الطاف حسین اور اس کے سرپرست بھارت سے نفرت کا پورا جواز ہے‘ ان کے لیے حالات کس نے سازگار کیے؟ حب وطن کے انہی ٹھیکیداروں نے جو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتے۔
الطاف بھائی نے پاکستان کی مذمت اور مخالفت میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی‘ اس کے باوجود مہاجروں کی بہت بڑی تعداد دل و جان سے ان کی حامی کیوں ہے۔ ذہنی توازن بگڑ جانے کے باوجود‘ پے در پے ایسے بیانات کے باوجود جن سے ایم کیو ایم کمزور ہوئی‘عمر بھر کے رفقاء کے لیے جن کا دفاع کرنا مشکل ترہے۔ اس لیے کہ مہاجروں کو انہوں نے شناخت عطا کی۔ اس انبوہ کو سیاسی قوت عطا کی‘ دوسروں نے جسے نظرانداز کردیا تھا۔ انہیں افتخار بخشا اور طاقت فراہم کی۔وہ لوگ جو اپنی روح اور مزاج میں دراصل مسلم لیگی تھے‘ اس قدر برہم اور مشتعل کیسے ہوگئے کہ اپنے وطن کے خلاف‘ اپنے لیڈر کے بیانات گوارا کرتے ہیں۔
الطاف حسین کے لیے جواز تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ سندھی‘ پنجابی‘ بلوچ اور پشتون ہی نہیں‘ خود مہاجروں کی بڑی تعداد ڈنکے کی چوٹ ان سے اختلاف کرتی ہے۔ اس کے باوجود تمام حریف پارٹیوں سے زیادہ ووٹ وہ کیسے حاصل کرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے۔ وہ ناانصافی کا شکار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے چلے آتے‘ کوٹہ سسٹم کا جواز کیا ہے۔ چالیس برس گزر جانے کے باوجود جس میں قدیم سندھیوں کو خواندہ بنا کر‘ ان کی سطح بلند کرنا تھی‘ آج بھی صورت حال وہی ہے۔ ملازمت کے لیے کراچی کے ایک نوجوان کی التجا مسترد کردی جائے گی کہ ایک سندھی نوجوان اس کے لیے درخواست گزار ہے۔ اگر اس نوجوان کا تعلق اندرون سندھ سے ہو تو شایدیہ گوارا ہو‘ لیکن میرپور خاص‘ سکھر‘ حیدرآباد اور کراچی میں اس جانبداری کا جواز کیا ہے کہ مواقع ایک جیسے ہیں۔ اگر اپنی ناراضی کے اظہار اورسائے کی تلاش میں ایم کیو ایم سے وہ رجوع نہ کرے تو اور کیا کرے؟ اس کا ہاتھ پکڑنے والا اور کون ہے؟
ان دو مختصر ادوار کے سوا جب کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی ادارے فعال تھے‘ غم و غصہ شدت سے پروان چڑھتا رہا۔ نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے جب سوال کیا گیا تو اس نے کہا: قائداعظم کے بعد ایسا لیڈر کبھی نہیں آیا۔ ایک ارب روپے سالانہ سے کراچی کے ترقیاتی بجٹ کو انہوں نے 40 ارب تک پہنچا دیا تھا۔ تعمیروترقی کے اعتبار سے مصطفی کمال کا عہد بھی اتنا ہی روشن تھا‘ ایم کیو ایم کی پروپیگنڈا مشینری کے طفیل چرچا کچھ اور بھی زیادہ ۔یہ سلسلہ کیوں جاری نہ رہ سکا؟ بلدیاتی اداروں کا گلا کیوں گھونٹ دیا گیا۔ پھر سے انہیں بحال کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی فرد اور انسانوں کا کوئی گروہ پیہم جبر اور پیہم ناانصافی سے سمجھوتہ نہیں کیا کرتا۔ انصاف ایک طاقتور جبلی آرزو ہے‘ انسان تو کیا حیوان تک میں۔ دس سال ہوتے ہیں جب ایک دلچسپ مطالعہ سامنے آیا۔ کچھ چیمپنزی بندروں کو اچھے کیلے دیئے گئے اور کچھ کو سڑے ہوئے۔ اس دوسرے گروہ نے فوراً ہی چیخ و پکار شروع کردی۔ سندھی وڈیروں کو اختیارات حاصل ہوں اور مہاجر اس سے محروم رکھے جائیں اور اس پر کوئی واویلا نہ ہو‘ کس طرح یہ ممکن ہے؟ ایک تعلیم یافتہ‘ فعال اور متحرک گروہ کیونکر یہ گوارا کرے گا‘ جس کا احساس یہ ہے کہ اس ملک کی تشکیل میں اس کا کردار دوسروں سے زیادہ ہے۔ کاروباری‘ تعلیمی اور سیاسی مقابلے میں‘ وہ دوسروں سے زیادہ کارگر ہیں۔ اس ملک پر کبھی انہوں نے حکومت کی تھی اور اہم اداروں میں ان کا تناسب دوسروں سے زیادہ تھا۔
تحقیر اور عداوت کا احساس نفرت کو جنم دیتا ہے اور بالآخر جتھے داری کو۔ تذلیل کا احساس اشتعال پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں ذہنی توازن برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم اسی کی مظہر ہے اور الطاف حسین بھی۔ جن لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ایم کیو ایم مقبولیت سے محروم محض ایک مافیا ہے‘ ریاستی قوت سے اس کا زور توڑ دیا جائے تو کراچی والے ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے‘ وہ غلط ثابت ہوئے۔ بے شک ان کے ووٹ گرے ہیں اور بے شک تربیت یافتہ مسلح قاتلوں کی حامل وہ ایک مافیا ہے مگر اب بھی ہر الیکشن میں اس کے امیدوار ظفرمند ہوتے ہیں۔ رینجرز کی بے مثال کامیابیوں کے باوجود‘ ہر کوئی جن کی تحسین پر مجبور ہے۔ بجا طور پر احساس یہ ہے کہ بھارتی مداخلت صورت حال کو سنگین تر بناتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ریاستی طرزعمل اس کے لیے سہولت ارزاں نہیں کرتا؟ ماضی کی فوجی قیادت ایم کیو ایم کی سرپرستی کرتی رہی‘ خاص طور پر مشرف کے دور میں۔ حصول اقتدار یا اسے مستحکم کرنے کے لیے ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے خود ایم کیو ایم کی شرائط پر اس سے سمجھوتے کیے۔ کراچی کے عام لوگوں کے بارے میں وہ کیوں نہیں سوچتے۔ انہیں بااختیار بنانے اور ان کے سنگین مسائل حل کرنے کے لیے؟ حب الوطنی کے نعرے اپنی جگہ مگر جب عقدہ کشائی کا وقت آتا ہے تو ان کے ذہن مائوف کیوں ہو جاتے ہیں۔ نام تو ہم رحمت للعالمین کا لیتے ہیں‘ فتح مکہ کے روز جنہوں نے تاریخ کے بدترین گروہ کو معاف کردیا تھا۔ عمل ہمارا یہ ہے کہ جب ہم غلبہ پا لیتے ہیں تو جذبۂ انتقام کی تسکین کے سوا سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
کراچی میں کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں اور ابھی چند روز پہلے تک‘ ہر روز ان میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کراچی کے شہریوں کو اذیت دینے کے لیے سندھی جاگیردار خود بھی سڑانڈ کو گوارا کرتے ہیں۔ احساس جب رخصت ہو جاتا ہے‘ دردمندی جب باقی نہ رہے تو آدمی ایسے ہی پست اور پتھر دل ہو جایا کرتے ہیں۔
