تدبیرکند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ آدمیوں کے اپنے منصوبے ہوا کرتے ہیں اور خالق کے اپنے۔ مشکلات سے ملک دوچار ہے اور دوچار رہے گا کہ ہم راہ راست پر نہیں۔ ایک ریاست کی حیثیت سے مگر وہ باقی رہے گا۔ الحمد للہ اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔شعوری یا لاشعوری ایٹمی پروگرام کے مخالفین پاکستان کی سلامتی کے مخالف ہیں۔
انفرادی ہویا اجتماعی مایوسی ایک خوفناک چیز ہے۔ امکانات کو برباد کرنے اور ڈھلوان پہ لڑھکا دینے والی۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری مشکل یہ ہے کہ آزادی کے67 سال میں المیے ہم نے زیادہ پائے اور کامرانیاں کم ہی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک آدھ نہیں‘ کتنے ہی طبقات ہیں‘ اوّل دن سے جو پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ ملاّ ‘ جن کے اجداد تحریکِ پاکستان کے مخالف تھے۔ ان میں ایسے تھے جو مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کے تصور ہی سے نفرت کیا کرتے۔ جن کا خیال یہ تھا کہ نہرو اور گاندھی کی کانگریس سے مل کر وہ اقتدار میں شریک ہوں گے۔ ان میں سے بعض کا گمان یہ تھا کہ ایک دن ان کے ستارے جگمگا اٹھیں گے۔ نام لکھنے سے گریز، ذرا سے غور و فکر سے یقین ہو جاتا ہے۔ ایک وہ تھے‘ جو قائداعظمؒ کی تاریخ ساز شخصیت کے اور آزاد وطن میں پوشیدہ امکانات کا ادراک ہی نہ کر سکے۔
پھر بائیں بازو کے لوگ۔ آخری وقت میں قیام پاکستان کی حمایت تو انہوں نے کردی کہ مسلم عوام کی اکثریت نے فیصلہ صادر کر دیا تھا۔ دل سے مگر انہوں نے پاکستان کوکبھی قبول نہ کیا جو اللہ اور رسولؐ کے نام پر وجود میں آیا۔ ترقی پسند تحریک تب ایک عظیم ولولے کی حامل تھی‘ جس طرح کہ نظریاتی گروہ عہد شباب میں ہوتے ہیں۔ ایک سیلابِ بلاخیز کی طرح منظر پر وہ چھائے ہوئے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت دبک کر
رہ گئی تھی۔ ان سے اختلاف کا مطلب ذاتی سطح پر کردار کشی کو دعوت دینا تھا اور اجتماعی سطح پر نمود سے محرومی۔ سوویت یونین ان کی پشت پر تھا‘ سینکڑوں نسلوں اور درجنوں مذاہب کے بھارت کو اس خوش دلی سے جس نے قبول کرلیا تھا۔ پاکستان میں اسے پانچ قومیتیں نظر آتی تھیں۔ ان کے نزدیک اس ملک کا اصل مسئلہ صوبوں کی آبیاری تھا۔ یہ نہیں کہ صوبائی خود مختاری قومی استحکام کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بالکل برعکس، صوبوں کی قوت آخری تجزیے میں مرکز کی طاقت ہوا کرتی ہے۔ اختیارات نیچے منتقل ہوتے چلے جائیں تو ترقی کا عمل تیز ہوتا اور ہر سطح پر قیادت ابھرتی رہتی ہے۔
ان لوگوں کا مقصود مگر کچھ اور تھا۔ سویت یونین جب تک برقرار رہا، اس کی نگرانی میں پاکستان کی خفیہ طور پر سرگرم کمیونسٹ پارٹی علیحدگی پسند تحریکوں کی مدد گار تھی۔ کوئی بھی علاقہ، مکتب فکر، نسل اور مذہب، سبھی لوگ محب وطن ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی بقاء اور آئندہ نسلوں کا انحصار ان کے وطن کی ترقی اور فروغ پر ہوتا ہے۔ نئی ریاستیں مگر آسانی سے قرار نہیں پاتیں۔
بعض لوگ حُبِّ حریتِ فکر کے نام پر گمراہ ہوتے اور حبِّ وطن کے تقاضے بھلا دیتے ہیں۔ اس کے دانشور کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں۔ معمولی نہیں، بہت سے بڑے بڑے لوگ بھی۔ بے پناہ مقبولیت، اساطیری شہرت کے حامل مگر سادہ لوح حبیب جالب کمیونسٹ پارٹی اور اے این پی کے ممبر کیوں رہے؟ فیض احمد فیضؔ ایسے آدمی نے کیوں یہ ارشاد کیا تھا کہ پاکستان ان کی بیوی اور ہندوستان ان کی محبوبہ ہے۔ جالب کیا محب وطن نہیں تھے؟ وہ جمہوری تحریکوں کے ہراول میں رہے، جیلیں بھگتیں، لاٹھیاں کھائیں، اذیت اور محرومی کے سال سے گزرے تو کس لیے؟ عمر کا بڑا حصہ مگر عبدالغفار خان اور عبدالولی خان کے ساتھ بتا دیا۔ غفار خان جنہوں نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہ کیا۔ عبدالولی خان نے 1974ء میں افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تفصیلات، عینی شاہد جمعہ خان صوفی کی کتاب ''فریب ناتمام‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں، جس کا بہتر اور جدید ایڈیشن جلد شائع ہونے والا ہے۔ جمعہ خان خود بھی کمیونسٹ پارٹی کے ہمرکاب رہے۔ معلوم نہیں اب ان ایّام کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟
ارادہ ایک اور موضوع پر لکھنے کا تھا۔ اگر ایٹمی پروگرام کی کامیاب تکمیل نہ ہوئی ہوتی؟ اگر امریکہ، اسرائیل، بھارت، یورپ اور پاکستان میں ان کے ہمنوا اس کی راہ روکنے میں کامیاب ہو جاتے تو آج کا مشکلات سے گھرا پاکستان اپنی آزادی کیا برقرار رکھ سکتا؟1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہماری پہاڑ سی
غلطیاں۔۔۔۔ مگر ایک سوال اور بھی ہے۔ بھارت اگر ہمارا پڑوسی نہ ہوتا تو کیا یہ المناک سانحہ برپا ہوتا؟ کیا بنگلہ دیش وجود میں آسکتا؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ طاقت کے نشے میں دھت یحییٰ خان اقتدار میں تھے‘ اقتدار کے لیے دیوانہ ہوئے جانے والے بھٹو تھے اور شیخ مجیب الرحمن۔ پریس پا بہ زنجیر تھا۔ اس کے باوجود مشرقی بنگال کبھی الگ نہ ہوتا‘ بھارت اگر مسلح مداخلت نہ کرتا۔ سوویت یونین اگر اس کا ہمدم نہ ہوتا‘ جس نے 1970ء میں ہندوستان کے ساتھ دوستی کا 25 سالہ معاہدہ کیا۔ اسے شہ دی کہ پاکستان پہ چڑھ دوڑے۔ خود شکنی پہ ہم تلے تھے۔ خود کو برباد کر رہے تھے مگر بھارت کو کیا تکلیف پہنچی تھی؟ اس کے سوا کہ دو تین لاکھ مہاجر اس کی حدود میں داخل ہوگئے تھے۔ مشرقی بنگال اور آسام میں اب بیس لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیشی گھسے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش پہ حملہ کیوں نہیں کرتا؟ ایک اور پہلو سے اس سوال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 1971ء کے فوراً بعد بھارت نے سندھ اور پختون خوا کی علیحدگی کے لیے منصوبہ بندی اور سرگرمیوں کا آغازکر دیا تھا۔ عبدالولی خان کی مثال دی جا چکی‘ پختون زلمے کے سینکڑوں نوجوانوں کو 1974ء میں انہوں نے افغانستان بھیج دیا تھا۔ ان کے نمائندے اجمل خٹک کابل میں بھارتی سفیر سے ملاقاتیں کیا کرتے۔ اجمل خٹک اور عبدالولی خان ہی نہیں ان کے کتنے ہی نمائندوںکو اختیار حاصل تھا کہ جس طالب علم کی وہ سفارش کریں‘ سوویت یونین میں اس کے لیے مفت تعلیم کا بندوبست کر دیا جائے‘ بلکہ اس کے زیراثر کمیونسٹ ممالک میں بھی۔
1970ء کے عشرے میں جئے سندھ تحریک کے سینکڑوں کارکن راجستھان کی سرحد سے بھارت لے جائے گئے۔ پونا سے ممبئی تک ان کے لیے تربیتی کیمپ قائم کیے گئے۔ سیاسی نہیں‘ ان میں عسکری تربیت دی جاتی تھی۔ سب سے پہلے تخریب کاروںکو کیا تعلیم دی جاتی ہے؟ ان کی اخلاقی صفات نوچ لینے سے ابتدا ہوتی ہے‘ ذہنی غسل کاسلسلہ۔ مرغیوں کے چوزے کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیںکہ پائوں سے کچل ڈالیں۔ پھر بلی اور کتے ایسے جانور ہلاک کرنے کو کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ بتدریج وہ بے رحم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قتل و غارت میں انہیں انبساط کا احساس ہوتا ہے۔ آدمی کی صفات وہ کھو دیتے ہیں اور درندے بن جاتے ہیں۔ سندھ کے ان علیحدگی پسندوںکو بعد میں دادو کی پہاڑیوں میں بھی تربیت دی گئی۔ انہی کے اہتمام سے ایم کیو ایم کے اوّلین تخریب کاروں کو بھی۔ جو لوگ جنرل محمد ضیاء الحق کو ایم کیو ایم کا معمارکہتے ہیں‘ وہ تاریخ کے اس باب سے نا آشنا ہیں‘ یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ جنرل کی فوجی حکومت نے ایم کیو ایم سے مل کر مقبول پیپلزپارٹی کے خلاف ساز باز ضرورکی ہوگی، وہ مگر اس کے معمار نہیں تھے۔ وہ عوامی جذبات کی قوت اورمتوازی طور پر بھارت کی سرپرستی میں تشکیل پائی۔
سوال مختلف ہے۔ ایٹمی پروگرام نہ ہوتا تو پاکستان کیا محفوظ رہ سکتا؟ خاص طور پر اس وقت جب امریکہ بہادر ہمارے درپے ہے۔ اسرائیل ہمارا دشمن ہے۔ بھارت اسے تباہ کرنے کا آرزومند اور ایران کو وہ اتحاد ثلاثہ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
تدبیرکند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ آدمیوں کے اپنے منصوبے ہوا کرتے ہیں اور خالق کے اپنے۔ مشکلات سے ملک دو چار ہے اور دو چار رہے گا کہ ہم راہ راست پر نہیں۔ ایک ریاست کی حیثیت سے مگر وہ باقی رہے گا۔ الحمد للہ اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ شعوری یا لاشعوری ایٹمی پروگرام کے مخالفین پاکستان کی سلامتی کے مخالف ہیں۔