وقت بدل گیا ہے اور سیاست کے تقاضے بھی مگر افسوس کہ سیاسی پارٹیوں کو ادراک نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نئی نسل ان سب کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے۔
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
سیاسی پارٹیاں کس درجہ بے توفیق ہیں۔ پانامہ لیکس سے سوال یہ پیدا ہوا تھا کہ اس کی تحقیقات ہو تو کس طرح۔ مگر ایک بحران پھوٹا اور گہرا ہوتا گیا۔ زندگی اسی کا نام ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر سوالات جنم لیتے اور ان کے جوابات تلاش کیے جاتے ہیں۔ سوالات کو دلدل بنانے کا نہیں۔
بالا دستی سول کی ہونی چاہیے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی افواج کے اقتدار میں ترقی کے معجزے برپا نہیں ہوئے۔ ترقی استحکام کا نام ہے۔ پولیس اپنے فرائض انجام دے۔ عدالتیں انصاف فراہم کریں۔ سرکاری دفاتر میں مسائل کی گتھیاں سلجھائی جائیں۔ ہسپتالوں میں علاج بلا امتیاز ہو‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ جدید تعلیم کے ادارے ایک ولولے کے ساتھ طلبہ کو صیقل کریں۔ یہ ٹیکنالوجی کا عہد ہے۔ اعلیٰ درسگاہوں اور بہترین اساتذہ کے بغیر عصرِ رواں کے چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں۔ ان سب چیزوں کے لیے روپیہ درکار ہے؛ چنانچہ ٹیکس وصولی کا نظام قابلِ اعتبار ہونا چاہیے۔ ایف بی آر 700 ارب روپے سالانہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ خود ہمارے پڑوس میں ٹیکس وصولی کی شرح 16 فیصد ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ہمارے ہاں بھی اتنی ہی تھی۔ بتدریج آٹھ فیصد رہ گئی۔ بمشکل اب 9 فیصد کو پہنچی ہے۔ بیرونِ ملک سرمایہ کی منتقلی اس کے سوا ہے۔ گزشتہ چار برس کے اندر پاکستانی کاروباریوں نے صرف دبئی میں 750 ارب روپے کی جائیداد خریدی ہے۔ اگر یہ روپیہ ملک کے اندر کاروبار میں لگتا؟
دہشت گردی سمیت سرمایے کو خوف زدہ کرنے والے کئی عوامل ہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ کار ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتا۔ وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان، اپوزیشن لیڈروں اور دوسری ممتاز شخصیات کو اپنی مثال سے رہنمائی کرنی چاہیے۔ اگر وہی اپنا سرمایہ ملک سے باہر بھیجنے پر تلے رہیں؟ اگر وزیرِ خزانہ کے فرزند دبئی میں بیس ارب کی جائیدادوں کے مالک ہوں تو دوسرے لوگ کیا کریں گے؟ سالِ گزشتہ انہوں نے ارشاد کیا: اپنے فرزندوں سے میں نے کہا ہے کہ جب تک میں وزیرِ خزانہ ہوں، (کاروباری طور پر) وہ پاکستان میں قدم نہ رکھیں۔ عذرِ گناہ بد تر از گناہ۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے: لوگ اپنے بادشاہوں کی راہ چلتے ہیں۔ پاکستان میں رہ کر اگر وہ قانونی انداز میں کاروبار کریں۔ ملازمتیں فراہم کریں اور خزانے میں ٹیکس جمع کرائیں تو یہ احسن ہو گا یا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنا؟ کیا دنیا میں ایسا دوسرا وزیرِ خزانہ پایا جاتا ہے؟ کیا دنیا میں ایسا کوئی دوسرا وزیرِ اعظم موجود ہے؟
پاکستان بھارت کا پڑوسی ہے۔ اوّل روز سے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو ختم کرنے کا تہّیہ کر رکھا ہے۔ سکیورٹی کے بھارتی مشیر اجیت دوول ریکارڈ پر ہیں کہ طالبان اور صوبے کے علیحدگی پسندوں کی مدد سے وہ بلوچستان کو الگ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کراچی کے قاتلوں اور بھتہ خوروں کی وہ اسی لیے سرپرستی کرتے ہیں۔ کیا برطانیہ بہادر کی ہمدردیاں بھی اس کے ساتھ ہیں؟ بڑے پیمانے پر وہ ایم کیو ایم کے لوگوں کو ویزے جاری کرتے رہے۔ الطاف حسین کو برطانیہ کی شہریت دی گئی۔ عمران فاروق قتل اور الطاف حسین کی طرف سے کالا دھن سفید کرنے کے معاملے میں برطانوی اداروں کا روّیہ ہزار طرح کے سوالات پیدا کرتا ہے۔
کوریا اور تائیوان کی طرح، پاکستان میں فوج کا کردار ہمیشہ معمول سے زیادہ رہے گا مگر کتنا زیادہ؟ سیاسی پارٹیوں اور فوج کے تعلقات اگر خوشگوار ہوں تو حدود کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ روزمرہ سیاست سے ہرگز کوئی تعلق اس کا نہ ہونا چاہیے۔
تعجیل، انتقام اور تصادم ہماری سیاسی جماعتوں کا شیوہ ہے یا پھر اندرونِ خانہ مفاہمت۔ عمران خان نے رائے ونڈ کا گھیرائو کرنے کا اعلان پہلے کیا۔ یہ خیال بعد میں آیا کہ دوسری پارٹیوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ بہترین اور قابلِ اعتبار تحقیقات کے لیے دبائو ڈالنا ان کا حق ہے۔ یہ کام شائستگی سے کیوں نہیں ہو سکتا؟ کہنے کو وہ کہہ سکتے ہیں کہ پرویز رشید، دانیال عزیز، خواجہ سعد رفیق اور طلال چوہدری ایسے لوگ ان کا مذاق اڑاتے اور آوازے کستے ہیں۔ خان صاحب! اسی میں امتحان ہوتا ہے۔ آپ پر تو آوازے ہی کسے گئے۔ قائدِ اعظم کو تو کافرِ اعظم کہا گیا۔ جواب میں انہوں نے کیا کیا؟ مولویوں کو تو درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا، عبدالغفار خان، جی ایم سید، ابوالکلام آزاد اور کانگرسی لیڈروں کو جب ضروری ہوا، ایک آدھ جملے میں نمٹا دیا۔ ''شیرِ بنگال‘‘ فضل الحق حد سے گزر گئے تو ڈھاکہ میں ایک جملہ ان پر چست کر دیا ''کرسمس کے تحفے کے طور پر میں اسے وائسرائے کی خدمت میں پیش کرتا ہوں‘‘۔ ساری توجہ انہوں نے مسلم برصغیر کو بیدار اور متحرک کرنے میں لگائے رکھی۔ 1946ء کے تاریخی الیکشن میں پولنگ کا دن آیا تو وہ لنڈی کوتل کے ایک ریسٹ ہائوس میں قیام فرما تھے۔ کسی نے کہا: قائدِ اعظم آپ کو ممبئی میں ہونا چاہیے تھا۔ فرمایا: مدتوں میں ان کے درمیان جیا ہوں۔ اگر اب بھی وہ مجھے ووٹ نہ دیں تو ان کی مرضی۔
تحریکِ انصاف اگر متبادل پارٹی ہے تو قیادت کی سب سے زیادہ توجہ تنظیم پر ہونی چاہیے۔ ہر سطح پر اچھے لیڈروں کا انتخاب۔ نون لیگ سے زیادہ بہتر امیدوار اسے پیش کرنے چاہئیں۔ ایک بہترین پارٹی وہ ہو گی جو مسائل پر تحقیق کرے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ معیشت، ٹیکس وصولی، بجلی کی پیداوار، تعلیم، سول سروس، پولیس کی بہتری اور امن و امان میں ان کا لائحہء عمل کیا ہو گا۔ اگر وہ قوم کو شاہ محمودوں، اعجاز چوہدریوں اور اسد قیصروں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان کا جوا اپنی گردن میں کیوں ڈالے گی؟ 2012ء کا سال پارٹی کے بے معنی الیکشن میں ضائع کر دیا گیا۔ 2014ء دھرنا اور اب ایک بار پھر وہ اسی راہ پر ہیں۔ دھرنا وہ ضرور دیں لیکن لامتناہی مدت کے لیے بالکل نہیں۔ کاروبارِ حکومت کے چوپٹ ہونے سے اتنا نقصان نون لیگ کو نہیں پہنچے گا جتنا قومی معیشت کو۔ چند دن احتجاج کریں۔ ایک وقفے کے بعد دوبارہ کر سکتے ہیں۔ مقصد تحقیقات ہونا چاہیے۔ افراتفری اور فساد نہیں۔
یہ تو آشکار ہے کہ نواز شریف مستعفی ہو کر وزارتِ عظمیٰ کسی اور کو نہیں سونپیں گے۔ دبائو غیر معمولی ہوا، جس کا امکان کم ہے تو اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کرائیں گے... اور معاف کیجیے، نئے الیکشن میں بھی تحریکِ انصاف جیت نہ سکے گی۔ اس میں دراڑیں پائی جاتی ہیں۔ مغرب، عرب ممالک اور کاروباری طبقے نے تحریکِ انصاف کو قبول نہیں کیا۔ ملکوں اور معاشروں کی تقدیریں ادراک سے بدلتی ہیں، نعرہ بازی سے نہیں۔ جنون اور شعبدہ بازی سے نہیں۔ مقبولیت ہی سب کچھ ہوتی تو 2012ء میں پی ٹی آئی ہر دل عزیز تھی مگر وہ پذیرائی برقرا ر نہ رکھ سکی۔ کراچی میں آٹھ لاکھ ووٹ لیے، پھر اس میں تین چوتھائی گنوا دیے۔ ہنگامہ حد سے بڑھا تو معاملہ فوج کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ کسی کا اس سے بھلا نہ ہو گا۔ ملک کا، فوج کا اور نہ سیاسی پارٹیوں کا۔ وزیرِ اعظم کے لیے بھی مضمونِ واحد ہے۔ اپنے خاندان کو انہیں تحقیقات کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ ایسی تحقیقات، جس پر کم از کم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اعتماد ہو۔
وقت بدل گیا ہے اور سیاست کے تقاضے بھی مگر افسوس کہ سیاسی پارٹیوں کو ادراک نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نئی نسل ان سب کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے۔
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے