قوموں کی زندگی، ظفر مندی اور مستقبل کا انحصار ان کی اجتماعی بیداری پر ہوتا ہے، کسی ایک یا گنتی کے چند لیڈروں پر نہیں۔ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ کیا عصرِ رواں کے چوراہے پر سوئی پڑی اس قوم کو ادراک ہے یا نہیں؟
فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا: لکھنے والا کتنے مترادفات مسترد کرتا ہے، پڑھنے والا کبھی نہیں جان سکتا۔ اخبار نویس شاعر اور ادیب نہیں ہوتے کہ اپنی تحریروں کو سجاتے اور سنوارتے رہیں۔
اخبار نویس انسانی احساسات اور تیوروں کی تصویر نہیں بناتا۔ سنگین حقائق کا سامنا کرتا ہے۔ شائستگی لازم مگر بے رحمی سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ قاری شاد ہو یا نالاں، لکھنے والے کو ضمیر کا اطمینان چاہیے۔
جی چاہا، کپتان کو ایک پیغام بھیجوں ''کس سہولت سے ادنیٰ لوگوں پر آپ اعتبار اور بھروسہ کرتے ہیں۔ کتنی آسانی سے لائق اور مخلص لوگوں کو بھول جاتے ہیں۔ پانامہ پیپرز کو تمہیں شاہ محمود پر چھوڑ دینا تھا یا اس آدمی سے مشورہ کرنا چاہیے تھا، جو وائٹ کالر کرائم پر دنیا کے ممتاز ترین ماہرین میں سے ایک ہے اور قابلِ اعتماد ذاتی دوست‘‘۔ پھر میں نے سوچا: میں کیا ٹھیکیدار ہوں؟ تحریکِ انصاف والے اگر اخبار نہیں پڑھتے‘ بیس برس میں اگر ڈھنگ کا میڈیا سیل بھی نہیں بنا سکے تو ہم کیا کریں۔ جو خود اپنی مدد نہیں کرتے، کوئی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔
عمران خان کو انتباہ یہ ہے کہ جس طرح کا کمیشن تشکیل پا رہا ہے، اس کا انجام الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات سے مختلف نہیں ہو گا۔ پھر وہ اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے۔ کامیابی ان کے لیے ہوتی ہے، ریاضت، یکسوئی اور حقیقت پسندی سے جو تجزیہ کرتے اور باریک بینی سے حکمتِ عملی تشکیل دیتے ہیں۔ ڈٹ کر کھڑے ہو
جاتے اور جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پہاڑ ٹل سکتے ہیں مگر آدمی نہیں، اگر وہ آمادہء ایثار ہو۔ اگر وہ ہوش و خرد سے کام لے۔ خلوص اور حکمت کو قدرت سرخرو کرتی ہے، ضد اور انتقام کو نہیں۔ سوچنا بہت پڑتا ہے اور ٹھنڈے دل سے۔ جس دل میں انتقام کی آگ جل رہی ہو، عجلت نے جس میں ہیجان پیدا کر دیا ہو، اس کے سر میں دانش کا چراغ کیسے جلے گا؟ خدا کی پناہ، شیخ رشید اور شیریں مزاری عمران خان کے مشیر کیسے ہو گئے؟ وہ تو خود ایک جذباتی آدمی ہے۔ اسے ہوش مندوں کی ضرورت ہے۔ طوفان جن کے سروں سے گزرتے رہیں مگر دانش کو وہ سینے سے چمٹائے رکھیں۔
پارلیمانی کمیٹی میں شاہ محمود کی نامزدگی ایک المناک فیصلہ ہے۔ حامد خان بہتر ہوتے اور اسد عمر ان سے بھی بہتر، اگر حامد خان، اسحٰق خاکوانی اور دوسرے لوگوں کا مشورہ اسے میسر رہتا۔ توہین پر تلے رہنے والے خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کو میاں صاحب نے کیا اس لیے نامزد کیا کہ تحقیقات نتیجہ خیز ہو؟ جی نہیں، بلکہ سخت گیر سودے بازی کے لیے۔ خواجہ سعد رفیق دو دھاری خنجر ہے۔ ضرورت پڑے تو شیریں کلام ہو جاتا ہے۔ دو ہفتے میں کمیشن کے دائرہء کار، یعنی ٹی آر اوز کا تعین مقصود ہوتا تو وزیرِ اعظم کسی اور کو نامزد کرتے۔ یہ مذاکرات لاحاصل رہیں گے۔ نئی پیچیدگیوں اور تلخیوں کو جنم دیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سرکاری ٹیم اپوزیشن کو غچّہ دینے میں کامیاب ہو جائے۔
اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی میں جماعتِ اسلامی کے پارلیمانی لیڈر طارق اللہ اور قاف لیگ کے طارق بشیر کو ہم زیادہ نہیں جانتے۔ اعتزاز احسن مخلص نظر آتے ہیں لیکن صدر زرداری انہیں رعایت پر آمادہ کر نے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ پھر ایک راستہ باقی رہے گا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ وہ قومی ہیرو بن کر ابھر سکیں گے۔ مگر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ ع
دل کا دریا بحر سے گہرا کون دلوں کی جانے ہُو
