"HRC" (space) message & send to 7575

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

جو قوم خود کو حکمرانوں کے سپرد کر دے اور وہ بھی کاروباری حکمرانوں کے‘ اس کے سوا اس کے مقدر میں کیا لکھا جائے گا؟
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
پہلی بات یہ کہ بجٹ ایک سادہ سی دستاویز نہیں۔ ہیں ستارے کچھ نظر آتے ہیں کچھ والا معاملہ ہے۔ وزارت خزانہ تک کے افسروں کے لیے یہ ایک گورکھ دھندا ہوتا ہے۔ جب تک وہ ایک باقاعدہ امتحان پاس نہ کرلیں جو غالباً تین ماہ کو محیط ہوتا ہے۔ سالانہ میزانیے کی تشہیر کے لیے حکومت اس قدر سرگرمی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ منظر کچھ اور دھندلا جاتا ہے۔ سامنے کی حقیقت بس اتنی ہے اور اسی نقطہ نظر سے بجٹ کو دیکھنا چاہیے کہ عام آدمی کو اس سے کیا فائدہ پہنچا یا کتنا نقصان۔ تین چار سو ارب روپے کے ٹیکس اگر لاد دیے جائیں گے‘ جیسا کہ اندازہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر پاکستانی خاندان پر کئی سو روپے کے اخراجات کا مزید اضافہ۔ مہنگائی کی چکی میں جو پہلے ہی پس رہے ہیں‘ زائد بوجھ وہ کیونکر برداشت کریںگے۔ یہ سرکار کا مسئلہ نہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ امیر آدمی‘ تاجر اور صنعت کار ٹیکس ادا نہیںکرتا۔ اشیاء اور مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔
ہماری معیشت کا بڑا حصہ غیردستاویزی ہے۔ اگر وہ ریکارڈ پر آجائے تو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں تیس چالیس فیصد اضافہ یقینی ہے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی مگر کون باندھے۔ سال رواں کے آغاز میں ہفتوں تک تاجروں کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے۔ ان کے تقریباً تمام مطالبات مان لیے گئے مگر آخری نتیجہ کیا نکلا۔ اب یہ اعلان ہے کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے گردگھیرا تنگ کردیا جائے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، اب تک تو ایسا کبھی ہوا نہیں۔ پہلے سے ادائیگی کرنے والوں کی گردن کا سائز چونکہ معلوم ہے؛ چنانچہ انہی کے لیے پھندا تیار کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یوں بھی کاروباری طبقہ حکمران جماعت کا ووٹر ہے۔ ووٹ وہ نون لیگ کو دیتے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے سب سے بڑھ کر چندہ بھی وہی فراہم کرتے ہیں۔ اپنے لوگوں کے خلاف سرکارکیوں اقدام کرے گی۔ ممکن ہے کہ کچھ نیم دلانہ سے اقدامات ہوں۔ کسی بڑی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
معیشت کی بحالی کا شوروغوغا بہت ہے۔ کون سی بحالی؟ حکومتی اعداد و شمار اگر درست مان لیے جائیں تو گزشتہ مالی سال کے دوران شرح نمو 4.7 فیصد رہی۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں یہ 7 فیصد اور کبھی اس سے بھی زیادہ رہی۔ وزیراعظم کا فرمان یہ ہے کہ فوجی آمریت نے ملکی معیشت کو تباہ کردیا۔7 فیصد سالانہ شرح ترقی اگر تباہی کا مظہر تھی تو 4.7 فیصد کو کارنامہ کیسے قرار دیا جائے؟ یہ وہ راز ہے جو رنگین سرکاری اشتہارات کی فلک آسا دیوارکے عقب میں روپوش ہو جاتا ہے۔
ترقیاتی اخراجات کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے مگر حقیقت کیا ہے؟ امسال پنجاب میں صحت کے شعبے کی ترقی کے لیے 14 ارب رکھے گئے تھے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق صرف ساڑھے تین ارب روپے صرف ہوئے۔ چودہ سال سے زیرتعمیر میو ہسپتال کے ٹاورکی عمارت جوں کی توں کھڑی ہے۔ شاہدرہ ہسپتال کی تعمیر آخرکار مکمل ہوگئی مگر عملے کا انتخاب باقی ہے۔ وزیرصحت تو پنجاب میں ہے نہیں۔ مشیر صحت کا کام ہڑتالی نرسوں اور ڈاکٹروں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ہے‘ جو آئے دن لاہور کی مال روڈ پر رونق افروز ہوتے ہیں۔ وزیرآباد میں امراض قلب کا ہسپتال وہیں کا وہیں ہے۔ عمارت ہی مکمل نہیں ہو سکی‘ عملے اور آلات کا کیا سوال۔ سب سے زیادہ عجیب پہلو یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی ترجیح وزیراعظم کی صوابدید پر ہے۔ وزراء اس سلسلے میں کتنے بااختیار اورکس قدر سنجیدہ ہیں‘ اس کا ایک نمونہ منگل کو ٹی وی کے ایک معروف پروگرام میں دیکھاگیا۔
