زرداری صاحب تو طویل رخصت پر ہیں۔ میاں صاحب کوئی دن میں تشریف لاتے ہیں۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر ان کی زیارت کا موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے اور خون گرما دینے والا وہ نعرہ ''قدم بڑھائو نوازشریف‘‘......
پنجابی کا محاورہ یہ ہے: اجڑی ہوئی مسجدوں کی گلہریاں امام ہوتی ہیں۔
ان میں سے کچھ امام اسلامی نظریاتی کونسل میں تشریف فرما ہیں اور کچھ پارلیمان کے ایوان بالا میں۔ نظریاتی کونسل میں وہ لوگ براجمان ہیں جو ڈی این اے ٹیسٹ کو پیمانہ تسلیم نہیں کرتے‘ جس سے زیادہ مکمل اور سچی گواہی کبھی تھی نہ ہوگی۔ سینیٹ والوں سے کچھ زیادہ سوجھ بوجھ کی امید تھی مگر گستاخی معاف وہ ان سے بھی بودے نکلے‘ کھوکھلے!
اپنے عصر سے مولانا حضرات آشنا ہی نہیں۔ کوئی بہت ماڈرن ہو تو سو ڈیڑھ برس پہلے کے زمانے تک پہنچا ہوگا‘ جب ریل گاڑی ایک خیرہ کن ایجاد تھی۔
روایتی مذہبی لوگوں کا ایک مخمصہ ہے۔ ان میں سے کوئی شاذ ہی اس سے نجات پاتا ہے۔ ذہنی طور پر وہ قبائلی عہد میں زندہ رہتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کو ذکاوت کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کل شب چالیس پچاس اوراق ملفوظات کے دیکھے۔ نکتہ آفرینی پر آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔ مگر وہی تھے‘ جنہوں نے فتویٰ دیا تھا کہ لائوڈ سپیکر سے آنے والی آواز اصل آواز نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں محمد بوٹا یا اس سے ملتے جلتے نام کے ایک ''سائنسدان‘‘ سے آپ نے مشورہ کیا تھا تھانہ بھون میں جو ہینڈ پمپ لگایا کرتا۔ سوجھ بوجھ کا فقدان نہیں حضور‘ دانش تو ایسی تھی کہ قرارداد پاکستان کی منظوری سے قبل‘ قائداعظمؒ کی حمایت انہوں نے کی۔ ارادہ کرلیا کہ زندہ رہا تو لاہور جا بسوں گا۔ اس وقت کوئی دیوانہ ہی اس طرح کا خواب دیکھ سکتا تھا یا غیرمعمولی سیاسی بصیرت کا ایک کوہ پیکر۔
ایسی المناک غلطی ان سے کیوں سرزد ہوئی؟۔ عرض کیا ناکہ عہد قدیم میں جینے کی خواہش۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کا اندازِ فکر ہوتی ہے۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر۔ آئن سٹائن دانائوں کا دانا۔ اللہ کے وجود پر اس کا یقین تو ایسا تھا کہ بایدوشاید۔ اگرچہ قرآن کریم میں بالکل واضح الفاظ میں مذکور ہے‘ سائنس دانوں میں وہ پہلا آدمی تھا‘ جس نے دریافت کیا کہ کائنات وسعت پذیر ہے۔ کہا: میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ خالق کی منشا کیا ہے‘ باقی تفصیلات ہیں۔ اس کے بعد مگر یہ بھی ارشاد کیا: But I don,t believe in a Personal God ''مگر ایسے خدا میں‘ میں یقین نہیں رکھتا‘ جس کا تعلق ایک ایک وجود کی ذات سے ہو۔‘‘
جس عصر میں وہ زندہ تھا‘ جس ماحول میں اپنی لیاقت اسے ثابت کرنا تھی‘ یہی روش اس میں سازگار تھی۔ درسی تعلیم میں نکھٹو‘ سائنس دانوں کے دفتر میں کلرکی‘ نابغہ عمر بھر احساس عدم تحفظ سے نجات نہ پا سکا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور سینیٹر حضرات کا کیا رونا‘ کیسی کیسی عظیم الشان ہستیوں میں کتنے چھوٹے چھوٹے کامپلیکس گاہے فیصلہ کن ہو جاتے ہیں۔
خواتین پر تشدد کی لعنت سے‘ اسلامی نظریاتی کونسل کا کیا تعلق؟۔ سوارا اور ونی کی رسوم نے کیا اس ادارے کی تشکیل کے بعد جنم لیا؟۔ ''پائوں کی جوتی‘‘ والا محاورہ‘ کیا حضرت مولانا طاہر اشرفی مدظلہ العالی کے کسی خطبے سے اخذ کیا گیا؟۔ ٹیلی ویژن دیکھنے یا نہ دیکھنے والے خواتین کی موجودگی میں ہمیشہ انہیں بشاش پاتے ہیں بلکہ زیادہ مہذب اور آسودہ۔
قوانین کے کسی مجموعے‘ کسی آئین اور دستور سے نہیں‘ خواتین‘ بچوں‘ ملازموں اور زیردستوں کے ساتھ آدمی کے طرزعمل کا تعلق تعلیم سے زیادہ اس کی تربیت سے ہوتا ہے۔ میرے بچے‘ ملازم کو نام لے کر پکارتے ہیں‘ کھردرے پن کا مظاہرہ اگرچہ نہیں کرتے۔ ''سائیں جی‘‘ کو ہم چاچا کہا کرتے تھے۔
