سب سے اہم نکتہ وہ ہے جو رحمۃ للعالمین نے ارشاد کیا تھا: دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اقبال نے یہ کہا تھا ؎
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ
بہت چالاکی سے بُنا ہوا جال تارِ عنبکوت ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ کے اقدام سے اس کے پرزے فضا میں بکھر گئے۔ سوکھے پھول کی پتیوں کی طرح۔ یہ علت و معلول کی دنیا ہے۔ عیاری کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ چند گھنٹے، چند دن یا چند سال۔ اللہ کی کتاب میں لکھا ہے: وہی چیز باقی رہتی ہے، خلقِ خدا کے لیے جو نفع بخش ہو۔ کھوٹے اور کھرے کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ لیڈروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اسی لیے وہ منہ کے بل گرتے اور رسوا ہوتے ہیں۔ اقتدار جاتا رہتا ہے اور دولت بھی آخرکار فنا ہوتی ہے۔ قرآن کریم بارش کی مثال دیتا ہے: کھیتیوں میں لہکتا ہوا سبزہ اگاتی ہے مگر پتھروں پر پڑی ہوئی مٹی کو بہا لے جاتی ہے۔ احسان دانش کا شعر یہ ہے ؎
کل دھوپ کے میلے سے کھلونے تھے خریدے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا
ظفر اقبال نے یہ کہا ؎
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا
خوشامدیوں کے جلو میں، نفس کی خود فریبی میں، رہنمائوں کو زعم ہو جاتا ہے کہ وہ منفرد، بلند و برتر اور ناگزیر ہیں۔ قبرستان ان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی، ابراہام لنکن اور ٹیپو سلطان کا سا کسی میں انکسار ہو، قائد اعظمؒ ایسی وفا، ایثار اور توکل ہو تو جگمگاتا رہتاہے۔ وگرنہ ؎
اول و آخر فنا ظاہر و باطن فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزلِ آخر فنا
یونان کا دیو جانس کلبی شاعرانہ مزاج کا دانشور سمجھا جاتا ہے، اصلاً وہ صوفی تھا، ایک صاحب ادراک اور صاحبِ علم مفکر، ساری زندگی جو خود سے لڑتا رہا۔ سکندر اعظم کے ساتھ اس کے مکالمے سے بھی یہی نکتہ آشکار ہوتا ہے۔ عزائم سے لبریز‘ با کمال جنرل نے ان گنت ممالک تسخیر کرنا تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہندوستان کے قلب میں، دنیا کی سب سے زیادہ زرخیز وادیٔ سندھ میں اترنا تھا، درویش سے اس نے کہا: آپ کی میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ کہا: تم؟ تم میرے غلاموں کے غلام۔ مقدونیہ کا جلیل القدر حکمران بھونچکا رہ گیا، جس کی ایک دیوتا کی طرح اطاعت کی جاتی تھی۔ جو اگر بھارت میں پیدا ہوا ہوتا تو اس کے بت بنائے جاتے۔ اس نے کہا: آپ کے غلاموں کا غلام میں کیسے ہو گیا۔ جواب ملا: تم اپنی خواہشات کے اسیر ہو، اپنی آرزوئوں پر میں نے غلبہ پا لیا ہے۔ اس کے سوا تم میری کوئی مدد نہیں کر سکتے کہ ہٹ کر کھڑے ہو جائو اور سرما کی اس سویر، سنہری دھوپ مجھ تک پہنچنے دو۔
روسی ناول وارڈ نمبر6 کا مصنف، ایک کردار کی زبان سے یہ کہتا ہے: یونان کی دلآویز دھوپ میں، لکڑی کے ایک ڈبے میں بیٹھا وہ نارنگیاں کھاتا رہتا۔ روس کے برف زار میں جنم لیا ہوتا تو میں اسے دیکھتا۔ ٹالسٹائی روس کے زمستان ہی میں پیدا ہوا تھا۔ دیو جانس تو خیر عظمت کا ایک پہاڑ ہے، مگر صرف حرف و بیان سے انسانی جذبات اور تیوروں کی تصاویر تراشنے والوں میں ٹالسٹائی جیسا کوئی دوسرا نہ ہوا ؎
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی اپنی جاگیر انقلاب سے بہت پہلے اس نے مزارعین اور غلاموں میں لٹا دی، جو دوستو فسکی اور گورکی کے جلو میں طلوع ہوا۔ غلاموں اور کسانوںکی نفرت سے اس کی آبیاری ہوئی۔ تاریخ میں لہو کے ان گنت دھبے چھوڑ کر ایک فرسودہ سی فرغل پہنے وہ انقلاب رخصت ہوا۔ اب کچھ دیوانے سے رہ گئے ہیں، جو اس کی یاد میں سینہ کوبی کیا کرتے ہیں۔ میکسم گورکی اپنے بلند مقام سے نیچے اترا اور کمیونسٹوں کے لیے ایک ناول اس نے لکھا 'ماں‘۔۔۔۔اپنے فیض صاحب کی طرح سخن شناس وہ بہت بڑا تھا۔ ماں کے حوالے سے بالواسطہ یسوع مسیح کا کردار اس نے شامل کیا۔ اسے نکال دیجیے تو بھوسہ باقی بچے گا۔ کمیونزم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام؟ ایک واقعہ گورکی کا سن لیجیے اور دوسرا سیدنا مسیح علیہ السلام کا۔ لینن کے نام ایک خط میں ناول نگار نے لکھا: ماسکو میں انشاء اللہ (God willing) ملاقات ہوگی۔ انقلاب روس کا معمار ولادی میر لینن اس پر بھنایا اورکہا: اللہ کا اس میںکیا ذکر۔ گورکی نے کہا: محاورتاً۔ حکمران نے کہا: محاورے کے طور پر بھی خدا کا وجود ناپسندیدہ ہے۔ تاریخ کے ابواب میں لینن اب کہاں ہے؟ عہدِ آئندہ اس کا ذکر مزدک کے ساتھ کرے گا، ایک احمق کے ساتھ۔ سیدنا عیسیٰ ؑ اپنے حواری کے ساتھ روانہ تھے۔ گاہے گدھے پر اور گاہے پیدل بھی چلے جایا کرتے۔ پوچھا: تمہاری بغل میں یوحناکیا ہے؟ کہا: یا نبی اللہ، دو روٹیاں ہیں، ایک آج، ایک کل کے لیے۔ فرمایا: یوحنا، توکل میں تو نے ہمیں پرندوں سے بھی کم تر جانا۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ فرمایا کرتے: اگر تم توکل کرو تو پرندوں کی طرح رزق دیئے جائو۔
ہمارے عہد کے اشتراکی تو فقط مال و زر ہی کو اجتماعی ملکیت قرار دینے کے قائل ہیں۔ مزدک خاندان کو بھی، عورتوں اور بچوں تک کو۔ اس کی تحریک پروان چڑھتی گئی مگر جب دارا کی بہن ان کے ساتھ شامل ہوئی تو طوفان اٹھا ؎
درد ہوں اس لیے تو اٹھا ہوں
زخم ہوتا تو بھر گیا ہوتا
بادشاہ کی غیرت شمشیر بن کر لہرائی اور قتل عام کا در کھلا۔ ظاہر ہے کہ خلق خدا نالاں تھی وگرنہ اشتراکیت کے احمقانہ تصورات کو کیوں قبول کرتی۔ پھر سکندر اعظم دارا پہ قہر الٰہی بن کے ٹوٹا۔ فارسی کے عدیم النظیر شاعر حافظِ شیراز کا یہ شعر فیض صاحب کو بہت پسند تھا ؎
از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس
قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
مہر و محبت کی داستانوں کے سوا مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ سکندر و دارا کے قصے میں نہیں پڑھتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سکندر و دارا کی داستانوں میں بھی عبرت کے ہزار مقام ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بے اعتنائی ہی نہیں، مسلم معاشروں کی کمزوریوں میں سے ایک یہ ہے کہ تاریخ کا شغف تمام ہو چکا۔ فوائد الفواد ایسی نادر دستاویز میں بھی بعض واقعات کا بیان ناقص ہے۔ تاریخ کو قرآن کریم ایام اللہ کہتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوںکو وہ بیان کرتا ہے کہ آدمی عبرت کے موتی چنیں۔ پھر وہ حسرت سے کہتا ہے: آخرت ہی افضل و اعلیٰ ہے مگر افسوس کہ تم دنیا کو ترجیح دیتے ہو۔
ترجیح دنیا ہے۔ اقتدار اور دولت۔ نواز شریف دونوں کے پجاری ہیں۔ عمران خان اس مغالطے کا شکار کہ وہ برگزیدہ ہیں۔ اقتدار انہیں مل جائے تو وہ ملک سنوار دیںگے، چوہدری سرور اور شاہ محمود کی مدد سے جو ایک دوسرے کے ساتھ حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی تعمیر کے بغیر یہ ممکن کیسے ہوگا۔ عمران خان انتقام کے آرزو مند ہیں‘ قصاص اور انصاف کے نہیں۔ نواز شریف ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے کے‘ زر و جواہر کے کچھ اور انبار جمع کرنے کے۔ دولت کے اس ڈھیرکا وہ کیا کریں گے:
اس نے مال جمع کیا اور اسے گنتا رہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا۔ مال کیا، وہ خود بھی باقی نہ رہیںگے۔کوئی نہیں رہتا۔ حسین بن منصور خلاج نے کہا تھا: میں ان کے لیے روتا ہوں جو چلے گئے، پھر ان کے لیے روتا ہوں جو راستوں میں سرگرداں ہیں۔
انتقام کی بجائے عمران خان اگر انصاف کے علمبردار ہوتے تو ان کا ستارہ بلندی پر چمکتا۔ مولانا فضل الرحمن ان کے قدموں کی دھول ہو جاتے۔ سپریم کورٹ کے اقدام سے ایک چیز واضح ہو گئی۔ حکومت اور اپوزیشن کو بات کرنا ہوگی۔ سرکاری ٹی او آرز عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیئے۔ اس کے دو نکات زیبا ہیں۔ ساری خلقت کی تحقیقات وہ نہیں کر سکتے ‘حکومت نام بتائے۔ ثانیاً وہ قانون سازی کرے۔ اپوزیشن کے جائز مطالبات کا خلاصہ قبول کر لیا گیا۔ اب اسے عدالت پر اعتماد ہونا چاہیے اور فقط طریقِ کار سے بحث۔
سب سے اہم نکتہ وہ ہے جو رحمۃ للعالمین نے ارشاد کیا تھا: دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اقبال نے یہ کہا تھا ؎
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