کوئی تعجب نہیں کہ ابھی سے حکمت یار کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے۔ روشنی سے ڈرنے والے‘ اجالے سے خوف زدہ لوگ!
پاک افغان تعلقات کی خرابی میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اوّل دن سے‘ بھارت نے حکمران طبقات اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ صدیوں میں ڈھلنے والا‘ افغان مزاج یہ ہے کہ متحارب قوتوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ افغانوں کا المیہ ہے کہ ان کے وسائل محدود ہیں‘ پھر جو اور جس قدر ہیں‘ انہیں ترقی دینے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔
بقا کی انسانی جبلّت بہت طاقتور ہے۔ مدتوں تک دو دو عالمی طاقتوں برطانیہ اور روس کی کشمکش میں‘ وہ راستے تلاش کرتے رہے۔ پھر امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں۔ صوبہ سرحد کے عبدالغفار خان اور بلوچستان کے عبدالصمد اچکزئی‘ کانگریس سے گہرے مراسم رکھتے تھے‘ بالترتیب دونوں کو سرحدی گاندھی اور بلوچ گاندھی کہا جاتا۔ سوویت یونین کے زیرِ اثر ''ترقی پسند‘‘ قبائلی رہنما بھی‘ خیر بخش مری جن میں نمایاں تھے۔ اپنے قبائل کو سوچ سمجھ کر اور خالص ذاتی اغراض کی بنا پر انہوں نے پسماندہ رکھا‘ سیاست میں ان کا نعرہ قوم پرستی اور سوشلزم تھا۔
تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ کی قیادت پر مسلم برصغیر‘ یکسو ہو چکا تو کمیونسٹوں نے‘ جن کے تار ماسکو سے ہلائے جاتے تھے‘ پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ نئے وطن میں پر پرزے نکال سکیں۔ دل سے مگر پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کیا۔ پاکستان میں قومیتوں کا فروغ‘ روس کی مستقل حکمت عملی تھی۔ ذہنی تطہیر سے گزرے ہوئے لوگ‘ جو اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے کا یارا نہ رکھتے تھے۔ معاشرے کا ناراض عنصر۔ نفسیاتی سہارے کے لیے‘ ایسے لوگوں کو ہمیشہ کسی نظریے کی تلاش ہوتی ہے۔ اس سوال پر بہت کم غور کیا گیا ہے کہ سوویت یونین بکھر چکا تو ترقی پسندوں کی اکثریت ماسکو کی گود سے اتر کر واشنگٹن کی گود میں کیوں بیٹھ گئی؟ بہت بڑی تعداد این جی اوز کی وظیفہ خوار ہو کر‘ اپنے وطن کے خلاف وعدہ معاف گواہ کیوں بن گئی۔ اب بھی الحاد کی تبلیغ کیوں کرتے اور پاکستان کے جواز کو چیلنج کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اسی موضوع پر غور کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے البتہ یہ خیال کوندے کی طرح لپکا کہ ناراض بچوں کو مسترد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سمجھانا بجھانا چاہیے۔ ان سے بات کرنی چاہیے۔
اب تو مصروفیت نے آ لیا اور تنہائی کی آرزو بڑھ گئی ہے۔ ایک زمانے میں بعض معروف ترقی پسندوں سے رابطہ مسلسل تھا۔ جناب حبیب جالبؔ اور حضرت ظہیر کاشمیری سے روزانہ ملاقات ہوا کرتی۔ بے پناہ پذیرائی اپنی جگہ‘ جالبؔ کو پڑھنے لکھنے سے اور سنجیدہ گفتگو سے کم ہی تعلق تھا۔ مطالعے کے خوگر‘ ظہیر کاشمیری آخری برسوں میں سوشلزم سے اکتا چکے تھے۔ ایک بار بہت طویل گفتگو ہوئی تو اچانک ایسی بات انہوں نے کہی کہ میں ششدر رہ گیا۔ فرمایا: اگر ان (سوشلسٹوں) کی پوری روداد میں بیان کر دوں تو لوگ ان کی بوٹیاں نوچ لیں۔ پھر کہا: آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن کے مورچے میں بیٹھ کر اپنے لوگوں پر میں گولی چلاتا رہا۔
اردو شاعری کے مطالعے میں‘ وہ میرے مکرّم استاد تھے۔ بعض دوسرے اخبار نویس کے برعکس جو بے تکلفی روا رکھتے‘ میں ان کے سامنے مؤدب رہتا۔ بایں ہمہ‘ نہایت ادب سے گزارش کی: آپ اپنے مورچے میں واپس کیوں نہیں آ جاتے؟ فرمایا: تم ایک سپاہی نہیں‘ تم اس بات کو نہیں پا سکتے کہ سپاہی اپنا مورچہ ترک نہیں کیا کرتا۔ جواب میں یہ خاکسار کیا عرض کرتا۔
