صحت مندانہ طرزِ احساس کے لیے مگر تعصب سے اوپر اٹھنا ہوتاہے ۔حقائق کا ادراک کرنا ہوتاہے ۔ اگر یہ نہیں تو پھر ٹامک ٹوئیاں ہیں اور خود شکنی ؎
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
نام نہاد بائیں بازو کے دانشوروں کا درد یہ نہیں کہ افغانستان کے آفاق پر طلوعِ سحر کے دور دور تک آثار نہیں ۔ انہیں اس کا بھی کچھ زیادہ غم نہیں کہ ایک کے بعد دوسری حکومت کی پے درپے غلطیوں کے سبب افغانستان کے باب میں ان کا وطن دلدل میں دھنسا ہے ۔ اصل دکھ ان کا شاید یہ ہے کہ سویت یونین نام کی کبھی ایک سلطنت ہوا کرتی تھی ، قاتل اور خونخوار۔ پاکستان کی وجہ سے جو تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہوئی ۔ امریکہ کو انہوں نے معاف کر دیا اور بعض نے اس کی نوکری کر لی مگر اپنی قوم کا جرم وہ معاف نہیں کر سکتے ۔ ملّا ، اشتراکی ہو یا مذہبی ،معافی کا لفظ اس کی لغت میں ہوتا ہی نہیں ۔
جب سے افغانستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ، جب سے ایران ناخوش ہے‘ طعنہ زنی کا ایک اور موقع ان کے ہاتھ لگا ہے ۔ طعنے بھی ایسے کہ جن کے پیچھے بغض و عناد کے شعلوں کی لپکتی ہوئی زبانیں چھپائے نہیں چھپتیں ۔ بعض تو اپنی حکومت اور اپنی فوج پر آوازے کس رہے ہیں ''حملہ کردو ایران پر ، افغانستان پر حملہ کر دو‘‘ .......'' امریکہ پہ حملہ کردو‘‘ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہیں ۔ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: عقل جہاں رکتی ہے ، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتاہے ۔
ایران کے ساتھ تعلقات پاکستان نے نہیں بگاڑے اور نہ افغانستان کے ساتھ ۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور نہ عسکری قیادت بلکہ ان ملکوں کے اپنے مفادات۔ نوگیارہ کے بعد پاکستان جنگ میں اترا توچین کے سوا ہمسایہ ممالک نے ہمدردی کی بجائے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔امریکیوں نے اپنے حلیف بھارت کو تعاون پہ آمادہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کابل کے امریکہ نواز سیکولر اور ایرانی علما یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مفاد امریکہ اور بھارت کے ساتھ بہتر مراسم سے وابستہ ہے ، پڑوسی پاکستان کے ساتھ نہیں ۔ یہ فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی کہ ان کا اندازِ فکر درست ہے یا افسوسناک حد تک تباہ کن ۔ پاکستان مگر صبر و تحمل کے ساتھ رفو گری اور انتظار کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہی وہ کر رہا ہے اور اس کے باوجو دکہ دانشوروں کی ایک پوری کھیپ اذیت رسانی پہ تلی رہتی ہے ۔ آدمی کے دو گھر ہوتے ہیں ۔ ایک وہ ،جس میں خاندان کے ساتھ وہ رستا بستا ہے ۔ ایک اس کا وطن ۔ اگر کوئی گھر کی تقدیس سے آشنا ہی نہیں ۔ اگر کوئی اپنے وطن سے محبت نہیں کرتا بلکہ ایک تماشائی کی طرح اس کے بارے میں سوچتا اور بات کرتاہے ؟ ایسے لوگوں پہ برہم نہ ہونا چاہیے ۔ ان پہ ترس ہی کھایا جا سکتاہے اور ان کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔
خارجہ پالیسی پر اٹھائے جانے والے بعض اعتراضات بالکل درست ہیں ۔ مثلا یہ کہ اسلام آباد کی بجائے اس کے خدو خال راولپنڈی میں ڈھلتے ہیں ۔ شریف حکومت نے کل وقتی وزیرِ خارجہ مقرر نہیں کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو کمزور پاکر دہشت گردی کے مرتکب جنونیوں اور ان کے سرپرست بھارت سے نمٹنے کے لیے سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی چاہیے ۔ سوال تو یہ ہے کہ ایران اور افغانستان کے ضمن میں پاکستان نے کس جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ خود اس کے اپنے دانشور مذاق اڑائیں ۔
