زندگی بدلتی ہے اوربدلتی ہی رہنی چاہیے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا مگر یہ کیا کہ زندگی سے رچائو اور گداز ہی رخصت ہو جائے ۔اگر کوئی للک اور تان نہ ہو ۔ا گر کوئی امنگ اور خواب نہ ہو تو باقی کیا بچے گا ؟ دو ٹانگوں والے جانور ؟
ویلین ٹائن ڈے ہو یا کچھ اور‘برادرم نصرت جاوید سے اتفاق مجھے خال ہی ہوتا ہے۔ان کی جرأت اور دردمندی کا میں البتہ قائل ہوں ۔ چینی مفکر نے کہا تھا: لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بادشاہ بنے یا بھکاری ۔ زندگی ،حرف و بیاں کی نذر کرنے و الے کا ہر لفظ جو د و سخا کا مظہر ہوتاہے، اگر وہ واقعی سچّا ہو ۔ شاہ حسین یا کوئی اوراہلِ صفا کی صحبت میںجینے والے شاعروں سے معاشروں نے اس لیے اٹوٹ محبت کی کہ منافقت کے خلاف انہوں نے اعلانِ جنگ کیا اور کبھی پیچھے نہ ہٹے ۔
قصور شہر میں ہم داخل ہو رہے تھے ۔ درویش سے میں نے سوال کیا : اس دیار کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ۔ فرمایا: کاروباری اور مذہبی ریاکار بہت ہیں ۔ ارادہ یہ تھا کہ شہر کے مسقف بازار کی زیارت کی جائے ۔پھر فقیر کے در پر حاضری ہو، صدیوں سے جس کی آوازکانوں میں رس گھول رہی ہے ۔ صدمہ پہنچا۔ عرض کیا: کمال کرتے ہیںآپ ، یہ بلّہے شاہ کا قریہ ہے ۔ جواب ملا: بلّہے شاہ اسی ریاکاری کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔
مؤدبانہ ‘علمائِ کرم کی خدمت میں عرض ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کو اگر انہوں نے شعار کیاتو نئی نسل کے باغیوں کو کچھ اور بھی تحرک وہ بخشیں گے ۔ ا ن کی وہ نہیں سنتی۔خیر یہ ایک دوسری بحث ہے ۔ جو بات نصرت جاوید نے کہی ہے ، مارگلہ کی سنہری دھوپ میں اس نے درد گھول دیا: میٹرو اور اورنج ٹرین سے بچا ہوا ،باقی ماندہ میرا لاہور مجھے واپس کر دو۔
ربع صدی ہوتی ہے ، جب نصرت نے لاہور کو الوداع کہا تھا اور اس ناچیز نے بھی ۔ہم دو مختلف دنیائوں کے مسافر ۔سولہ برس ہوتے ہیں ، سی ٹی بی ٹی پر ایک بحث کے ہنگام، طلعت حسین جس کے میزبان تھے، میرے موقف پر نصرت نے کہا : برسوں کی رفاقت ہے مگر الحمد للہ آج تک کسی ایک بات پر ہم متفق نہ ہوئے ۔ آج اس ظالم نے مگررُلا ہی دیا۔ غالبؔ یاد آئے اور پھر میرؔ یاد آئے۔ پھر اس منفرد نثر نگار دائود رہبر کی ایک عبارت ،قدیم لاہور کا جس نے مرثیہ لکھا تھا ۔ مال روڈ پر کہنہ شجر وہی ہیں ۔ لارنس گارڈن وہی ہے ۔ 1849ء میں سکھ سرداروں نے جہاں ہتھیار ڈالے تھے۔شالیمار باغ کے فوارے اور سحر بھی ، جہاں کبھی شاہجہاں اور نور جہاں جلوہ افروز ہوا کرتے ۔
اختتامِ سرما پر کبھی ایک دن اپنا سامان ہوٹل میں چھو ڑکر پیدل میں لاہور کے ریلوے سٹیشن پر جاتا ہوں ۔پوٹھو ہار میں گندم کے جاں فزا سبزے اور پاگل کرتی سرسوں سے پہلے ، دریا کے پار اتر جانے کے بعد‘ اوّلین کرنوںمیں نور جہاں کا مزار یہ آنکھیں ڈھونڈتی ہیں ۔ پینتالیس برس پہلے ایک دوست کے سا تھ جہاںجایا کرتا۔یادیں ہجوم کرتی ہوئی آتی ہیں ۔ وہ دریا جو کبھی تھا اور اب نہیں ہے ۔ سحر دم کتنی ہی بار جس کی موجوں کا شباب دیکھنے کے لیے بستر کی آسودگی کو خیر باد کہا جاتا۔ اس ملکہ کا مرقد، جس نے پیش گوئی کی تھی ۔
بر مزارِ ماغریباں نے چراغے‘ نہ گلے
نے پرِ پروانہ سوزد‘ نے صدائے بلبلے
اس طویل سفر کے بعد1860ء میں اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر نے ، جو پنشن کی بازیابی کے لیے کیا تھا، اس نے یہ کہا تھا ؎
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
ا ک تیر مرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
