فی الحال ایک سوال پریشان کرتا ہے: عدالتِ عظمیٰ کہاں ہے؟
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟
حیرت ہوتی ہے‘ کچھ لوگ شریف خاندان سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنے تمام اثاثے ظاہر کرکے قوم کو اعتماد میں لیں۔ کچھ دوسرے ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر انہیں سب کچھ بتانا ہوتا تو چھپاتے ہی کیوں۔ رہا استعفیٰ تو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ کیا ملک کو استحکام نصیب ہو جائے گا؟ اصل چیز قانون کی بالاتری ہے۔ ایک نو آزاد ریاست میں یہی سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔
ارادہ نہ ہو تو دوسری بات ہے مگر آئین کی کتاب میں سب کچھ لکھا ہے۔ دو دن کے دبائو کی وزیرِ اعظم تاب نہ لا سکے۔ سپریم کورٹ کے سبکدوش جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ پورے عزم سے دبائو برقرار رہے تو وہ اس اقدام پر آمادہ ہو سکتے ہیں، جو آئین اور قانون کی روح کے عین مطابق ہو‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔
سیاستدانوں اور دانشوروں نے کیسے کیسے مغالطے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ نون لیگ والوں نے شوکت خانم ہسپتال کی سرمایہ کاری کا قصہ چھیڑا۔ فرض کیجیے، یہ ایک یکسر غلط فیصلہ تھا تو بھی یہ شوکت خانم کے عطیہ دہندگان کا مسئلہ ہے۔ نون لیگ کا دردِ سر کیسے ہو گیا۔ ایک وفاقی وزیر نے، اس کے نام سے اب گھن آتی ہے، یہا ں تک ارشاد کیا کہ لندن میں کپتان کے صاحبزادوں کا خرچ کون اٹھاتا ہے۔ ارے صاحب! وہ گولڈ سمتھ خاندان کے نواسے ہیں۔ سات برس پہلے جب طلاق ہوئی تو جمائما کے اثاثے آٹھ بلین ڈالر تھے۔ کیا سرکاری بزرجمہر قضیے کو دو بڑی پارٹیوں کی جنگ بنانے کا منصوبہ رکھتے تھے؟ عمران خان کا نہیں، یہ پاکستانی عوام کا مقدمہ ہے۔ لوٹ مار ہوئی ہے تو ان کے گھروں میں۔ ٹیکس چرایا گیا ہے تو ان کا۔ کالا دھن اگر سفید کیا گیا تو نقصان انہیں پہنچا۔ صدر اوباما نے کل یہ کہا کہ سمندر پار کمپنیاں عوام کو تباہ کرتی ہیں۔
ایک صاحب نے فرمایا، یہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش ہے۔ معاشی ترقی کا دروازہ جب بھی کھلتا ہے، کوئی نہ کوئی سکینڈل گھڑ لیا جاتا ہے۔ کون سی ترقی اور کس نے افسانہ گھڑا ہے؟ دنیا بھر کے تحقیقاتی رپورٹروں کے ادارے نے اتفاقِ رائے کے ساتھ۔ کسی کو انہوں نے مجرم قرار نہیں دیا۔ اس دولت کو ناجائز نہیں بتایا بلکہ یہ کہا کہ معاملے کی سچائی تحقیقات سے سامنے آ سکتی ہے۔ صدر پوٹن نے مغرب کی روس دشمنی کا جس طرح واویلا کیا، اس سے واضح ہوا کہ دال میں کالا ہے اور بہت کالا ہے۔ اسی شتابی سے وزیرِ اعظم نے سپریم کورٹ کے سبکدوش جج کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ کمیشن کے د وسرے ارکان بھی وہی تجویز کریں گے۔ عدلیہ میں شریف خاندان کا رسوخ کوئی راز نہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس نے تو اپنی خود نوشت میں دونوں بھائیوں کے قصیدے لکھے۔ جسٹس لون کو انہوں نے سینیٹر بنا دیا تھا۔ جسٹس رفیق تارڑ صدارت کے جلیل القدر
منصب پر فائز کیے گئے۔ اور تو اور، افتخار چوہدری نے پانامہ لیکس کو شرفا کی پگڑی اچھالنے کے مترادف قرار دیا۔