شیرپائو عمران کے اتحادی ہیں مگر اب اگلا الیکشن بھی ان کی نظر میں ہو گا۔ اس میں وہ نواز شریف کے اتحادی بن سکتے ہیں۔ مذاکرات کی ذمہ داری وقت کے سب سے بڑے شاطر مولانا فضل الرحمٰن کو سونپی گئی ہے۔ اے این پی سے کیا امید؟ عمران خان نے اسے پامال کر کے رکھ دیا۔ وہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔
خطا معاف، مکمل تحقیقات فقط سپریم کورٹ نہیں کر سکتی۔ گزشتہ عشرے میں جرائم کی تحقیقات کے تین کامیاب تجربات ہیں۔ اوّل افغانستان جانے والے کنٹینرز کا قصہ، جن میں سے اکثر سرحد پار نہ کرتے تھے۔ سمگلنگ کا سامان لدا ہوتا۔ ثانیاً ارسلان افتخار والا مقدمہ۔ ثالثاً صدر زرداری کے آخری ایام میں ٹیکس ادا نہ کردہ گاڑیوں کے لیے رعایتی سکیم۔ سپریم کورٹ کے حکم پر تینوں کی تحقیقات ایک سابق پولیس افسر نے کی۔ ارسلان افتخار والے کیس میں مدعی پیچھے ہٹ گیا‘ اور عدالتِ عظمیٰ نے کمیشن تحلیل کر دیا۔ کنٹینرز کی تحقیقات مکمل ہوئی۔ سفارشات پر پورا عمل نہ ہوا۔ اس کے باوجود سرکاری آمدن میں بارہ ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہو گیا۔ گاڑیوں کی رعایتی سکیم کو اس سرکاری افسر نے حکماً روک دیا کہ اب وہ وفاقی ٹیکس محتسب تھا۔ تب سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ حال یہ تھا کہ کسٹم سے وہ گاڑیاں بھی درآمد کرنے کی اجازت حاصل کر لی گئی تھی، جو ابھی ٹوکیو اور دبئی میں پڑی تھیں۔ ملک کو پرانی گاڑیوں کا قبرستان اور سرکاری خزانے کو کم از کم ساٹھ ارب روپے کے زخم سے بچا لیا گیا۔
نکتہ بالکل واضح ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کی نگرانی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھی درکار ہے۔ اپوزیشن کے مطالبات میں اگر یہ سرِ فہرست نہ ہوا تو تحریکِ انصاف گویا خود کشی کرے گی۔ اس تحقیقاتی کمیشن کے ارکان کا انتخاب سرکار اور اپوزیشن کے اتفاقِ رائے سے ہونا چاہیے... اور ہاں عوامی احتجاج۔ عوامی احتجاج کے بغیر کوئی نتیجہ نکل سکتا ہی نہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ دھرنا دینے کا وقت آئے تو جاتی امرا نہیں یہ لاہور کے وسط میں بہتی نہر کے ایک کنارے پر ہونا چاہئے‘ دوسری راہ تاکہ کھلی رہے۔ رائے ونڈ روڈ کے کھیتوں کھلیانوں میں لاکھوں افراد بھی بے معنی ہوں گے اور پولیس کے رحم وکرم پر۔
میں ایک عام پاکستانی خلقِ خدا کو گواہ بنا کر عمران خان کو انتباہ کرتا ہوں کہ شیخ رشید، شیریں مزاری اور شاہ محمود کو بھلا کر وہ اسی افسر کے پاس جائے، جس نے ان تینوں مقدمات میں تحقیقات کیں۔ شیخ رشید اور شیریں مزاری تو خیر کہ واقعی وہ نواز شریف سے متصادم ہیں۔ شاہ محمود کا کیا بھروسہ۔ مستقبل کے دوسرے امکانات کا در وہ ہمیشہ کھلا رکھتے ہیں۔
ستّر سوالات نے اس ناچیز کو ششدر کر دیا، اپوزیشن لیڈروں کو جس پر اتنا فخر ہے۔ اگر ان کے جواب تلاش کرنا پڑے تو اگلا عشرہ بیت جائے گا۔ نواز شریف یہی چاہتے ہیں۔ سوالات تو صرف دو تین ہیں۔ سمندر پار کمپنیوں کے لیے روپیہ کب اور کیسے بھیجا گیا۔ یہ سرمایہ جائز اور طیب تھا یا مالِ حرام۔ اس پر ٹیکس ادا ہوا یا نہیں۔ دولت کے یہ انبار کہاں سے آئے۔ لندن کے فلیٹ کب خریدے گئے۔ یہی سوالات علیم خان، عمران خان، جہانگیر ترین، علیمہ خان، میر شکیل الرحمٰن، رحمٰن ملک اور دوسروں سے بھی پوچھے جائیں۔ برسبیلِ تذکرہ رحمٰن ملک تحقیقات کے متحمل کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، مال واپس نہیں کر سکتے۔ چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے۔
کتنے خواب ہیں جو ادھورے رہ جاتے اور معاشروں کا زخم بنتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم انہیں لیڈروں پر چھوڑ دیتے ہیں اور سیاسی لیڈروں کے مقاصد اکثر محدود ہوتے ہیں۔ سرکاری اخبار نویسوں کو کچھ کالم اقبالؔ کے خلاف بھی لکھنے چاہئیں کہ اس نے ملّا اور سیاستدانوں کی ایسی شدید مذمت کیوں کی۔ ابلیس کی زبان سے اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک
قوموں کی زندگی، ظفر مندی اور مستقبل کا انحصار ان کی اجتماعی بیداری پر ہوتا ہے، کسی ایک یا گنتی کے چند لیڈروں پر نہیں۔ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ کیا عصرِ رواں کے چوراہے پر سوئی پڑی اس قوم کو اس کا ادراک ہے یا نہیں۔