جناب عبداللہ ملک سے البتہ کچھ بے تکلفی تھی‘ ان کی عنایت کے طفیل کہ ایک سادہ اور بے ساختہ سے آدمی تھے۔ زعم اور عُجب انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سرما کی ایک شام مجھ سے اچانک کہا: جیکٹ تو اس طرح ڈانٹ رکھی ہے‘ جیسے حکمت یار نے دی ہو۔ عرض کیا: ملک صاحب! انہی نے دی ہے۔ کہا: ہم لوگوں کی تُم عیب جوئی کرتے ہو‘ تم لوگ بھی کسی سے کم نہیں۔ نذیر ناجی اور کچھ دوسرے نمایاں لوگ موجود تھے۔ ماحول کچھ ایسا سنجیدہ نہ تھا۔ میں نے جسارت کی: ملک صاحب‘ ایمان کی کہیے‘ کیا آپ لوگ فقط ایک آدھ جیکٹ پہ اکتفا فرماتے ہیں؟ بولے: ہرگز نہیں‘ ہر ماہ دو کریٹ اور ہر چند برس کے بعد‘ سوویت یونین کا سرکاری دورہ۔ ایسے ہی ایک دورے کی یادوں پر مشتمل فیض احمد فیض کی کتاب ''مہ و سالِ آشنائی‘‘ پڑھیے تو آپ دنگ رہ جائیں۔ ایسا عظیم دانشور اور شاعر‘ ایسی سطحی کتاب اور ایسا خوشامدانہ لہجہ! کہیں بھی اور کیسی بھی ہو‘ مرعوبیت ایک برباد کر دینے والی چیز ہے۔ سوویت یونین سے یہ لوگ حد درجہ مرعوب تھے‘ اب امریکہ اور بھارت سے۔ کچھ لوگ اپنے قدموں پہ کبھی کھڑے نہیں ہوتے‘ عمر بھر انہیں سہاروں کی ضرورت رہتی ہے۔
آج حکمت یار کی بہت یاد آئی۔ ایک گہرا ذاتی تعلق‘ ان سے تھا اپنے حصے کی غلطیاں‘ ان سے بھی سرزد ہوئیں... اور یہ کہ بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بہرحال انہوں نے بڑی مخلصانہ جدوجہد کی۔ ساری عمر دکھ جھیلے اور اپنی رائے پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے وہ لاڈلے تھے۔ جی نہیں‘ ان کی جماعت سب سے بڑی تھی۔ میں گواہ ہوں اور تفصیلات بیان کر سکتا ہوں کہ کئی اہم مواقع پر جنرل محمد ضیاء الحق کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ مثلاً 1983ء میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر افغان مجاہدین کے نمائندے کی حیثیت سے وہ نیو یارک میں تھے‘ ریکارڈ شدہ امریکی تاریخ کے سب سے مقبول صدر رونالڈ ریگن ان سے ملاقات کا ارادہ رکھتے تھے۔ حکمت یار سے پوچھے بغیر‘ فقط جنرل محمد ضیاء الحق کے مشورے سے‘ ملاقات کے وقت اور تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ حکمت یار نے انکار کر دیا۔ حکومتِ پاکستان‘ امریکی انتظامیہ‘ حتیٰ کہ بعض عرب سفیروں کی طرف سے اصرار کے باوجود انکار پر وہ قائم رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق برہم تھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن سے انہوں نے کہا: انہیں بتا دیجئے۔ اگر ہم انہیں بنا سکتے ہیں تو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ جنرل اختر نے، جنہیں عظیم حکمت کار (Super Strategist) کہا جاتا تھا، براہ راست بات کرنے کی بجائے، اپنے نائب بریگیڈیئر یوسف کو یہ فرض سونپا‘ شب و روز جو ان کے ساتھ رابطے میں رہا کرتے۔ بریگیڈیئر نے‘ جو سر تا پا ایک سپاہی اور نہایت صاف ذہن کا آدمی تھا‘ جنرل اختر کے انداز فکر کی تائید کی اور یہ کہا: حکمت یار، ایسا آدمی ہے کہ جہاں وہ کھڑا ہو جائے، وہاں گھاس نہیں اُگ سکتی۔ جنرل ضیاء الحق نے بعد میں ادراک کر لیا۔ حکمت یار لوٹ کر آئے تو نقصان پہنچانے اور حریف سمجھنے کے بجائے، اس موضوع پر بات کرنے سے بھی گریز کیا۔
حکمت یار کی حزبِ اسلامی آج بھی زندہ ہے؛ اگرچہ تین دھڑوں میں بٹی ہے۔ وہ حیرت انگیز تحرّک اور صلاحیت کے آدمی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت سے اگر ان کا سمجھوتہ ہو گیا، جس کی امید کی جا رہی ہے‘ تو افغانستان کی سیاست پر اس کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر‘ یہ موقع ملا تو پاکستان اور افغانستان کے بگڑے مراسم کو بہتر بنانے میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر حال میں وہ پُرامید رہتے ہیں۔ بدترین دبائو برداشت کر سکتے ہیں۔ غور و فکر کے عادی ہیں۔ دلیل کو وہ تھامے رکھتے ہیں اور دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں۔ حزب اسلامی کے دھڑ وںکو متحد کرکے، وہ ایک قومی جماعت تشکیل دے سکتے ہیں۔ مقابلے میں دوسری پارٹیاں اُبھر سکتی ہیں اور افغان سیاست کے نئے عہد کا آغاز ہو سکتا ہے۔ وہ واحد شخص ہیں، پشتونوں میں پذیرائی کے علاوہ، کسی حد تک جو شمال کے لیے بھی قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ کس طرح آج تڑپ کر دل چاہا کہ کاش اس آدمی سے ملاقات ہو سکے۔
کوئی تعجب نہیں کہ ابھی سے حکمت یار کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے۔ روشنی سے ڈرنے والے‘ اجالے سے خوف زدہ لوگ!