زرتشت نے کہا تھا: ''ہر کم مایہ چیز اپنی کم مائیگی کے الزام سے بری ہے‘‘۔
یہ مشکلات نہیں، جو ناکامی کی طرف کھینچ لے جاتی ہیں۔ بحرانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ افراد اور اقوام دونوں کے لیے۔ یہ آدمی پہ منحصر ہے کہ ابتلا اور ادبار میں وہ سوچتا کس طرح ہے۔ انسانوں کا خالق ایسے کسی امتحان سے انسانوں کو دوچار نہیں کرتا، جس سے نمٹنے کی قوت انہیں بخشی نہ ہو۔
یہ ہم پر ہے کہ چیلنج کے مقابل ہم اٹھتے ہیں... یا نہیں اٹھ سکتے اور خود ترحمی کے عالم میں پکارتے ہیں ؎
قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو
کہ ہم تو پا بہ رسن ہیں‘ ابھر نہیں سکتے
ایک آدھ نہیں، دنیا کی تمام اقوام ابتلا سے گزری ہیں۔ بکھر کر وہ منتشر اور پست ہو گئی ہیں یا تاریخ کے ماتھے پر جھومر کی طرح جگمگائی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے بحران نے ہمیں ہراساں کر رکھا ہے۔ سامنے کے چند حقائق یہ ہیں۔ مثالی نہیں تو عرب ممالک سے ہمارے تعلقات خوشگوار ہمیشہ رہے۔ عرب مزاج کے تلون اور زعم کی بات دوسری ہے‘ وگرنہ خلیجی آبادیوں کے ہمیشہ ہم مددگار رہے۔ خطرہ انہیں مغرب سے ہے، اسرائیل سے ہے، ایران سے ہے، بھارت سے ہو سکتا ہے، ہم سے کوئی اندیشہ کبھی نہ تھا۔
ایران عرب کشمکش قدیم ہے۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا: میری آرزو ہے کہ عرب اور ایران کے درمیان آگ کی دیوار حائل ہو جائے۔ ایران مغلوب ہو گیا مگر اپنی عظمتِ رفتہ کے خواب سے کبھی دستبردار نہیں ہوا۔ عربوں کا مزاج بھی یہی ہے۔ دولت کا خمار، غیر منظم اور سطحی قبائلی زندگی۔ اس پر اپنے عرب پسِ منظر کا جنون اور ان صدیوں کی یاد، نصف کرّہ ٔخاک پہ جب ان کا علَم لہرایا کرتا۔ ہماری ہی طرح ذہنی طور پر الجھی ہوئی اقوام اور بقول اقبال ؎
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش
یورپ کی جگہ اب ریاست ہائے متحدہ نے لے لی ہے۔ اصلاً وہ یورپ ہی کی توسیع ہے اور فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔ یہود میں ہے۔ فرقہ وارانہ تعصبات کی آبیاری کرتے ہوئے، عرب اور ایران نوشتۂ دیوارکو نظر انداز کرتے ہیں ۔ یہ کہ مغرب کے مقاصد کیا ہیں۔ تعصب جنون کو جنم دیتا ہے اور جنون میں ہوش و خرد کا کام کیا۔ مغرب کا ایجنڈا واضح ہے۔ غلبے کی قدیم انسانی جبلّت۔ تمام انسانی تاریخ کا خلاصہ یہی ہے کہ کوئی قوم عروج پاتی ہے تو وہ تمام بنی نوع انسان پر اقتدار کا سپنا دیکھتی ہے ۔ عالمِ اسلام کوپامال کر ڈالنا آج کے مغرب کی ویسی ہی ترجیح ہے ، جیسی کبھی کمیونزم کی پامالی تھی۔
نئے دور کو اگر27 دسمبر1979ء سے شمار کیا جائے ، سوویت فوج جب افغانستان میں داخل ہوئی ۔تو اس کا نقطہ ٔ عروج کیاتھا؟ شایدصدر بش سینئر کا اعلانِ خدائی ۔ New world order۔ ایک نیا عالمی نظام۔
ایران کے باب میں خدشات پالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بنیادی پالیسی ہماری ٹھیک ہے ۔ ایک عرب ملک نے جنرل محمد ضیاء الحق سے جب کہا کہ شاہی خاندان کی حفاظت پہ مامور پاکستان کے فوجی دستے میں فلاں فرقے کے افراد شامل نہ ہوں تو انہوں نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ انہیں واپس بلا لیا۔ خدا کا شکر ہے ،کہ مارشل لائی حماقتوں کے باوجود ہماری فوج ایک قومی فوج ہے۔ افغانستان کی طرح اس میں شمال اور جنوب کی تفریق نہیں۔ ساری کمزوریوں کے باوجود ، اللہ کا شکر ہے کہ ہماری سول سروس بھی اس کشمکش کا شکار نہیں۔ بڑی حد تک ہماری سیاسی پارٹیاں بھی... اور کیوں نہ ہوں؟ سیاست کا ایجنڈا بہت مختصر سا ہوتاہے ۔ امن و امان، ٹیکس وصولی، نظامِ عدل کا قیام اور ایک موثر سول سروس کی تشکیل۔ سیاسی استحکام کا حصول کہ معیشت فروغ پائے، خارجہ پالیسی آزاد رہ سکے۔ جان و مال محفوظ ہو۔ صحت اور اس سے زیادہ تعلیم کے ادارے فروغ پائیں۔ ہمار ے حکمران شعبدہ بازی کو شعار نہ کریں۔ کہیں سے آغاز فرمائیں تو فصل پروان چڑھنے لگے مگر یہ بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے !
عراق ایران جنگ میں ہم غیر جانبدار رہے ۔ اس کے باوجود کہ عربوں پر ہم انحصار کر سکتے تھے اور ایران پر نہیں ۔ عین حالتِ جنگ میں ایرانی ہوا بازوں کو ہم نے تربیت دی اور چین سے منگوائی گئی اسلحہ سے بھری ریل گاڑیاں شبوں کی تاریکی میں انہیں پہنچائیں ۔ ایرانی پریس میں پاکستان کے خلا ف پروپیگنڈے کی پیہم بھرمار کے باوجود ایران کے باب میں حد درجہ احتیاط کی روش پر ہم گامزن رہے۔ ایرانی کبھی آسودہ نہ ہو سکے۔ ہمی سے کیا ، کبھی کسی سے نہیں۔ باایں ہمہ ہماری پالیسی ٹھیک رہی ۔ فریق بننے سے ہمیں گریز کرنا چاہیے تھا، جس طرح کہ یمن میں ۔ اپنے قومی اتحاد کو ہم کیوں دائو پر لگاتے؟ تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہی سوچنا چاہیے ۔ پاکستان عالمِ اسلام کا رہنما ہوتا، اگر اپنی اہمیت کا ہمیں ادراک ہو سکتا۔ اگر اس کے تقاضے ہم پورے کرتے۔ اگر ہم عاقبت اندیش ہوتے۔
سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ کو آج پاکستان پہنچنا ہے۔
حضرتِ ناصح گر آئیں ، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
ان کی مدد ہم کر سکتے ہیں لیکن ایران کے خلاف نہیں۔ اصل مسئلہ ان کا ایران نہیں؛ اگرچہ وہ اس سے خوف زدہ ہیں۔ اصل مسئلہ اسرائیل ہے اور اگر وہ وقت آیا، جس کا اندیشہ ہے تو پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ ہو گی۔
ہم اپنے مسائل کے گرداب میں ہیں ۔ افغانستان ایک مستقل دردِ سر ہے ۔ کچھ ہماری اپنی اور کچھ ان کی حماقتوں کے طفیل ۔ 1974ء تک پھر بھی آسان تھا۔ ظاہر شاہ کا طرزِ عمل بھی دوستانہ بہرحال نہ تھا ۔ وہ مگر ایک سیاست مدارتھے۔ روسی اور بھارتی ترغیبات کے باوجود غیر ضروری تنازعات سے گاہے گریز کرتے۔ بھاریتوں کو اوّل روز سے ادراک ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اگر حل ہو جائے۔ ایک ہزار سال کا تاریخی اشتراک رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا رشتہ دل سے استوار ہو جائے تو بھارت مشکل میں ہوگا۔ دہلی جانتا ہے مگر ہمارے فیصلہ ساز کم کم ۔ پھر یہ کہ مغرب کا انگوٹھا ہمارے گلے پر رہتا ہے ۔ مرعوب دماغ بڑی تصویر نہیں دیکھتے۔ وزارتِ خارجہ کے بابوئوں کا نہیں، یہ سیاسی قیادت اور اہلِ دانش کا کام ہے ۔ مگر یہ دولت کے پجاری سیاستدان‘ یہ این جی اوز کے بچے!
چین نے اپنے دروازے ہم پر کھول دیے ہیں۔ حماقت کی حد ہے کہ تجارتی راہداری کے عظیم منصوبے کو ہم نے متنازع کر دیا۔ قطر سے گیس کی درآمد کو پراسرار بنادیا اور توانائی کے منصوبوں پر‘ جن پر ہمارے مستقبل کا انحصار ہے ، پرلے درجے کی غیر ذمہ داری کے مرتکب ہیں۔
دہرانا پڑتا ہے اور میں دہراتا ہوں ۔ پولیس کی اصلاح کہ امن قائم رہے ۔ نظامِ عدل کی تشکیل اور ٹیکس وصولی ۔وزیرِ خزانہ کے پیش کردہ اعداد و شمار پر اس ناچیز کو تو اعتبار نہیں ۔ گیارہ فیصد کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ٹیکس وصولی کی شرح 9فیصد سے زیادہ نہیں ۔ 1986-87ء میں چودہ فیصد تھی ۔ گیارہ فیصد شاید اس طرح ہو کہ مالی سال کے آخری دنوں میں 60، 70ارب روپے زاید وصول کر لیے جاتے ہیں ۔ جولائی میں واپس ۔ تفصیلات پھر کبھی ۔
آدھی معیشت غیر دستاویزی ہے ۔ تین برس میں اگر سولہ فیصد کا ہدف حاصل کیا جا سکے ۔ اگر باقی ماندہ 50 سے 60 فیصد کالی معیشت میں سے آدھی دستاویزی کی جا سکے ۔ 2600ارب روپے کی بجائے، جو امسال کا ہدف ہے، 2018-19ء میں ہم 5000 ارب روپے وصول کر رہے ہوں گے۔ مگر جناب زرداری، مگر میاں محمد نواز شریف اور انتہا تو یہ ہے کہ جناب عمران خان مدظلہ العالی۔ زرتشت نے کہا تھا: ''ہر کم مایہ چیز اپنی کم مائیگی کے الزام سے بری ہے‘‘۔