قیادت گاہے تھوپ بھی جاتی ہے۔ کوئی ظہیرالدین بابر ہو تو فاتح بن کر ابھرتا اور دائم تاریخ میں جگمگاتا ہے۔ کوئی عامی ہو تو ایک ایک لمحہ روتا پیٹتا بسر کرتا ہے۔ نوحہ گر، عمر بھر ایک نوحہ گر!
عمر بھر آدمی اپنے ساتھ الجھا رہتا ہے؛ حالانکہ کامیابی یا ناکامی کا انحصار خود اسی پر ہوتا ہے۔ ماحول اور مخالفین پر نہیں۔ مزاحمت تو الٹا مددگار ہو تی ہے، خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتی ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی اس میں کوئی تفریق نہیں۔ یہ اندازِ فکر کی بات ہے، جو ماحول اور تربیت سے جنم لیتا ہے۔
محمود خان اچکزئی ایک سیاسی لیڈر کے وارث ہیں۔ آپ کے گرامی قدر والد بلوچستان کے ایک ممتاز سیاستدان تھے۔ اتنے ممتاز کہ انہیں بلوچی گاندھی کہا جاتا۔ جس طرح کہ ان کے ہم نفس خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی۔
گاندھی کے ہم نفس، محمود غزنوی کو لٹیرا کہتے ہیں کہ اس نے برہمن سامراج کی کمر توڑ دی تھی۔ یورش کا آغاز اِس طرف سے ہوا تھا۔ برہمنی سیاست اور اقتدار کا ایک بڑا مرکز تب لاہور تھا۔ ایک نو تشکیل فوجی چھائونی۔ پشتون آبادیاں تب طورخم کے اس پار تھیں اور اقتدار پر وسطی ایشیا کے ترک براجمان۔ کابل سے پرلی طرف تاجکوں اور ترکوں کی اکثریت تھی اور خود کو وہ وسطی ایشیا کا حصہ سمجھتے تھے، ماوراء لنہر کا۔ ان نیم قبائلی، بڑی حد تک خانہ بدوش قبائل میں کبھی کوئی بلند عزم جاگ اٹھتا تو قبائل کی بے چینی کو لشکر میں ڈھال دیتا۔ موسم بے رحم تھا، خوراک کا حصول مشکل۔ کبھی کوئی چنگیز خان، کوئی تیمور اور کبھی دربدر گھومنے والا کوئی ظہیرالدین بابر۔
اپنے والد عمر شیخ مرزا کے باب میں بابر نے خود لکھا ہے کہ موٹاپے کے طفیل ان کے بٹن ٹوٹ جایا کرتے۔ رمضان المبارک
کے اوّلین عشرے کی ایک شام وہ محل میں لکڑی کے کبوتر خانے کی سیڑھیاں چڑھ اتر رہے تھے کہ زمین پر آ رہے۔ تخت و تاج کے جھگڑوں، تین عدد بیگمات کے مناقشوں، محلاتی سازشوں اور دستر خوان کی رونق میں الجھے بادشاہ کو اس چیز پر غور کرنے کی کبھی فرصت ہی نہ مل سکی، آخرکار جسے اس کی موت کا بہانہ بننا تھا۔ چھوٹی سی ندّی نے، جسے فرغانہ والے دریا کہنا پسند کرتے ہیں، بنیاد کا ایک حصہ چاٹ لیا تھا۔ ہندی میں اسے کراڑا کہتے ہیں۔
حملے کے لیے ماموں اور چچا پہلے سے تیار تھے۔ بارہ سالہ بابر بھاگتے گھوڑے پر کرتب دکھانے یا اندجان، آکسی اور قوا کی خوبانیوں، خربوزوں اور انگوروں کے باغات میں شاد رہتا۔ اس کی آرزو تھی کہ شاعر کی زندگی جیے۔ باپ کی موت نے مگر تمام راستے بند کر دیے، حکمرانی یا موت۔
ایک قبائلی معاشرے کی زندگی ایسی ہوتی ہے۔ لیڈر ہمیشہ ابتلا میں رہتے ہیں۔ جو بھی پیدا ہوا، آزمائش کے لیے مگر قبائل میں یہ فنا اور بقا کا سوال ہوتا ہے۔ قیادت پہ اگر وہ براجمان ہو جائے، اہلیت جس کی کم تر ہو تو زندگی دکھتا ہوا پھوڑا بن جاتی ہے۔
محمود خان انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ عدم تحفظ کا شکار، تمام وسوسہ،تمام اندیشہ جس طرح برسات میں خود رو گھاس اگتی رہتی ہے،پھیلتی رہتی ہے۔ خو ف سے نجات کے لیے ایسا آدمی شجاعت اور بے باکی کا سوانگ بھرتا ہے۔ سحر سے شام، شام سے سحر، ساری زندگی خود فریبی۔ واشگاف ہونے کے خوف سے گاہے وہ نظریات کا پرچم بھی لہراتا ہے۔ زندگی کے سٹیج پر کردار سے زیادہ وہ ایک اداکارہوتا ہے۔
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ زندگی میں پہلی بار اقتدار ملا تو خاندان کے سوا وہ سب کچھ بھول گیا۔ پہلے ہی ظہرانے میں سارے اصول سلاد کی طرح کھا گیا۔ اس کی پارٹی دوسری پارٹیوں سے اگر مختلف ہے تو بس اپنے نام سے۔ وگرنہ جیسا کہ کہاوت ہے ، سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے۔ کہا جاتاہے کہ اس کے زیرِ اثر علاقوں میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہوتی ہے۔ سرما میں بکریوں کے باڑے بجلی کے ہیٹروں سے روشن رہتے ہیں ۔ واپڈا والوں کی مجال کیا ہے کہ ان کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دے ۔یہ ان کی غیرت کو للکارنے کے مترادف ہوگا۔ محمود خان کیا خود بجلی چوری کرتاہے؟ ہرگز نہیں ، وہ ایک معزز آدمی ہے ، جو طعنے کی تاب نہیں لا سکتا؛چہ جائیکہ کہ سرقے او رخیانت کامرتکب ہو ۔ ؎
خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
اندھیرے اجالے مگر چوکتا بھی نہیں
قلعہ عبد اللہ سے آگے چمن اور اس کے نواح میں اس کی پارٹی زیادہ سرگرم ہے اورو ہیں ان کے کارناموں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ کراچی یا اسلام آباد کا کوئی اخبار نویس جا نکلے تو ان کارناموں پر ایک شاندار کتاب مرتّب کر سکتاہے ۔ ہنر مند ہاتھ اگر رقم کرے تویہ صدیوں تک باقی رہنے والی داستان ہو۔مثلاً کچھ لوگ غائب ہو جاتے ہیں ، پھر نمودار بھی ۔ باجماعت اس دوران گریہ ہوتاہے ، وہ گریہ جو ایک پیشہ ہے ۔
گرامی قدر باپ کی گدّی پر جواں سال محمود نے حریت پسندی کا فر غل پہن لیا اور اتار نہیں سکتا۔ اگر وہ ایک بے غرض او رکشادہ مزاج رہنما ہوتا تو اپنی پارٹی کو علاقے کے پختونوں تک کیوں محدود رکھتا۔نواز شریف کا ایک اور وکیل بھی ہے، جو کرکٹ کھلاتا اور برہمن کے حق میں وعظ کرتا ہے۔
سیاسی پارٹی سبھی کی ہوتی ہے ۔ پارسا اور خطاکار، پشتون اور پنجابی ، سنی اور بریلوی ، سندھی اور پنجابی، مرد اور خواتین ۔ تمام انسان ایک آدم کی اولاد ہیں ۔ سب کے دکھ ایک جیسے۔ سب ابتلا و انتظار سے گزرتے ہیں ۔ رنگ، نسل ، مذہب اور قبیلہ کوئی بھی ہو ، سبھی کو عدل اور سائے کی احتیاج ہوتی ہے ۔ زرداروں اور قہرمانوں کے ہاتھوں تمام افتادگانِ خاک ستائے جاتے ہیں ۔ گرانی اور بد امنی ، نا انصافی اور بھوک، برق و باراں ، آدم کی ساری اولاد کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے ۔ ان کی شادمانیاں اور ان کے خوف۔ ان کی امیدیں اور ان کے خواب ۔ پھر خطے، علاقے، زبان اور مذہب ، صوبے اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے کیا ان کے دوست اور خیر خواہ ہو سکتے ہیں ؟ تعصبات کی آبیاری سے کب، کون سے عہد میں، آدمی کا بھلا ہوا تھاکہ اب ہوگا؟کبھی نہ ہو گا۔
ہر وقت محمود خان روتے کیوں رہتے ہیں ؟کیا انہیں پارلیمان کی بالادستی کھو جانے کا غم ہے ؟ صدارتی نظام کی تجویز سے اس قدر غم زدہ وہ کیوں ہوئے ؟ مارشل لا سے وحشت زدہ کیوں ؟ مارشل لا تو نہیں آرہا۔ صدارتی نظام اگر نافذ ہو تو شاید عشروں کے بعد اور وہ بھی پوری قوم کے اتفاقِ رائے سے ۔ابھی سے وہ دکھی کیوں ہیں ؟ محمود خان جانتے ہیں کہ پارلیمان کی بالادستی اگر نہیں تو حکمرانوں کے طفیل ۔خوب جانتے ہیں کہ لوٹ مار کا بازار عشروں سے کس نے گرم رکھا ہے ۔کون سیاست دانوں کی رسوائی کا ذمہ دار ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ جی ایچ کیو میں اجلاس کی تجویز خود سرتاج عزیز کی تھی۔ وہ انہیں جانتے ہیں ، جن کی عنایات نے ہرے بھرے اس ملک کو ویران کر دیا۔ عدالتوں اور تھانوں کو مفلسوں اور محتاجوں کا مقتل بنا ڈالا۔ کبھی ایک بار بھی ان پر محمود خان کو غصہ کیوں نہ آیا؟ قائدِ اعظم ثانی میاں نواز شریف اور ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری ،کس نے ان عظیم لیڈروں کو روک رکھا ہے کہ پارلیمان کو طاقت بخشیں،بالاوبلند کریں۔ پھر کتنے ہی موضوعات ہیں ، محمود خاں ایسے لوگ کبھی جن پہ بات نہیں کرتے ۔ رلا دینے والی غربت، قاتل مہنگائی اور اجاڑ دینے والی بے روزگاری ۔ بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی ...اور مہاجروں ، سرائیکیوں اور پنجابیوں کا قتلِ عام۔ امریکہ اور برطانوی خفیہ کاری۔ ایسے میں ان کی یادداشت کیوں کام نہیں کرتی؟
قیادت گاہے تھوپ دی جاتی ہے۔ کوئی ظہیرالدین بابر ہو تو فاتح بن کر ابھرتا اور دائم تاریخ میں جگمگاتا ہے۔ عامی ہو تو ایک ایک لمحہ روتا پیٹتا بسر کرتاہے ۔ نوحہ گر، عمر بھر ایک نوحہ گر!