سنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی تائید سے‘ عمران خان کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ایک اتحاد تشکیل پانے والا ہے۔ سنا ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے۔ سنا ہے! ؎
متاع دین و دانش لٹ گئی‘ اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
کیا مولانا فضل الرحمن کے گھر پہ بلاول بھٹو کی حاضری تعجبّ انگیز ہے؟ کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ مولوی صاحب نے پہلے سے اس کے لئے تحائف خرید رکھے تھے؟ کیا یہ دعویٰ غیر متوقع ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو کبھی غدّاری کا طعنہ نہیں دیا تھا؟ اگر ایک ذرا سا بھی حسن ظن ہو‘ اور ایک ذرا سے حسن ظن کے بغیر زندگی نہیں گزرتی‘ تو ایسی خوشگوار ملاقات کی امید کم تھی۔ کس قدر یہ چونکا دینے والی بات ہے۔ پاکستانی سیاست میں مگر کسی بھی وقت‘ کسی بھی چیز کی امید کی جا سکتی ہے۔ اخبار نویس خود کو کیسا ہی تیس مار خان سمجھیں ایسے کرتب ہمارے لیڈر دکھا سکتے ہیں کہ وہ دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ جائیں‘ شرمندہ ہوں اور خود سے سوال کریں۔ ؎
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے
جنرل پرویز مشرف کے دور میں چار سالہ اسیری کے بعد‘ جاوید ہاشمی رہا ہوئے تو حضرت مولانا سے ان کی ملاقات ہوئی۔ جاوید ہاشمی سے وہ گلے ملے تو رہا ہونے والے قیدی کو انہوں نے چوما۔ عرب اسے بوسہء تکریم کہتے ہیں۔ جواباً جاوید نے بھی کوشش کی‘ پھر ہنستے ہوئے کہا: اب میں آپ کو کہاں چوموں... کہ چاروں طرف بالوں کا ڈھیر ہے۔ چالیس برس ہوتے ہیں‘ شاعر منیر نیازی روزنامہ مساوات مرحوم کے دفتر میں اپنے دوست عباس اطہر سے ملنے گئے۔ اس نادر روزگار نیوز ایڈیٹر کو‘ اخبار کے صفحے پر جو شاعری کیا کرتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مشہور زمانہ تقریر پر‘ جس میں بھٹو مرحوم نے‘ ڈھاکہ جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تھی‘ جس نے سرخی جمائی تھی ''اُدھر تم‘ اِدھر ہم‘‘۔ عباس اطہر سے تو شاعر کی ملاقات نہ ہو سکی‘ شوکت صدیقی وہاں موجود تھے۔ وہی ''خدا کی بستی کے مصنف‘‘۔ ایک عظیم افسانہ نگار‘ جس کی یاد باقی رہے گی۔ شوکت صاحب کلین شیو تھے‘ لیکن سر بالوں سے بھرا ہوا‘ مونچھیں تو تھیں ہی‘
کانوں پر بھی بال۔ داتا دربار کے قریب شب دفتر سے مال روڈ پر‘ لاہور پریس کلب کو لوٹتے ہوئے‘ پاک ٹی ہائوس کے سامنے‘ منیر نیازی سے‘ عباس اطہر کا آمنا سامنا ہو گیا۔ گرما کی شدت میں‘ درجن بھر مداح دونوں کے ساتھ تھے۔ چاندنی کا کرتا شلوار پہنے‘ قدآور اور وجیہ منیر ترنگ میں تھے۔ بولے عباس! میں تمہارے دفتر گیا تھا‘ وہاں تمہارا ایڈیٹر ملا‘ وہ شوکت صدیقی‘ وہ ALL WOLL۔ قہقہے ابھی تھمے نہ تھے کہ دوسرا وار کیا: عباس! تمہیں کیا ہو گیا ہے‘ تمہارے شجر تلے جراثیم پرورش پاتے ہیں؟ عباس اطہر‘ جنہیں شاہ جی کہا جاتا ہے‘ ایک مقبول آدمی تھے۔ دو چار مدّاح ہمیشہ ان کے اردگرد رہا کرتے۔ گفتگو کے نہیں‘ شاہ جی غور و فکر کے آدمی تھے‘ جملہ بازی سے گریز کرتے۔ اگرچہ جملہ چست کرتے تو بڑے بڑے منہ دیکھتے رہ جاتے۔ بڑے بھائی کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے‘ جو ان کے والد کا دوست بھی تھا‘ انہوں نے فقط یہ کہا: بس کرو منیر‘ ایسا لگتا ہے کہ شوکت صاحب نے تمہارا خیال نہ رکھا۔ خیال کیا رکھتے‘ منیر نیازی کی طرح‘ شوکت صاحب خود بھی بڑے آدمی تھے؛ اگرچہ سنجیدگی کی طرف مائل۔ عباس اطہر اور نذیر ناجی ایسے اخبار نویسوں کے اُستاد! وہ سب مگر ایک دوسرے کے دوست تھے‘ خوش وقتی میں زندگی بسر کرنے والے‘ پنجابی روزمرّہ کے مطابق کھلے ڈُلّے‘ یار باش۔
سیاستدانوں کی بات دوسری ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون کس کا دوست اور کون کس کا دشمن ہے۔ ایک نوابزادہ نصراللہ خان قدرے مختلف تھے۔ 2002ء کا الیکشن ہو چکا تو نصراللہ مرحوم نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کو وہ قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مخدوم امین فہیم کی قیادت میں ان کے ایک وفد سے ملاقات کے ہنگام، اتفاق سے یہ ناچیز بھی جا پہنچا‘ رانا نذرالرحمن کے ہمراہ۔ دربان نے روکنے کی کوشش کی: ''اخبار نویسوں کو اندر جانے سے منع کیا ہے‘‘۔ عرض کیا: ''انہیں بتائیے تو سہی اور یہ بھی کہیے کہ میں اخبار نویس نہیں ہوں‘‘۔ کھوٹے سکّے کی طرح لوٹ آیا اور لپک کر دروازہ کھول دیا: نواب صاحب کہہ رہے تھے‘ ''کم بن ویسی‘‘ یعنی کام ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی والوں کے چہرے پتھرائے ہوئے تھے۔ وہ خود عذاب میں گرفتار تھے۔ ان کے ایک دھڑے نے پیٹریاٹ گروپ بنا لیا تھا اور جنرل مشرف سے جا ملے تھے‘ جس طرح بعد میں‘ حضرت مولانا خود بھی۔ ہماری موجودگی میں سیاست پہ اب کیا بات ہوتی۔ نواب صاحب کو اکسانے کے لئے‘ ایک آدھ مصرع پڑھا۔ وہ چھڑ گئے ؎
نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
اک ذرا چھیڑ تو دے تشنہِ مضراب ہے ساز
ایک شعر‘ پھر دوسرا اور تیسرا۔ ابھی کچھ دیر پہلے سنبھل سنبھل کر گفتگو تھی کہ سیاست کے خارزار میں‘ دامن بچا کے چلتے ہیں‘ اب ایک رومان پسند بروئے کار تھا۔ ایک دریا ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ شاعری کی گویا برسات تھی۔ ظہیر کاشمیری کا شعر ہے ؎
امید کا آنگن فرسودہ‘ وعدوں کی چھتیں کمزور بہت
اس پر ہجر کے موسم میں‘ برسی ہے گھٹا گھنگھور بہت
فکر و خیال کی پناہ گاہ نہ ہو تو سیاست محض ایک کاروبار ہے اور کاروبار ہر طرح کی کامیابیوں کے باوجود‘ محض ایک چٹیل میدان۔ اس میدان پہ ابر نہیں برستا‘ پھول کھلتے ہیں نہ چاند طلوع ہوتا ہے۔ کوئی خواب اگر نہ ہو تو سیاست محض شعبدہ بازی ہے یا شطرنج کا میدان۔ ملک ہوتا ہے اور نہ ملت، کوئی قوم نہ آدمی۔ فقط اظہارِ ذات کی ایک وبا، فریب نفس کی کائنات۔ خواہشات کے سراب میں جہاں آدمی جیتا ہے۔ دولت اور رسوخ کی دوڑ یا انا کو گنے کا رس پلانے کی مشق۔
نواب زادہ اس ناچیز کی طرف متوجہ ہوئے۔ برسوں سے میں درخواست کر رہا تھا کہ اپنی نصف صدی کی کہانی وہ مجھے سنائیں۔ اچانک انہوں نے کہا: رمضان المبارک میں خان گڑھ آ جائیے۔ اپنی پچاس برس کی ڈائریاں میں آپ کے حوالے کر دوں گا۔ افسوس کہ میں جا نہ سکا۔ دیر بہت ہو گئی تھی۔ فرصت کے دن رات خواب ہو چکے تھے۔ اب جھمیلے بہت تھے۔ بعد میں وہ ڈائریاں‘ ان کا سیکرٹری لے اڑا۔ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہ ملا۔ پچاس ہزار روپے میں اسے دینے پر آمادہ تھا۔ پیغام بھی بھیجا مگر جواب ندارد۔ اس کا وہی سرمایہ تھا۔ سنا ہے کہ دام لگوانے کی کوشش کرتا رہا۔ آدمی ہی نہیں‘ بہت سے دوسرے لعل و گہر بھی مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
پچھلے برس شاعر منصور آفاق نے مجھے بتایا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی کچھ کتابیں ورثا کے پاس محفوظ ہیں۔ اس میں سے ایک غزل اس نے مجھے عنایت کی‘ جس کی زمین تھی‘ لاالہ الا اللہ‘ وہی جس پر اقبالؔ نے طبع آزمائی کی اور عارف کے ورثے کو پھر سے زندہ کر دکھایا ؎
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
بستیوں پر ایک عذاب یہ بھی نازل ہوتا ہے کہ علم کو چھپا دیا جاتا ہے، برباد کر دیا جاتا ہے۔ مسلمان کوڑے کا ڈھیر ہو گئے تو تاتاری ان پر چڑھ دوڑے۔ بغداد کی لائبریریاں جلا دی گئیں یا دجلہ کی نذر ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔ حضرت سلطان باہو کا ذکر آیا ہے تو دور دور تک دل میں گداز کی فصل اُگ آئی ہے۔ دانشوروں کی فیاضی نے کتنے ہی شاعروں کو ''صوفی شاعر‘‘ بنا ڈالا۔ درحقیقت سلطان ہی ایک تھے، جو واقعی شاعر تھے اور واقعی عارف۔ جعل ساز اور مدعی دارا شکوہ کے مقابل اورنگز یب عالمگیر کو تنہا پا کر اس کی تائید میں اٹھے اور ''عالمگیر نامہ‘‘ لکھا۔ کاش کوئی اسے شائع کر دے اور ان کا باقی ماندہ کلام بھی۔ اوراق پر ستارے سے جگمگاتے ہیں‘ ہر طرف سے آواز دوست سنائی دیتی ہے۔ ع
''دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیا جانے ہُو‘‘
دل کا دریا بحر سے گہرا کون دلوں کی جانے ہُو
سلطان باہو کے کلام کا کیا رونا۔ غلام اسحق خان سے ان کی خود نوشت یہ اصرار کیا تو بولے: جو کچھ مطبوعہ ہے اس سے آدمی نے کیا فیض پایا۔ کون سی بات ہے لکھنے والوں نے جو لکھ نہیں دی۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل‘ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، اس خبر کے بارے میں پوچھا کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہے ہیں کیا۔ کہا: بالکل نہیں‘ میں اس قابل کہاں۔ پڑھتا البتہ ہوں۔ ہمراہ‘ سینیٹر طارق چوہدری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بس اتنی سی بات کہی تھی کہ کوئی نیا لفظ ملتا ہے تو اس کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یا للعجب غلام اسحق خان سا امین اور عالم قوم کو گوارا نہ ہوا، کتاب سے مفرور‘ اہل علم سے مفرور‘ میاں محمد نواز شریف اس کے سردار ہو گئے۔ قوم بھگت رہی ہے اور ابھی کچھ اور بھگتے گی۔ خوئے غلامی کے مارے‘ جہل کے مارے معاشروں کو ایسے ہی حکمران عطا ہوتے ہیں۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں۔
خیر‘ میاں محمد نواز شریف ان دنوں جدہ میں جلا وطن تھے۔ وزارت عظمیٰ کی امید پیدا ہوئی تو حضرت مولانا فضل الرحمن کے تیور ہی بدل گئے۔ ان کے ایک رفیق نے بتایا: اب تو وہ سوتے بھی وزیر اعظم کی طرح ہیں۔ انہیں دنوں، اسلام آباد میں امریکی سفیر سے انہوں نے التجا کی تھی کہ حکمران بننے میں ان کی مدد کریں۔ کیا وہ ہنسی تھی یا روئی تھی؟
اقتدار کا ہُما بہرحال میر ظفراللہ خاں جمالی کے سر پر آن بیٹھا۔ چوہدریوں کے طفیل‘ وگرنہ میاں اظہر ہوتے۔ نتیجے کا اعلان ہونے کے بعد حضرت مولانا مبارک مباد دینے میر صاحب کی طرف بڑھے تو دونوں کے شکم ہائے دراز‘ راستے میں حائل ہو گئے۔
سنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی تائید سے‘ عمران خاں کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ایک اتحاد تشکیل پانے والا ہے۔ سنا ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے۔ سنا ہے! ؎
متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خون ریز ہے ساقی