سائیں ایک بڑا ہی دلچسپ کردار تھا۔ چک نمبر42 جنوبی سرگودھا میں‘ اس چھوٹے سے گھر میں چھوٹے موٹے کام انجام دیا کرتا۔ یاد نہیں کہ اس زمانے میں بھینس تھی یا نہیں۔ گمان سا گزرتا ہے کہ جانور کی دیکھ بھال کیا کرتا۔ والدہ محترمہ‘ بی بی جی کے سامنے‘ پیڑھی پر وہ براجمان ہوتا‘ پلیٹ میں سالن اور بڑی بڑی دو یا تین چپاتیاں اسے پیش کر دی جاتیں۔ کٹورے میں پانی دھرا ہوتا، سر جھکائے وہ کھانا کھایا کرتا۔ اب دو میں سے ایک چیز لازماً وقوع پذیر ہوتی۔ سالن ختم ہو جاتا اور چپاتی بچ رہتی۔ یا چپاتیاں تمام ہو جاتیں اور تھوڑا سا سالن بچ رہتا۔ زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ بی بی جی اسے دیکھ رہی ہوتیں، جب وہ منمناتا‘ بی بی جی! سالن بچ گیا، ایک روٹی دے دیجیے یا آدھی چپاتی بچ گئی، تھوڑا سا سالن دے دیں۔ شروع شروع میں بارہا اس سے کہا گیا کہ جتنی روٹیاں اور جس قدر سالن جی چاہے لے لیا کرے۔ مگر سائیںجی مان کر نہ دیئے۔ اپنی ہٹ کے کچھ لوگ پکے ہوتے ہیں۔ اس خاکدان میں نہیں، وہ اپنے خیالوں کی، اپنے تصورات کی دنیا میں جیتے ہیں۔ع
بگولارقص میں رہتاہے، صحرا میں نہیںرہتا
مولانا محمد خان شیرانی اورسینیٹر فرحت اللہ بابر کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں آدمی ہر روز جناب آصف علی زرداری اور حضرت مولانا فضل الرحمن کی امانت و دیانت کے بارے میں چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں۔ کبھی ایک ذرا سا اثر بھی توحید کے علمبردار عالم دین اور جمہوریت کے ثنا خواں سینیٹر پر ہوا؟ قائداعظم کے رفیق کار عطاء ربانی کے فرزند ارجمند جناب رضا ربانی پر ہوا؟
ڈاکٹرخالد مسعود، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ تھے تو اس عمارت کے مقابل آدمی مؤدب ہو جاتا۔ ایک دو بار ڈاکٹر صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ ملاقات کی آرزو بے حد تھی مگر ہمت نہ پڑی۔ حسن اور اقتدار ہی کا نہیں علم کا بھی دبدبہ ہوتا ہے۔ بعدازاں ان کی تحریریں پڑھیں تو محسوس ہوا کہ وہ تو ریشم کے بنے ہیں۔
واللہ اعلم‘ کہنے والے بہرحال یہ کہتے ہیں کہ حضرت مولانا محمد خان شیرانی درس نظامی کی تکمیل بھی فرما نہ سکے تھے۔ ان کے گورو مولانا فضل الرحمن پر بھی یہی الزام ہے۔ ایسے میں مگر وہ یہ ارشاد فرمایا کرتے ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو لوگوں نے معاف نہ کیا، رسول اللہ ﷺ کو معاف نہ کیا، اصحاب رسولؓ نہ بچ سکے۔ میں کون سا ایسا بڑا آدمی ہوں کہ معاف کردیا جاتا۔ ایک دیانتدار‘ نظریاتی سیاستدان کی حیثیت سے ، میں ان کی پیروکاری میں زندگی بسر کرتاہوں۔جی ہاں، یہ انہی کے الفاظ ہیں اور فلم کے فیتے پر محفوظ ہیں۔
قائداعظم کے حکم سے ملک کو اسلامی اقدار اور قوانین کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے 1947ء میں جو ادارہ تشکیل دیا گیا تھا، ڈاکٹر محمد اسد اس کے سربراہ تھے۔ علامہ اقبال کے ہم نفس،Road to macca ایسی کتاب کے مصنف۔ عالم عرب ہی نہیں، مغرب میں بھی جن کی پذیرائی تھی۔ چار دانگ عالم میں چرچا تھا... اور اب!
نوابزادہ نصراللہ خان نے حال پوچھا تو عرض کیا‘ جناب عالی رضوی اورشورش کاشمیری سے اوائل میں سیکھا، اب فلاں چھچھورے کی ماتحتی ہے۔ قہقہہ برسایا اور ارشاد کیا: ابوالکلام آزاد، عطاء اللہ شاہ بخاری، حسین شہید سہروردی اورخواجہ ناظم الدین! گئے گزرے وقتوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ذوالفقار علی بھٹو اوراب؟... پھر اس سابق وزیرکی طرف اشارہ کیا، جس نے جلسۂ عام میں کہا تھا: ''کبھی میں بھی آپ کی طرح ایک انسان تھا لیکن پھر قائد عوام نے مجھے وزیر بنا دیا‘‘۔
جناب زرداری سے کہہ سن کر، مولانا شیرانی کو حضرت مولانا فضل الرحمن نے نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنوا دیا، حالانکہ، انگریزی میں اس لفظ کے ہجے شاید وہ لکھ نہ سکیں۔ ایشیا کے انہی نیلسن منڈیلا ہی سے سینیٹر کی خلعت فاخرہ جناب فرحت اللہ بابر کوپہنائی۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیرکمیٹی اورمولانا شیرانی کو کونسل کا سربراہ،قائداعظم ثانی نے برقرار رکھا۔
زرداری صاحب تو طویل رخصت پر ہیں۔ میاں صاحب کوئی دن میں تشریف لاتے ہیں۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر ان کی زیارت کا موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے اور خون گرما دینے والا وہ نعرہ ''قدم بڑھائو نوازشریف‘‘......