لاہور سیالکوٹ موٹر وے ایک قابل تحسین منصوبہ ہے‘وفاقی حکومت نے اس سہولت سے جس کے لیے 45ارب روپے فراہم کردیئے جیسے کوئی جادوگر اپنے ہیٹ سے کبوتر نکال دے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کوئی بہت اچھی سرمایہ کاری نہیں‘ لیکن طویل المیعاد منصوبہ بندی کے نقطہ نظر سے وہ گوارا کی جائے گی۔ ایسا ہی کوئی منصوبہ کراچی کے لیے کیوں نہیں بن سکتا۔ ڈھنگ سے کراچی میں 45ارب روپے خرچ کرنے کا مطلب ہو گا‘چالیس پچاس ہزار نوکریاں۔45ارب ہی کیوں۔ ڈیڑھ دو سو ارب کیوں نہیں۔ اس شہر کے اکثر گھروں میں پینے کا پانی اس طرح میسر نہیں جس طرح پشاور‘ اسلام آباد‘ ملتان اور لاہور میں۔ وہ خرید کر پانی پیتے ہیں‘ بسا اوقات دس ہزار روپے ماہانہ تک۔ آخر کیوں؟ نعمت اللہ خان کے عہد میں ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے کراچی کے لیے میٹرو ٹرین کا منصوبہ بنا‘ شوکت عزیز کی حکومت نے اسے مسترد کر دیا کہ یہ وفاقی حکومت کا استحقاق ہے۔ درآں حالیکہ کہ شہری‘ صوبائی یا مرکزی حکومت کا ایک روپیہ بھی اس پہ خرچ نہ ہوتا۔ یہ بی او ٹی کی بنیاد پر بنا تھا۔ کراچی کے صنعتی علاقوں کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔2008ء کے بعد سے جب اس ملک کو حقیقی جمہوریت کا تحفہ ملا‘ کوئی دروازہ نہیں جسے وہ کھٹکھٹا سکیں۔ بلاول بھٹو ‘ ان کے والد محترم اور ان کی والدہ مرحومہ بجا ارشاد کرتی تھیں کہ جمہوریت اصل انتقام ہے۔
لاہور میں دو سو ارب روپے سے مقامی ٹرین چلے گی۔ کراچی میں کیوں نہیں؟ جی ہاں یہ فیصلہ صوبائی حکومت کو کرنا تھا۔ قرض بھی اسی کو ادا کرنا ہوتا۔ مرکز نے اس کی مدد کی ہوتی۔ کراچی پاکستان کا معاشی انجن ہے‘ منی پاکستان اسے کہا جاتا ہے۔ پختون خوا‘ بلوچستان اور سرائیکی پٹی سے ہروہ شخص کراچی کا قصد کرتا ہے‘ جو محنت اور مشقت سے رزق حلال کا آرزو مند ہوتا ہے۔ وہی ملک کا بہترین کاروباری مرکز ہے۔ فقط سرمائے ہی نہیں‘ افرادی صلاحیتوں اور موزوں ماحول کے اعتبار سے بھی۔ یہ سامنے کی بات ہے لیڈر لوگ ادراک کیوں نہیں کرتے۔پیہم سیاسی پارٹیوں نے اسے نظر انداز کیا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو انہوں نے بیمار کر دیا ہے۔ نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ہر سال5فیصد کی شرح سے بڑھتے پھیلتے شہر کے لیے انہوں نے کبھی منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس نہ کی، جو دنیا کے اکثر ممالک سے بڑا ہے۔
کراچی کے شہری امن کے آرزو مند ہیں۔ متبادل کی تلاش میں نو لاکھ ووٹروں نے 2013ء میں عمران خان کا ہاتھ تھاما۔ مگر اس نے ان کی کوئی پروا نہ کی اور شہر کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔اب وہ کہاں جائیں؟
الطاف حسین اور اس کے سرپرست بھارت سے نفرت کا پورا جواز ہے‘ ان کے لیے حالات کس نے سازگار کیے؟ حب وطن کے انہی ٹھیکیداروں نے جو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتے۔