ذہنی ا ور اخلاقی طور پر یہ ایک یتیم حکومت ہے ۔ سانحہ ٔ گلشن اقبال کے زخمیوں کی دیکھ بھال قوم کو خود کرنا ہوگی ۔
بالآخر معاہدہ ہو گیا اور اس کے سوا کیا ہوتا۔ عام طور پر ایسے مظاہروں کی عمر چار دن سے زیادہ نہیں ہوتی ، غیر تربیت یافتہ مظاہرین جہاں موسم کے رحم و کرم پر ہوں{ جن کے لیے خوراک اور پانی کی رسد روکی جا سکتی ہو ۔
معاہدے کی خلاف ورزی کے علاوہ مظاہرین نے جلائو گھیرائوسمیت جو کچھ کیا سوکیا۔خود حکومتی دماغ کہاں تھے؟وفاقی وزیرِ داخلہ پنجاب کی افسر شاہی کو اس بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کو معاہدے میں شریک ہونا چاہیے تھا۔دارالحکومت اسلا م آباد پر یلغار کی خواہش فطری تھی ۔ تاریخ یہی ہے کہ اجتماع کرنے والے مطالبات منوانے میں اگر سنجیدہ ہوں تو وہ اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں ۔ ہر ایک کے وعدے پر اعتبار نہیں کیا جاتا ۔ایک نیک نام افسر نے کہا : مولانا فضل الرحمٰن کے حامیوں پر کبھی میں نے اعتماد نہ کیا۔ جماعتِ اسلامی کے میاں محمد اسلم ، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ پر ہمیشہ بھروسہ کر لیا۔ آپ ا ن کا لب و لہجہ اور بدن بولی دیکھتے ہیں ۔ ایک ذمہ دار افسر ان سے براہِ راست رابطہ رکھتا اور انتظامات سے آگاہ رہتا ہے ۔ انٹیلی جنس اس کے سوا ہے ۔ ہمیشہ سے یہی طریق چلا آتاہے ۔
پیپلز پارٹی کے دور میں علامہ طاہر القادری کا دھرنا ایک دوسری مثال ہے ۔ تیس ہزار افراد اس میں شریک تھے ۔ رحمن ملک ایسا
آدمی وزیرِ داخلہ تھا ، جو پولیس افسروں اور انتظامیہ کو زچ کیے رکھتا ۔ کسی وقت بھی وہ حماقت کا ارتکاب کر سکتاتھا۔ کسی بھی ایسے خیال کی طرف لپک سکتا تھا، جو ماحول بگاڑ دے۔ ایک بار اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، دھرنے سے چار دن قبل جو دارالحکومت پہنچا تھا کہ دھرنے کی حدود و قیود (Protocol)طے کرے ۔ اسلام آباد کے کمشنر نے اس پر وزیرِ داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو ایک خط لکھا : یہ ایک غیر قانونی اقدام ہو گا ‘ اس لیے کہ یہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کا اختیار ہے ۔ اس دوران اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی۔ اس نادرِ روزگار آدمی نے صبح سویرے کمانڈو آپریشن کر کے علامہ طاہر القادری کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کمشنر نے براہِ راست صدر زرداری سے رابطہ کر کے انہیں روکا۔
تمام تر تیاریاں پہلے کی جاتی ہیں ، بعد میں نہیں ، جیسا کہ اب دیکھنے میں آیا؛اگرچہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ ہجوم کا کوئی لیڈر تھا اور نہ کوئی ایک جماعت۔ تین ہزار سے لے کر پانچ سات ہزار تک کی تائید رکھنے والے چھوٹے چھوٹے رہنما مہم جوئی پر تھے مگر یہ تو ممکن تھا کہ ان سب سے ضمانت لی جاتی ۔ سرکاری افسر جلسہ گاہ میں موجود رہتے ہیں۔ لیڈروں کو اس وقت تک وہ رخصت ہونے کی اجازت نہیں دیتے ، جب تک سامعین منتشر نہ ہو جائیں ۔
سکندر نامی شخص نے اسلام آبا دشہرکو یرغمال اور حکومت کو تماشا بنا دیا تو چوہدری نثار علی خان لاہور روانہ تھے ۔ اعتزاز احسن کا اعتراض ہے کہ اپنا سفر انہوں نے جاری کیوںرکھا ۔ سوال یہ ہے کہ دارالحکومت میں ان کی موجودگی سے کیا حاصل ہوتا؟ فیصلہ پولیس افسروں کو کرنا تھا ۔ کارنامہ کس طرح انجام دیا جاتا؟ جس طرح زمرد خاں نے اپنے طور پر دیا، جنہوں نے اپنی زندگی اب یتیم بچوں کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔ یہ قوتِ فیصلہ کا سوال تھا ۔ چوہدری نثار علی خاں کو حکم دینے سے گریز کرنا چاہئیے تھا۔ ایک تربیت یافتہ سرکاری افسر کو کیا ڈرائیورجتنی آزادی بھی نہیں ہونی چاہیے ، جسے منزل بتا دی گئی ہو؟