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے فریاد کی کہ نومبر2015ء میں ضمنی الیکشن کے ہنگام میاں صاحب نے پسماندہ لودھراں کے لیے اڑھائی ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ وزیرخزانہ اسحٰق ڈار اور منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال کو خطوط لکھ کر وہ یاد دہانی کراتے رہے۔ اسحٰق ڈار نے ایک آدھ بار تسلی دی مگر منصوبہ بندی کے وزیر نے جواب تک دینا بھی گوارا نہ کیا۔ جناب احسن اقبال نے پہلے تو اس پر ایک طویل طنزیہ مسکراہٹ عنایت کی‘ جس کا مفہوم غالباً یہ تھا: ہمارا امیدوار جب ہار گیا تو ہمیں اتنی بڑی رقم صرف کرنے میں کَے نفلوں کا ثواب! اصرار کیا گیا تو ارشاد ہوا کہ ایوان وزیراعظم سے کوئی نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا تو وہ کیا کریں۔ اس پر تعجب کا اظہار ہوا تو میزبان اور ناظرین ششدر رہ گئے۔ فرمایا: معمولی سی رقم ہے‘ جہانگیر ترین اپنے طور پہ خرچ کر سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین اس پر صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ آپ کے لیے یہ مذاق کا موضوع ہے‘ لودھراں کے غربا اس کی داد دینے سے رہے۔ یہ اس وزیر کا حال ہے جو نسبتاً شائستہ آدمی گردانا جاتا ہے۔ طلال چوہدری‘ پرویز رشید یا دانیال عزیز ہوتے تو معلوم نہیں کیا گل کھلاتے ؎
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
یہ طرز عمل اس دن کا ہے‘ جب وزیراعظم کے قلب کا آپریشن ہوا۔ ملک کی مجموعی فضا زیادہ شائستگی‘ وقار اور احتیاط کی متقاضی تھی۔ عوامی رد عمل سے جناب وزیر کس قدر بے نیاز تھے‘ انکشاف فرمایا کہ (مولانا فضل الرحمن کی معیت میں) سوات‘ ڈیرہ اسمٰعیل خان اور بنوں میں جو اعلانات وزیراعظم نے کیے تھے۔۔۔۔یونیورسٹیوں‘ سڑکوں اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر‘ ان پر احکامات وصول ہو چکے۔ امسال وہ بجٹ کا حصہ ہوںگے۔
یہ ہے وہ میزانیہ جس کے ہم منتظر ہیں۔ پختون خوا میں مولانا فضل الرحمن کے تجویز کردہ منصوبوں پر جوش و خروش سے کام ہوگا کہ تحریک انصاف کو اقتدار سے بے دخل کیا جا سکے۔ جیسا کہ لودھراں میں ہوا‘ کسی حلقہ انتخاب کے لوگ اگر اپوزیشن کو ووٹ دینے کی جسارت کریں گے تو یہ وزیراعظم کے عتاب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ مکرر عرض ہے کہ یہ گفتگو اس دن تھی‘ جب پوری قوم وزیراعظم کے لیے دعائیں کرتی رہی۔ پیغام کیا ہے؟ وزیراعظم کو ظل الٰہی مانتے ہو تو کرم کی امید رکھو‘ وگرنہ یہ منہ اور مسور کی دال!
بجٹ کی منظوری کے لگ بھگ ایک ہفتہ بعد خاموشی سے ایک سرکاری اعلان جاری کیا جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں 7 فیصد کٹوتی کردی گئی۔ 800 ارب کا مطلب ہے، دراصل ساڑھے سات سو ارب۔ اس میں سے فی الحقیقت کتنے خرچ ہوں گے؟ پھر یہ سرمایہ ٹھیکیداری نظام کی نذر ہو جائے گا۔ کم از کم ایک چوتھائی۔ باقی کیا بچا؟
چینی سرمایہ کاری کا چرچا بہت ہے۔ پوری قوم اس کی حمایت میں ہے کہ بتدریج شاید امریکی غلامی سے نجات کی کوئی صورت نکل آئے۔ دو سوالات البتہ قابل غور ہیں۔ اوّل یہ کہ معاہدوں کی تفصیلات خفیہ ہیں۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔ نندی پور کا ماجرا سامنے ہے۔ ثانیاً یہ کہ اس طرح کے عظیم منصوبوں کا اوّلین نفع روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے مگر چین کی شرط تسلیم کرلی ہے کہ ستر فیصد مزدور وہاں سے آئیں گے۔ کیا کہنے‘ کیا کہنے! اس پہ مزید اصرار یہ ہے کہ ان معاہدوں پر سودے بازی کرکے 570 ارب کی بچت کرلی گئی ہے۔ غالباً یہ ایسا کارنامہ ہے‘ انسانی تاریخ جس کی کوئی نظیر پیش نہیںکرتی۔ معاہدے خفیہ ہیں‘ سامنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی کاروباری ادارہ خسارے کا سودا نہیں کرتا۔ اس کے باوجود پونے چھ سو ارب بچا لیے گئے۔ سیاست میں مبالغہ ہوتا ہے اورکبھی تھوڑی سی شعبدہ بازی بھی۔ جادوگری پہلی بار دیکھی۔
برآمدات گر گئیں اور تھوڑی سی نہیں 13 فیصد۔ سرمایہ ہر دن ملک سے فرار ہو رہا ہے۔ چار برس میں سات ارب ڈالر دبئی کو منتقل ہوئے۔ زراعت تباہ ہوگئی۔ تیل کی قیمت ساٹھ فیصد گر جانے اور بیرون ملک سے ترسیلات میں غیرمعمولی اضافے کے باوجود عام آدمی کی زندگی پہلے سے بھی پست ہوگئی۔ اس کے باوجود خیرہ کن ترقی کا سرکاری جشن جاری ہے اور امید ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی جاری رہے گا۔
جو قوم خود کو حکمرانوں کے سپرد کر دے اور وہ بھی کاروباری حکمرانوں کے‘ اس کے سوا اس کے مقدر میں کیا لکھا جائے گا؟
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں