کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تُم نے قبریں جا دیکھیں
خبردار‘ تُم جلد جان لو گے
پھر خبردار‘ تُم جلد جان لو گے
پھر تُم جہنم کو دیکھو گے
یقین کر لینے والی آنکھوں سے
اس دن تُم سے پوچھا جائے گا
نعمتوں کے بارے میں (جو تمہیں دی گئیں)
جب یہ عرض کیا جاتا ہے کہ شریف خاندان کی برتری کا سبب‘ اس کے مخالفین ہیں تو اس کے پیچھے ایک احساس کارفرما ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی اچھی ہے یا بری‘ امریکہ کے صدارتی الیکشن کا سبق یہ ہے کہ عوامی جذبات کی قوت ہی سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
قوم کی اکثریت نون لیگ سے شاد ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں۔ میو ہسپتال کے مقابل لاہور کے لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں چلے جائیے۔ ایک ایک بستر پہ تین تین مریض پڑے ہیں‘ حاملہ خواتین!
اب میں اس کا نام بھولتا ہوں۔ ناروے کے نائب وزیراعظم سے جنرل حمید گل مرحوم کی ملاقات ہوئی تو یہ واقعہ انہوں نے سنایا: 1960ء کے عشرے میں ملک کی معاشی حالت خوشگوار نہ تھی۔ پارلیمنٹ میں چند ارکان نے سوال اٹھایا کہ حمل کی چھٹی حاصل کرنے والی خواتین کو آدھی سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد تھی۔ مغرب میں ساٹھ ستر فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں۔ پورا معاوضہ ادا کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ بجٹ پہ بہت بوجھ پڑے۔ گنتی کے ان ارکان نے‘ جو یہ مقدمہ لے کر چلے تھے‘ منطقی اور معاشی بنیادوں کی بجائے‘ انسانی ہمدردی کے جذبے کو صدا دینے کا فیصلہ کیا۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے کہ بیٹیاں‘ بہنیں اور مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔ پاکستان ہی نہیں‘ ساری دنیا میں۔ ان پتھر دلوں کے سوا‘ درہم و دینار ہی‘ جن کے لیے سب کچھ ہیں‘ انسان کی قدر و قیمت ہر چیز سے زیادہ ہے۔
کائنات ارضی میں‘ ایک دوسرے پر انحصار کرنے والی ایک ارب سے زیادہ مخلوقات کے باہمی رشتوں کا مطالعہ کرنے والے سائنس دان کہتے ہیں : خالق کائنات کے نزدیک آدمی گویا ایک لاڈلی مخلوق ہے۔ قرآن کریم کی آیت کریمہ تصدیق کرتی ہے ‘ فرمایا : اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے آپ پہ رحمت کو لازم لکھا۔ کیا نہیں لکھا‘ کتب علیٰ نفسہ الرحمۃ
پرندوں کا‘ چوپایوں کا‘ جنگلی اور پالتو جانور کا بچہ‘ چند دن میں اپنے پائوں پر کھڑا ہو جاتاہے۔ اپنے پروں پہ پرواز کرنے لگتا ہے۔ آدمی کے بچے کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ مائوں کے دلوں میں ایسی محبت اولاد کی ڈال دی گئی ہے کہ خود نہیں کھاتیں‘ بچوں کو کھلاتی ہیں۔ بیمار ہو جائے تو کسی پل چین نہیں آتا۔ بلوغت ہی نہیں‘ اس کے بعد بھی۔ بہت سے گھروں میں شادی شدہ بچے والدین کے گھروں میں رہتے ہیں۔ خوش دلی سے وہ ان کا بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ بوجھ کیسا‘ ایک نعمت گردانتے ہیں۔ ایسی محبت بیٹے‘ بیٹیوں سے بھی نہیں ہوتی‘ جیسی کہ پوتے پوتیوں سے۔ ضرورت کیا‘ آسائش کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ''آنگنوں میں ان کے ہنستے ہوئے ہاتھ‘‘ ہمارے عصر کے سب سے مقبول شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا۔ پاکستانی معاشرے میں‘ ماں کا مقام‘ دنیا کے کسی بھی سماج سے زیادہ بلند ہے۔ سرکارﷺ کا قول مبارک یہ ہے کہ اولاد کے حق میں‘ باپ کی دعا‘ سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ اور مسافر کی اور روزہ دار کی۔ ظاہر ہے کہ ماں کی بھی۔ ہمیں وہ ارشاد زیادہ بھاتا ہے : جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ اچھا ہے‘ بھانا ہی چاہیے۔ عالی جناب کا کوئی بھی حکم جس دل میں اترے گا‘ اسے منور ہی کرے گا۔
لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں ایک ماں پڑی ہے اور اس حال میں؟ وہ ایک بچے کو جنم دینے والی ہے اور اس عالم میں؟ اس ناچیز سمیت کتنے ہی لکھنے والے رو دیئے‘ کتنے ہی فریاد کرنے والے فریاد کر چکے۔ کتنے بے شمار آنسو بہہ چکے۔ کتنی ہی خوف زدہ‘ سسکتی جانوں پر‘ ہر روز قیامت گزرتی ہے۔ خادم پنجاب کا دل پگھلتا کیوں نہیں؟ وزیراعظم پاکستان کو ترس کیوں نہیں آتا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانی جانوں اور زندگیوں کی ان کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ ایک شادی کی تقریبات کے ہنگام‘ محترمہ مریم نواز کی طبیعت کچھ بگڑی تو لاہور کی گلیوں میں ہوا تھم کے چلی۔ والد گرامی‘ والدہ محترمہ اور بھائیوں کو قرار نہ آیا‘ جب تک لندن کے ایک ہسپتال سے‘ صحت یاب ہو کر وہ لوٹ نہ آئیں۔ آٹھ برس ہوتے ہیں‘ حسن نواز ایک سنگین بیماری کا شکار ہوئے تو معالجوں نے ہی نہیں‘ درویشوں اور فقیروں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے گئے۔ تحریک انصاف پنجاب کے صدر‘ موم کے دل والے صاحب ایثار‘ رنجیدہ تھے۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اپنے ٹیلی فون پر‘ بڑے صاحب سے‘ عارف کی میں نے بات کرائی‘ غمزدہ باپ کی انہوں نے ڈھارس بندھائی‘ فرزند انشاء اللہ صحت یاب ہو جائے گا۔ خود انہیں بھی تسلی دی۔ دل چھوٹا نہ کیجئے گا۔ آپ کے لوٹ آنے کا وقت قریب آ گیا۔
پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں تڑپنے اور مرنے والے مریضوں کے لیے ان کا دل کیوں نہیں دُکھتا۔ کیا وہ دیکھتے‘ سنتے اور جانتے نہیں‘ دوسرے صوبوں کو چھوڑیے کہ دوسروں کی ذمہ داری نہیں‘ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں زندگیاں رائیگاں کرتے‘ قوم کے کروڑوں فرزندوں کی فکر انہیں کیوں لاحق نہیں ہوتی؟وہ زندگیاں جو مٹی میں مل کر مٹی ہوتی رہیں گی یا تعلیم سے سونے پہ سہاگہ۔ وہ جو ہمارا آنے والا کل ہیں‘ ہمارا مستقبل‘ ہمارا اندوختہ‘ ہمارا سبھی کچھ۔
داستاں دراز کرنے سے کیا حاصل وگرنہ سوالات اور بھی ہیں‘ مثلاً جاتی امرا میں خود اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے تو ستر کروڑ روپے کی دیوار بنی‘ قوم کے بچوں کو بے یارومددگار کیوں چھوڑ دیا گیا؟ 720 ارب روپے ہر سال سرکاری کارپوریشنوں میں‘ 200 ارب روپے بجلی چوری میں‘ قوم کا سرمایہ دن رات لٹتا ہے‘ کسی کو پرواکیوں نہیں ۔ اس نو سو ارب سے تو ہر بھوکا پیٹ بھرا جاتا‘ ہر بچہ تعلیم پا سکتا۔ ہر ماں کے بیمار بیٹے کا علاج ممکن ہو جاتا۔ سٹیٹ بینک کے سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ کوئٹہ‘ کراچی‘ لاہور اور پشاور سے ہر روز 25 ملین ڈالر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ آٹھ سو ارب روپے سالانہ‘ کم از کم آٹھ لاکھ ملازمین ہر برس شاہی خاندانوں کا سرمایہ بھی اس میں شامل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دوسروں کو یہ راستہ خود انہی نے دکھایا۔ علی الاعلان وزیراعظم کا خاندان جب لندن اور وزیر خزانہ کا دبئی میں بیوپار کرے گا تو دوسرے پاکستان میں کیوں خاک چھانیں‘ بے دردی ہے‘ بے دردی کے سوا اور کیا۔ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں‘ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔
اچھا! قصور وار تو وہ ہیں‘ پھر اپوزیشن کو میں کیوں ذمہ دار ٹھہراتا ہوں؟ اس لیے کہ وہ بھی اتنے ہی بے درد ہیں۔ اتنے ہی سنگ دل‘ اتنے ہی سفاک۔ بعض تو ان سے بھی زیادہ۔
سبکدوش لیفٹیننٹ جنرل محمد سلیم نے‘ جب وہ بلوچستان میں امن قائم رکھنے کی ذمہ دار فرنٹیئر کور کے انسپکٹر جنرل تھے‘ مجھ سے بیان کیا : بلوچستان کے ایک ویرانے سے‘ ایک چرواہا پکڑا گیا۔ تخریب کاروں سے تعاون کے شبہ میں۔ دیکھا تو ششدر رہ گئے۔ برسوں پہنی جانے والی شلوار گھس گھس کر پتلی ہوئی اور کئی جگہ سے پھٹ گئی تھی۔ دھاگے کی بجائے‘ گھاس سے وہ پروئی گئی تھی۔ چند ہی ملاقاتیں ہیں‘ جنرل کو میں زیادہ نہیں جانتا۔ بہرحال یہ کہانی کہتے ہوئے ان کا لہجہ گلوگیر سا ہو گیا۔ چہرے کے نقوش پگھل سے گئے‘ آنکھوں میں نمی کا شائبہ ہوا۔
آصف علی زرداری کو چھوڑئیے‘ انہیں ہم دیکھ چکے۔ انہیں ہم بھگت چکے۔ اپوزیشن وہ ہیں ہی نہیں۔ یوں بھی نوازشریف ان سے بہرحال بہتر ہیں۔ کبھی جاگ بھی اُٹھتے ہیں‘ کبھی ادراک بھی کرتے ہیں۔ میرا سوال عمران خان سے ہے۔ کبھی اس چرواہے کے بارے میں انہوں نے سوچا ہے؟ ان جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے بارے میں۔ افتادگان خاک زندگی کی بساط پر جو اپنی بازی پہلے ہی ہار چکے۔ بے روز گاروں کو تو الگ رکھیے کہ دن رات اجڑتے رہتے ہیں۔ گھروں میں ملازمین کو دیکھئے‘ کارخانوں میں مزدوروں‘ سرکاری دفاتر میں کچلے اہلکاروں کو۔ ستے ہوئے چہرے‘ بجھی ہوئی آنکھیں‘ بجھے ہوئے ماتھے۔ دیہات میں جا نکلیے تو صدمہ اور بھی سوا ہوتا ہے۔ کچے یا پکے مکان یہاں ہوتے ہیں‘ شہروں میں‘ قصبات میں‘ اندرون سندھ‘ اندرون بلوچستان اور خود پنجاب کے بعض علاقوں میں ایسی جھونپڑیاں میں نے دیکھیں کہ جھونپڑیاں بھی نہیں۔ گارے کی چاردیواری اور اس کے اوپر گھاس پھوس‘ سندھ کے بعض اضلاع میں بیڑی کے پتے چننے والوں کو‘ سو روپے روزانہ مزدوری ملتی ہے۔ ابلے سستے اری چاولوں پر‘ نمک مرچ چھڑک پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں۔
منصوبہ بندی تو کیا‘ اس کا کہیں ذکر ہی نہیں۔ نام ہی نہیں۔ کسی کو یاد نہیں۔ شب کے آخری پہر‘ آج خود سے اس عاجز نے کہا : تُم بھی قصور واروں میں ہو۔ قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دو گے؟ سرکارﷺ کا سامنا کیسے کرو گے؟ جن کا ارشاد یہ ہے : جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا‘ اللہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔ نہیں‘ خدا پاکستان کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تُم نے قبریں جا دیکھیں
خبردار‘ تُم جلد جان لو گے
پھر خبردار‘ تُم جلد جان لو گے
پھر تُم جہنم کو دیکھو گے
یقین کر لینے والی آنکھوں سے
اس دن تُم سے پوچھا جائے گا
نعمتوں کے بارے میں (جو تمہیں دی گئیں)