ایک کے بعد دوسری بستی میں قیام کرتے ، دلّی سے اسد اللہ خان غالبؔ وہاں پہنچے ۔وہ بے نیل و مرام لوٹ آئے ۔ اس ناکامی اور اس زخم کو طرح دار شاعر نے بھلانے کی کوشش کی۔دلآویز مناظر البتہ یاد رکھے ۔ وہ دریا ، وہ لوگ ، وہ کھیت اور وہ شفق آلود آفاق۔ دلّی سے غالب ؔکو محبت تھی مگر میرؔ کو ان سے زیادہ ۔لکھنؤ پہنچے اور ان پر ٹھٹھا کیا گیا تو اپنا گھر یاد کیا۔
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکارکے
دلّی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
بیچ میں ایک مصرعہ ہے ۔ ''جس کوفلک نے لوٹ کے ویران کر دیا۔‘‘ دلّی تو جنگوں کی نذر ہوا ۔ فاتحین نے اسے برباد کیا اور خانہ جنگی نے ۔ ہمارا لاہور کس کی بھینٹ چڑھا ؟رستے بستے ایک شہر کی بجائے وہ سیمنٹ اور سریے کا ایک جنگل کیسے ہو گیا۔ لوئر مال پہ کتابوں کی ایک دکان ہے ۔ گویاایک نگار خانہ ہے ۔ ہزار ہا کتابیں۔ دل جاگ اٹھتا ہے۔ اوّل تو میرے مکرّم افضال احمد نے ستم ڈھایا ۔ دس بارہ کتابیں میں چنتا ۔ قیمت پوچھتا تو وہ جواب دیتے : پانچ سو روپے ، تبر ک کے طور پر ۔ پھر اس شاہراہ پر میٹرو کا پہاڑ سا اٹھا۔ دل پر پتھر رکھ کر کبھی کبھار اب بھی جاتا ہوں ۔ اس گول باغ کے سامنے ، جس میں کبھی شام بسر ہوا کرتی ۔ اس مال روڈ سے گزر کر ، جہاں سرما کی شاموںمیں ٹولیاں چہل قدمی کیا کرتیں۔ جہاں کبھی معراج خالد اپنی دھیمی رفتار کے ساتھ مگن سے دکھائی دیتے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد ، نواب کالا باغ کی مونچھوں تلے‘کتنی ہی داستانیں جن کے ساتھ وابستہ تھیں ۔کبھی ڈاکٹر سید عبد اللہ سینے سے کتابیں چمٹائے گزرتے۔ خلیل ملک ، فاروق گیلانی اور یہ ناچیز۔مینزی نام کا ایک ریستوران ہوا کرتا تھا،شاہ دین بلڈنگ میں ۔ فاروق گیلانی نے ایک شام کہا : اگرپکوڑے مل سکیں ۔ شیف سے ملاقات کی درخواست کی۔ اس نے کہا : پکوڑے ہم نہیں بناتے۔ مودبانہ کہا : میں سکھا سکتا ہوں ۔ وہ ہنسا : صاحب ، اس میں سیکھنے والی کون سی بات ہے؟
ایسی خوش دلی کے ساتھ ، جو کوئی پتھر دل ہی ٹال سکتا ، منیجر سے اس نے کہا: فرمائش پوری کرنے میں حرج کیا ہے ؟۔ اس کے بعد ہر شام وہاں پکوڑے تلے گئے۔ کچھ دن میں پودینے ، انار دانے اور ادرک کی چٹنی بھی رواج پا گئی ۔
وہ لوگ خیال و خواب ہوئے۔عباس اطہر کہاں چلے گئے؟حیدر بھائی کیا ہوئے ؟ سیاحوں کے وہ پرے ، جن کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریز ی میں تبادلۂ خیال ہوا کرتا۔ لاہور والوں کی میزبانی کے ذکر میں انہیں الفاظ نہ سوجھتے تھے۔ لارنس گارڈن وہیں ہے ، مال روڈ کے فٹ پاتھ بھی وہی ۔ آسمان پر چاند آج بھی مسکراتا ہے اور ستارے بھی مگر وہ لاہور مر گیا۔ مرا نہیں ، اسے قتل کیا گیا اور پیہم کیا جا رہا ہے ۔ ایک بسنت کا کیا رونا نصرت جاوید ، جو کمزور حاکمیت اور چھچھورے نو دولتیوں کی بھینٹ چڑھی ، پورا لاہور ہی مار ڈالا گیا۔ گنڈاسے کے پے درپے وار کر کے لاہور کے نگار خانے قتل کر دیے گئے ۔ شہر پر شریف اقتدار کا سورج طلوع ہوا تو تھیٹر دفن ہوا اور اس کی جگہ بھانڈوں نے لے لی، جن کے نزدیک ماں‘ بہن اور بیٹی کی ذرا سی تقدیس بھی نہیں ۔ کسی سینے سے دھواں نہیں اٹھتا ۔ دلوں کو ہم نے پتھر ہوتے دیکھا۔ ساری بستی بازار ہو گئی اور بازار انسانی آبادیوں کا بدترین حصہ ہوا کرتے ہیں ۔ آدمی کہاں ہے ؟ وہ ذوقِ لطیف کہاں ہے؟ اورع
وہ لوگ گئے کس بستی کو ، دل جن کے لیے تھے شیدائی؟
زندگی بدلتی ہے اور بدلتی ہی رہنی چاہیے ۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا مگر یہ کیا کہ زندگی سے رچائو اور گداز ہی رخصت ہو جائے ۔اگر کوئی للک اور تان نہ ہو ۔ا گر کوئی امنگ اور خواب نہ ہو تو باقی کیا بچے گا ؟ دو ٹانگوں والے جانور ؟