عدالتِ عظمیٰ بجائے خود ایک کمیشن قائم کر سکتی ہے۔ ابہام بہرحال اب بھی کوئی نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو از خود نوٹس لینا ہو گا۔ ایسے اور اتنے بڑے بحران میں بھی اگر وہ بروئے کار نہیں آتے تو آئین میں اس کی گنجائش ہی کیوں رکھی گئی؟ ملک ریاض، ارسلان افتخار تنازعے میں سپریم کورٹ نے تحقیقات کے لیے اپنے تمام اختیارات متعلقہ افسر کو سونپ دئیے تھے۔ سول یا فوجی، کسی بھی ادارے کا تعاون وہ طلب کر سکتے تھے۔ چھاپہ مار سکتے اور گرفتاریاں کر سکتے تھے۔ ٹیکس معاملات جانچنے کے لیے جب انہوں نے ایف بی آر سے رابطہ کیا تو وہ لیت و لعل کرتے رہے۔ یہاں تک کہا کہ لاکھوں دستاویزات کی فوٹو کاپیوں کے لیے روپیہ موجود نہیں۔ بالآخر انہیں جھکنا پڑا۔ اس سے پہلے افغان ٹریڈ اور نیٹو کنٹینرز کے سلسلے میں ایک گتھی وہ سلجھا چکے تھے، جس میں انکشاف ہوا کہ اکثر کنٹینر منزل پر پہنچتے ہی نہیں۔ بڑے پیمانے پر یہ سمگلنگ ہے۔ رپورٹ سامنے آئی تو نگرانی کا طریق وضع ہوا اور سرکاری آمدن میں ایک ارب روپے ماہوار اضافہ ہو گیا، جو اب تک برقرار ہے ۔
منزل بہ منزل، قانون کی بالاتری کے لیے معاشرہ اسی طرح جدوجہد کرتا اور ثمربار ہوتا ہے۔ تیس دن کی مقررہ مدت کے بعد ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی تو سپریم کورٹ نے اس معاملے کو نمٹا دیا۔ وہی افسر ضروری نہیں، کوئی فرد ناگزیر نہیں ہوتا۔ طارق کھوسہ یا افضل شگری سے کہیے، کچھ اور نیک نام پولیس افسرو ںکو۔ شرط یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ ان کی پشت پر کھڑی ہو۔ کوئی سرکاری محکمہ تعاون سے انکار نہ کر سکے۔ بجائے خود ججوں کے بس کی یہ بات نہیں۔ عمران خان بادشاہ آدمی ہیں۔ نیب بیچاری اتنے بڑے معاملے میں کیا کرے گی۔ اس کے فوجی افسر مختلف ہیں کہ سفارش کی پروا نہیں کرتے۔ چیئرمین صاحب کو اپنے اختیارات برتنے کا مشورہ دیا گیا تو ان کی نبضیں چھوٹنے لگی تھیں ۔
معاملے کی تحقیقات پاکستان ہی میں ہو سکتی ہے۔ حسین نواز اور ان کے بھائیوں سے تفتیشی افسروں کی چند ملاقاتوں کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ کیا واقعی سعودی عرب میں قرض کے روپے سے انہوں نے کاروبار کیا یا جیسا کہ عام اندازہ ہے، روپیہ ہنڈی کے ذریعے یہاں سے بھیجا گیا۔ ممکن ہے عربوں کے کچھ عطیات بھی شامل ہوں۔ آخر وہ غریب الدیار تھے۔ مسافر کا منعم پہ حق ہوتا ہے۔ اگر یہ قرض تھا تو لاکھوں ڈالر میں ہو گا۔ ظاہر ہے بوری میں ڈال کر نہیں، وہ چیک کے ذریعے دئیے گئے ہوں گے۔ فیکٹری کی پیداوار کا ریکارڈ رکھنا ہوتا ہے۔ پتہ چل جائے گا کہ کتنی آمدن ہوئی۔ بکی تو کتنے میں بکی۔ یہ رقوم کس طرح لندن منتقل کی گئیں۔ میاں شہباز شریف نے مجھے بتایا تھا کہ پاکستان سے تیس چالیس ملین ڈالر خاندان نے برطانیہ منتقل کیے تھے، براہِ راست! انہی دنوں میں بار بار میں نے لکھا تھاکہ خاندان نے لندن میں 500 ملین پائونڈ کے اثاثے خریدے ہیں۔ انہوں نے تردید کی اور کہا: ہم نے صرف تین چار کروڑ ڈالر بھجوائے تھے، اخراجات کے لیے۔
قطعاً کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں اگر عدالتِ عظمیٰ کمیشن قائم کر دے۔ ایسے لوگوں پر مشتمل جو شریف خاندان کے دشمن ہوں اور نہ دوست۔ قحط الرجال ہے مگر ایسا بھی کیا قحط الرجال۔
رہی حکومت کی برطرفی تو اس سے کیا حاصل؟ فوج کو اگر نواز شریف سے نجات پانا ہوتی تو 2011ء سے 2013ء کے عرصے میں یہ ٹنٹا نمٹا دیا جاتا۔ جنرل شجاع پاشا تو بچگانہ باتیں کیا کرتے۔ عسکری قیادت فیصلہ کر لیتی تو امیدواروں کا جو ریوڑ نون لیگ میں جا داخل ہوا، وہ تحریکِ انصاف کا حصہ بنتا۔ یہ مگر ایک تباہ کن فیصلہ ہوتا۔ جو پارٹی پولنگ ایجنٹ مقرر نہ کر سکے، وہ ملک کیا خاک چلاتی؟ سیاست اور دریا کو اپنے رخ پر بہنا چاہیے۔ رہا شریف خاندان تو اندھوں کے سوا ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اب وہ تباہی کے راستے پر گامزن ہے۔ کوئی دن میں اندھے بھی دیکھ لیں گے۔
فی الحال ایک سوال پریشان کرتا ہے: عدالتِ عظمیٰ کہاں ہے؟
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیو ںنہیں دیتے؟