوج اگر سندھ اور بلوچستان کی دلدل، مشرقی اور مغربی سرحد پر پھنسی رہے تو وہ شاد ہیں۔
فوجی قیادت اب کیا کرے گی؟ ظاہر ہے کہ اب پھونک پھونک کر قدم رکھے گی۔ مقدمہ اس کا مضبوط ہے۔ پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہے۔ فعال طبقات بھی۔ میڈیا ڈٹ کر حمایت کرے گا۔ وہ خود ہدف ہے۔ پھر یہ کہ میڈیا ایک ایسی مچھلی ہے، جو عوامی احساسات کے سمندر میں جیتی ہے۔ وہ اس قدر نامقبول موقف کی تائید کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ کام تو میرے مکرّم دوست مولا بخش چانڈیو ہی کر سکتے ہیں۔ بھٹوازم ان کا نظریہء حیات ہے اور آصف علی زرداری ان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ منڈیلا نے کہا تھا: ''میں نے محسوس کیا کہ میرے ذہن اور میری روح کے سوا وہ سب کچھ چھین سکتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں اب بھی میرے پاس ہیں، میرے اختیار میں ہیں‘‘۔
آدمی اپنی ترجیحات پہ بروئے کار آتا ہے۔ پاکستان کے تاجر سیاستدانوں کی غایتِ اولیٰ کیا ہے؟ اقتدار اگر حاصل ہے تو دولت بھی اپنی ہے۔ تھانیدار کو اگر ہوٹل کھولنے کی اجازت ہو؟ بارہ برس ہوتے ہیں، اسلام آباد کے سہالہ تھانے کا ایس ایچ او نیو یارک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم فرزند کو ایک لاکھ روپے ماہوار بھجوایا کرتا۔ وزیرِ داخلہ معین الدین حیدر کو ان کے سیکرٹری نے بتایا تو ٹیلی فون پر اسے معطل کرنے کا حکم دیا۔ دلاور ایسا تھاکہ اسلا م آباد کے سب سے نیک نام رپورٹر انجم شکیل پر دہرے قتل کا مقدمہ بنایا۔ تھانیداری سے نکالا گیا تو ایک اخبار نویس کی دہلیز پہ پڑا تھا۔
قانون دان یہ کہتے ہیں کہ سندھ اسمبلی کی قرارداد پر 1997ء کا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ غالب ہے۔ فوج مجبور ہے اور نہ عوامی تائید سے محروم۔ یہ 2007ء نہیں کہ وردی پہن کر وہ بازار نہ جا سکتے تھے۔ ساری دنیا میں افواج سیاستدانوں سے زیادہ مقبول ہوا کرتی ہیں۔
پاکستان میں سیاستدانوں نے سول ادارے تعمیر نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ زلزلے اور سیلاب ہی نہیں، ہر آفت میں فوج بروئے کار آتی ہے۔ وہ ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے سے گریز کرے تو اور بھی ہردلعزیز رہتی ہے۔ سیاچن کی بلندیوں سے کراچی کے ساحل تک اپنے سرخ لہو سے وہ تاریخ انہوں نے لکھ دی ہے کہ ایک کروڑ عاصمہ جہانگیریں بھی مٹا نہیں سکتیں۔
جی ہاں! ملک چلانا سیاستدانوں کا کام ہے، فوج کا نہیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے اورکرے تو ٹھینگا باجے۔ مگر کیا سیاستدانوں کا کام کاروبار بھی ہے؟ آزادیء عمل ان کا حق ہے مگر کیا کرپشن کی آزادی بھی؟ مکرّر عرض ہے کہ ذمہ داری اختیار کے ساتھ ہوتی ہے۔ سندھ اسمبلی کی قرارداد فیصلہ نہیں، ایک پڑائو ہے۔ کوئی دن میں فیصلہ ہو جائے گا کہ عوام اور فعال طبقات کس کے ساتھ ہیں۔ اس وقت تک انتظار فرمائیے۔ تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔
پسِ تحریر: میرا اندازہ اگر درست ہے تو چوہدری نثار کا مستقبل خطرے میں ہے۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر عاصم آخری ''معصوم‘‘ نہ تھے۔ عزیر بلوچ سمیت ابھی کئی ڈاکٹر عاصم باقی ہیں۔ ایان علی کے سوا بھی ایان علی ہیں۔