کہاجاتاہے کہ ایران کی ہم پہ بہت عنایات ہیں ۔ ستمبر1965ء میں اس نے ہمارے لڑاکا طیاروں کے لیے ہوائی اڈے فراہم کیے تھے ۔ خاموشی سے کچھ مدد بھی شاید فراہم کی تھی ۔ بجا ارشاد، بجا ارشاد۔ کیا پاکستان نے ایران کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا؟ ان عرب ممالک سے بہترین تعلقات کو خطرے میں ڈال کر ، جو صدام حسین کی پشت پر کھڑے تھے، خلیج کی جنگ میںپاکستان نے ایران کو اسلحے سے لدی ہوئی گاڑیاں بھیجیں۔ ٹرک او رٹرالر نہیں بلکہ ٹرینیں ۔ عین حالتِ جنگ میں ان کے پائلٹ ٹرینڈ کیے۔ پاکستان کا ظرف یہ ہے کہ کبھی اس کا اعلان نہ کیا۔ ایرانی پریس میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ پیہم جاری رہتاہے ۔ پاکستان اس پر خاموش رہتاہے ۔ پاکستان کے کسی میڈیا گروپ ، حتیٰ کہ کسی اخبار نویس نے بھی ایران کے خلاف کبھی کوئی مہم نہیں چلائی ؛ حالانکہ اس میں مشکل ہی کیا ہے ؟ ایرانی اخبارات اور نشریات اسی طرح ریکارڈ پر ہیں ، جس طرح کسی بھی دوسرے ملک کی ۔کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد پہلی بار تنقید ہوئی تو ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست احتجاج کی تصویر بن گئے ۔
عراق اور افغانستان میں ایرانی امریکہ کے دست و بازو رہے اور اب تو امریکہ کی گود میں جا بیٹھنے کی تیاری ہے ۔ پاکستان کی سول حکومت نے کبھی اس پہ طعنہ زنی کی اور نہ افواج کی قیادت نے۔ ایک شکوہ انہیں تھاکہ ان کا باغی عبد المالک ریگی بلوچستان کی سرزمین استعمال کرتاہے ۔ گرفتار کر کے اسے ایران کے حوالے کر دیا گیا۔ رہی فرقہ ورانہ کشمکش تو معاف کیجیے ، اس میں جیسا المناک طرزِ عمل عربوں نے اختیار کیا، ویسا ہی ایرانیوں نے۔ بعض عرب ممالک کی طرح آخری تجزیے میں ایرانی حکومت خود بھی فرقہ پرست ہے ۔ کسی ایک بھی مسلمان ملک سے اس کے مراسم مثالی نہیں ۔ فسادی مولوی کو چھوڑیے ۔ اور کس کو اس نے کبھی معاف کیاہے۔ ایران کے باب میں مسلم برصغیر کا عمومی رویہ ہمیشہ مثبت ہی نہیں بلکہ خوش دلانہ رہا ۔ شبلی سے لے کر ابوالکلام تک ، ابوالکلام سے اقبالؔ اور اقبالؔ سے آج کے تمام اخبار نویسوں تک ۔ اقبالؔ نے تو یہاں تک کہہ دیا ؎
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید اس کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
کیا ایران کا رویہ بھی ویسا ہی مثبت ہے ؟
افغانستان کے باب میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے ؟ ساٹھ ستر لاکھ مہاجرین کا بوجھ پاکستان نے اٹھایا اور 35برس تک۔ ایک سپر پاور بھی جس کی متحمل نہ ہو سکتی۔ ان مہاجرین میں سے ایک حامد کرزئی تھا، جس
کا پیشہ ہی اب دشنام طرازی ہو گیا ہے ۔ یورپی یونین کے تمام ممالک مل کر بھی شامی مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کو تیا رنہیں ۔ سویت یونین جیسے درندے سے نجات حاصل کرنے میں خود کو دائو پر لگا دیا جس کی سرخ افواج نے تیرہ لاکھ افغانوں کو قتل اور تیرہ لاکھ کو اپاہج کر ڈالا تھا ۔ اس کے باوجود بیمار ذہنیت کے بعض افغان لیڈر بھارت کو اپنا دوست سمجھتے ہیں تو اس کا کیا علاج ۔ وہ افغانستان، جس کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام کوہِ ہندو کش ہے ۔ تفصیلات سے گریز ہے کہ بات الجھ نہ جائے ۔ یہ مگر آشکار ہے کہ کیسی ہی غلطیاں ہم نے کی ہوں ، پاکستان افغان عوام کا قصوروار ہرگز نہیں ۔ مسائل دو عالمی قوتوں، سویت یونین اور امریکہ کے پیدا کردہ ہیں یا افغانوں کی باہمی داخلی خانہ جنگی کے۔ پاکستان افغانستان کا محسن ہے ؛اگرچہ احسان فراموش کے نزدیک یہ اس کی اپنی ذہانت کا کمال ہوتاہے کہ وہ کسی کو برتنے میں کامیاب رہا۔دہشت گردی کے خلاف سری لنکا کی پاکستان نے مدد کی تو وہ سراپا تشکّر بنا رہا۔ افغان کیوں نہیں ؟اس سوال کا جواب تاریخ او رنفسیات کے ادراک کا مطالبہ کرتاہے۔
نعمتوں اور برکتوں کے باوصف زندگی تمام کی تمام آزمائش ہے ۔ افراد ہوں یااقوام ، جب زخم لگے ، جب طوفان آئے تو اندازِ فکر دو طرح کے ہو سکتے ہیں ۔ گریہ زاری و طعنہ زنی یا علاج اور اندمال۔ صحت مندانہ طرزِ احساس کے لیے مگر تعصب سے اوپر اٹھنا ہوتاہے ۔حقائق کا ادراک کرنا ہوتاہے ۔ اگر یہ نہیں تو پھر ٹامک ٹوئیاں ہیں اور خود شکنی ؎
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا