عجیب بات ہے ، کتنی عجیب بات ۔ ایک عام آدمی کی نگاہ جن حقائق کو پا لیتی ہے ، بڑے بڑے لوگوں کی نگاہ سے بعض اوقات وہ پوشیدہ رہتی ہے ۔خود فریبی‘ خود فریبی !۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ملک شریف خاندان سے نجات پائے ؟ ان کی جڑیں اتنی گہری ہیں اور اس تیزی سے مزید گہری کرنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ عشرو ں ، صدیوں تک ملک ان کا غلام رہے ۔ ایک آدھ ادارہ جو بچ رہا ہے ، وہ بھی ان کے شاہانہ جلال کی نذر ہو جائے ۔ دنیا کی بہترین فوج کو وہ گھٹیا سی پولیس فورس بنا دینا چاہتے ہیں ۔ بس چلے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کو مجسٹریٹ کی سطح پر لے آئیں ۔میڈیا اگر آزاد ہے تو اس میں بھٹو ،زرداری ، بے نظیر اور نواز شریف کا کوئی حصہ نہیں ۔ 1988ء میں پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی نینس غلام اسحٰق خاں نے منسوخ کیا تھا ۔ پرائیویٹ چینل ، جیسا کہ سب جانتے ہیں ، جنرل پرویز مشرف کی عطا ہیں ۔ان دونوں کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خطا بھی میڈیا نے کبھی معاف نہ کی ۔ میاں صاحب پر بے حد وہ مہربان ہے ۔بعض صحافی ان کے حکم پر جیلوں میں ڈالے گئے ۔ بعض پر بغاوت کے مقدمات بنے ۔ ایک گروپ تو ایسا بھی تھا ، جسے یکسر انہوں نے تباہ کرناچاہا۔ ان میں سے ایک آج بھارت کے لیے ان کا خفیہ سفارت کار ہے ۔دوسری اقوامِ متحدہ میں مندوب ۔ رہا وہ گروپ ، تو صبح و شام، دن و رات ان پہ وہ صدقے واری ہے ۔ کچھ دوسرے بھی سجدہ ریز ہیں ۔ایک کے بعد دوسرا حریت پسند صحافی ان پہ فدا ہوتاہے۔ یہ سب کے سب بہت با اصول او رعلم و فضل سے لدے پھندے ہیں ۔ میاں صاحب کے کارنامے ہی اتنے اور ایسے ہیں کہ اہلِ دانش قائل ہو رہتے ہیں ۔ وہی ہیںبیچ سڑک جو ایک بھوکے پیاسے کو پٹرول پمپ دے سکتے ہیں ۔وہی ہیں ،جو ایک مفلس کو دو بینکوں سے تین ارب دلا سکتے ہیں ۔
مقدمات اور ان کی تفصیل سے قطع نظر ، شریف خاندان سے گلو خلاصی میں رکاوٹ کیا ہے ۔ آخری تجزیے میں یہ ان کے مخالفین ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی استعدادِ کار محدود ہے۔ ایک دوسرے کے درحقیقت وہ مددگار ہی نہیں ۔ تنہا ان میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ شریف خاندا ن کو اکھاڑ پھینکے ۔ خانِ اعظم عمران خان ہی کو لیجیے ۔ سامنے کے بعض حقائق ان کی سمجھ میں نہیں آتے ۔ اگر وزیرِ اعظم وہ بننا چاہتے ہیں تو خود کو ایک ذمہ دار آدمی نظر آنا چاہئیے۔ اب یہ اکیسویں صدی ہے ، اب یہ ایک چھوٹی سی دنیا ہے ۔ دنیا کے ہر ملک میں انکل سام دخیل ہے ۔ روس ، چین ، سعودی عرب اور شام ایسے معاشروں میں بھی ، خود کو جو الگ تھلگ رکھتے ہیں ۔ ایک ایک شخص پہ خفیہ ایجنسیوں کی نگاہ رہتی ہے ۔ سیاسی پارٹیاں جہاں آزادی سے کام نہیں کر سکتیں ۔ محدود اور محکوم میڈیا مدح سرائی پہ مامور رہتاہے ۔ آج نہیں ،مسلم برصغیر ہزاروں برس سے ایک راہگزر ہے ۔ سکندرِ اعظم سے احمد شاہ ابدالی تک کبھی شمال وسطی ایشیا کے وحشی او ربھوکے لشکر وادی ء سندھ قطع کرتے ہوئے گنگا جمنا کے میدانوں میں اترتے تھے ۔ صنعتی انقلاب اور نام نہاد جمہوری انقلاب کے بعد دنیا پھر بدلنے لگی ۔ اس کے بعد پھر انگریز آئے ، فرانسیسی اٹھے، جرمن نمودار ہوئے اور اب امریکہ بہادر ہے ۔آکٹوپس کی طرح ، جس کے پنجے ہمارے قومی پیکر میں ہر کہیں گڑے ہیں ۔
ملک کے کئی فیصلہ کن صنعت کار گروپ امریکہ کے زیرِ اثر ہیں ، کئی سیاسی پارٹیاں ۔ جیسا کہ کل معید پیرزادہ نے لکھا، پاکستان میں چھپنے والی ہر اہم تحریر کا سی آئی اے جائزہ لیتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر سیاسی لیڈر کا بھی ۔ اعلانیہ ہر سال اربوں روپے وہ غیر سرکاری تنظیموں کو ادا کرتے ہیں ۔ ان مکرم دانشوروں کو ، اخبار او رٹیلی ویژن پر جو بھاشن دیتے ہیں ۔ ان بھاشن دینے والوں میں سے ایک نے کل ہمیں بتایا کہ امریکہ آج بھی پاکستانی بر آمدات کا سب سے بڑا میدان ہے ۔ استعماری اثرات سے نجات کی آرزو بے شک مبارک ترین آرزو ہے ۔ کپتان مگر آج تک اس نکتے کو پا نہ سکا کہ پیر تسمہ پا سے جان چھڑانا اعلیٰ درجے کی حکمت کا تقاضا کرتاہے ، ایک خاص طرح کے تعلقاتِ کار کا ۔ دور کیوں جائیے ، ذوالفقار علی بھٹو اس کا مظاہرہ کر چکے ۔ معقول مراسم برقرار رکھتے ہوئے ، انکل سام کو خارجہ پالیسی میں غیر ضروری عمل دخل کی اجازت وہ کبھی نہ دیتے تھے ۔ بائیں بازو کے نامور فضلا ء کرام تین عشروں سے جنرل محمد ضیاء الحق کو امریکی کارندہ ثابت کرنے پہ لگے ہیں ۔جوہری پروگرام انہی کے دو رمیں تکمیل کو پہنچا ۔ پشاور جاتے امریکی سفیر کو خیر آباد کے پل پر انہوں نے روک دیا تھا ۔ سیدہ عابدہ حسین، محترمہ بے نظیر بھٹو، جنرل حمید گل، جنرل اسلم بیگ اور شہریار خان کی موجودگی میں ایٹمی پروگرام پر خطبہ دیتے امریکی صدر کے نمائندے کو کھری کھری غلام اسحٰق خاں نے سنا دی تھیں ۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھا جاتا مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مچھلیاں زندہ نہیں رہ سکتیں ۔
چین ہے۔ عمران خان کے بارے میں چینیوں کے تحفظات ہیں ۔ شریف خاندان نہیں ، چین کی دوستی پاکستانی عوام سے ہے اور دائمی ہے ۔ چین سے بات کرنا بہت آسان ہے ۔ الیکشن 2013ء سے چھ ماہ قبل کپتان سے سعودی سفیر نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میاں صاحب کی طرف وہ مائل ہیں ۔ سعودی عرب کو قائل کرنے کی کوئی حکمتِ عملی خان صاحب اور ان کے ساتھی جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین ، اسحٰق خاکوانی اور اسد عمر بنا نہ سکے ۔ یہ ممکن تھی ۔بعد ازاں ریاض کے باب میں میاں صاحب نے آنکھیں جس طرح ماتھے پہ رکھ لیں ، اب تو یہ اور بھی سہل ہے ۔ پھر پاکستان کے کاروباری طبقات۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحبان کے سائے ہی میں وہ پھل پھول سکتے ہیں ۔ نادرست اور بالکل نادرست ۔ اذیت دینے والی بے حس بیوروکریسی کے چنگل سے میاں صاحبان ہرگز ہرگز اس طبقے کو نجات نہ دلائیں گے ۔ کیوں دلائیں ؟ سرکاری محکموں ، سرکاری دفاتر اور افسر شاہی کو ملک پہ گرفت قائم رکھنے کے لیے وہ استعمال کرتے ہیں ۔ چندہ نچوڑنے کے لیے ۔ ہزار طرح کے اور فائدوں کے لیے ۔ الیکشن 2013ء سے ڈیڑھ دو سال قبل خاں صاحب کی خدمت میں عرض کرنا شروع کیا کہ ایوان ہائے صنعت و تجارت سے بات کریں ۔ کراچی کے کاروباری اربوں روپے کا چندہ دینے پر آمادہ تھے ۔ لاہور ، فیصل آباد، گوجرانوالہ ، پشاور اورملتان بھی بڑے مراکز تھے۔ سن کر نہ دیا اور لاہور والوں پر قناعت کر لی ۔
یہ موضوع الگ ، امیدواروں کے انتخاب کا کوئی نظام اب تک تحریکِ انصاف وضع نہیں کر سکی ۔ فرض کیجیے ، عدالتِ عظمیٰ میاں محمد نواز شریف کو چلتا کرے ۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ نئے الیکشن کا انعقاد ۔ تحریکِ انصاف نے اس کے لیے کیااور کتنی تیاری کی ہے ؟بلاول بھٹو کیسے اور کتنے ہی تماشے کریں ، پیپلزپارٹی نون لیگ کے ساتھ ہے اور دل و جان سے اس کے ساتھ ۔ مولانا فضل الرحمٰن ، محمود اچکزئی اور اسفند یار کے لیے کپتان کے دستر خوان پہ رکھا کیا؟ ارے بھائی، وہاں تو کوئی دستر خوان ہی نہیں ۔
انتقام پر تلے ہوئے لوگ حکمتِ عملی بنا نہیں سکتے ۔ حکمت کے بغیر کسی دیر پا ظفر مندی کا سوال ہی کہاں؟نواز شریف ہار بھی گئے تو لو ٹ آئیں گے ۔ لال حویلی کے افلاطون شیخ رشید کی مدد سے تشکیل کردہ موجودہ منصوبہ بندی کے ساتھ عمران خان جیت بھی گئے تو یہ باقی اور برقرار رہنے والی فتح نہ ہوگی ۔
عجیب بات ہے ، کتنی عجیب بات ۔ ایک عام آدمی کی نگاہ جن حقائق کو پا لیتی ہے ، بڑے بڑے لوگوں کی نگاہ سے بعض اوقات وہ پوشیدہ رہتی ہے ۔ خود فریبی‘ خود فریبی !