''سیاستدان آتے جاتے رہتے ہیں ۔‘‘ قائدِ اعظم نے سرکاری افسروں سے کہا تھا ''آپ کو فقط قانونی احکامات کی پیروی کرنی چاہیے ۔‘‘ قانون اور ضابطوں کی اب کوئی حیثیت نہیں ۔ چھ برس ہوتے ہیں ، پنجاب کے نئے آئی جی کا تقرر ہونے والا تھا۔ ڈوگر نامی ایک صاحب رائے ونڈ پہنچے ۔ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اورکہا: عمر بھر شریف خاندان کا میں وفادار رہوں گا۔ دو دن بعد ان کا تقرر عمل میں آگیا۔ اہلیت ؟ ترجیحات؟ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ؟ ان چیزوں کی شاید کچھ اہمیت نہیں ۔ نوّے کے عشرے میں نواز شریف وزیرِ اعظم تھے تو لاہور میں بم دھماکہ ہوا ۔ پولیس افسر کو بار بار وہ فون کرتے رہے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ میاں صاحب کے ہم جماعت تھے ۔بعد میں اس نے یہ کہانی خود سنائی ۔ وہ ایک مشہور مغنیہ اور اداکارہ کی بارگاہ میں تھا، 90ء کے عشرے میں جس نے ایک بھارتی فلم میں بھی کام کیاتھا۔ پولیس افسر سے اس نے کہا : دوستی عزیز ہے تو یہیں رہو ۔ بالآخر وہ وزیرِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ڈانٹ کر انہوں نے کہا : جھوٹ مت بولو، صاف صاف بتائو تم کہا ں تھے۔ صاف صاف اس نے بتا دیا اور معاف کر دیا گیا۔بعد ازاں میں اس سے ملا تو اس کی خوش اخلاقی نے حیران کر دیا مگر اس کا طرزِ عمل ؟ مگر وزیرِ اعظم کی عالی ظرفی؟
1990ء میں نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو ان کے لیے دفاعی صورتِ حال پر بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ انتظامی سربراہ کے لیے یہ بڑی اہم معلومات ہوتی ہیں ۔ صدر غلام اسحق سے انہوں نے کہا: آپ خود ہی زحمت کیجیے ۔ صدر نے کہا: میرے لیے نہیں ، یہ اہتمام آپ کی خاطر ہے ۔ تھوڑی دیر میں اکتا کر وہ تشریف لے گئے ۔ ہیلی کاپٹر پر اسلام آباد سے سینکڑوں میل دور ایک گل بہار وادی میں ۔ صد ر حیران تھے اور عسکری قیادت بھی ۔ ایک سبکدوش فوجی افسر نے کہا: دونوں کے ساتھ خدمت انجام دینے کا موقع ملا۔ میاں صاحب دو منٹ اور محترمہ تین منٹ سے زیادہ متوجہ نہ رہا کرتیں ۔ ایک برسرِ کار افسر نے بتایا: جنرل پرویز مشرف کا عالم بھی یہی تھا ۔ دیانت داری کامطلب انہماک ہے ۔ مسلسل سننا، مسلسل سیکھنا۔ ذہن پر زور ڈالتے رہنا۔ خرچ کرنے سے عقل کم نہیں ہوتی ، بڑھتی ہے ۔ لیاقت اسی کا نام ہے ۔
ابھی ابھی لاہور سے کسی نے فون کیا۔ جناح ہسپتال لاہور میں دوائوں کا کل بجٹ 29کروڑ ہے۔ سب کا سب خرچ ہو چکا۔ اگلے تین ماہ کا بھی ۔ اکثر یہ رقم وزیرِ اعلیٰ اور مشیرِ صحت کی فرمائشیں ہی پوری کر پاتی ہے ۔ گلشنِ اقبال پارک کے زیادہ زخمی وہاں پڑے ہیں ۔ وہ عطیات جمع کر رہے ہیں۔ ایک انجمن تشکیل دی گئی ہے۔ صرف دوائوں کی نہیں ، آپریشن کے لیے بہت سے ضروری سامان اور بعد میں مصنوعی اعضا کی بھی ضرورت ہوگی۔
Patients welfare society. Jinnah Hospital Lahore Account Number 12447900406301 Habib Bank Limited,Allama Iqbal Medical College Lahore
ذہنی ا ور اخلاقی طور پر یہ ایک یتیم حکومت ہے ۔ سانحہ گلشن اقبال کے زخمیوں کی دیکھ بھال قوم کو خود کرنا ہوگی ۔