"HRC" (space) message & send to 7575

کشتی رانی

صرف قوت بازو نہیں‘ بلکہ ملاح کی دانش ہوتی ہے‘ جو اسے بھنور سے بچا لے جاتی ہے۔ کشتی رانی مشغلہ نہیں‘ زور آزمائی نہیں‘ ایک ہنر ہے۔ 
11 اکتوبر کو مشاہد حسین کی قیادت میں‘ پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں صدر اوباما کے مشیر پیٹر لوبائے سے ملاقات کی تو تین نکات پر انہوں نے اتفاق کیا۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کا مرتکب ہے‘ ثانیاً دریائی پانی کے معاہدے پر‘ اس کا بدلتا ہوا موقف‘ بے اصولی ہے، گلگت بلتستان کے باب میں بھارتی دعوے‘ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔
کشمیر میں آزادی کی تحریک‘ نئی بلندیوں کو چھونے لگی تو وفاقی حکومت ہڑبڑا کر جاگی۔ افراتفری میں پارلیمانی وفد تشکیل پائے اور بیرون ملک بھیج دیئے گئے۔ ان میں سے اکثر بے صلاحیت اور ناتجربہ کار لوگ تھے۔ مثلاً لاہور کے ایک رکن قومی اسمبلی کو غالباً فرانس بھیجا گیا‘ جو زمینوں پر قبضہ کرنے کی بہترین صلاحیت کے لیے پہچانا جاتا ہے۔
سب کے سب نکمے نہیں تھے۔ مشاہد حسین والے وفد نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پچیس مختلف اداروں اور افراد سے انہوں نے ملاقاتیں کیں۔ ان میں بھارتی اخبار نویس بھی شامل تھے‘ ازخود جنہوں نے رابطہ کیا تھا۔ ان میں سے بعض نے چمکنے کی کوشش کی تو خارجہ امور کے ماہر نے بتایا کہ طاقت ہی نہیں بھارت کو اپنی کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔ خالصتان‘ میزورام اور تری پورہ سمیت‘ علیحدگی کی پندرہ تحریکیں اس میں کارفرما ہیں۔ مسلسل اور متواتر پاکستانی وفد اس نکتے پر زور دیتا رہا کہ کشمیر کی تحریک داخلی ہے ۔ یہ وہ نکتہ ہے کہ جس کی کوئی تردید نہ کر سکتا تھا۔ پوری تیاری کے ساتھ...اور اس کے لیے دو ہفتے سے زیادہ وقت درکار نہ ہو گا... ایسے وفود‘ اگر دنیا بھر میں بھیجے جائیں؟
برصغیر کا ایک مزاج ہے۔بھارت ہو‘ بنگلہ دیش یا پاکستان‘ وہ بھڑک اٹھتے ہیں۔ جنرل حمید گل مرحوم کہا کرتے تھے : دودھ ابالنا ایک بات ہے اور سنبھالنا دوسری بات۔ جنرل محمد ضیاء الحق‘ بعض لوگوں کو بہت ناگوار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنے مزاج اور ترجیحات کی بعض خامیوں کے باوجود وہ ایک عظیم حکمت کار تھے۔ اسلحے اور عساکر کی تعداد کے اعتبار سے‘ دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین‘ سوویت یونین کو شکست دینے میں‘ اگر وہ کامیاب رہے تو اس لیے کہ گوریلا جنگ کے لیے ان کی تکنیک بالکل درست تھی۔ آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں ہونے والے اجلاسوں میں‘ گاہے جو صبح سے شام تک جاری رہتے، وہ ایک جملہ دہرایا کرتے "The water should boil on the right Temperature" پانی کو بالکل موزوں درجہ حرارت پر ابلتے رہنا چاہیے۔
اپنے گیارہ سالہ عرصہ اقتدار میں بھارت کو انہوں نے دیوار سے لگائے رکھا۔ ایک بڑی وجہ اگرچہ یہ تھی کہ افغانستان میں جاری جہاد کو اقوام متحدہ کے 122 ارکان کی تائید حاصل تھی۔ مگر ایٹمی پروگرام ؟ 1983ء میں جوپایۂ تکمیل کو پہنچا‘ ظاہر ہے کہ امریکہ بہادر پاکستان کے جوہری منصوبے کا مخالف تھا۔ دبائو برداشت کرتے‘ آئے دن دھمکیاں سنتے‘ انہوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان محفوظ ہے۔ بنیاد بھٹو نے رکھی تھی‘ پاکستانی سیاست اور تاریخ کا کوئی طالب علم‘ اس پر انہیں داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ مگر شعلہ گفتار تھے اور آخرکار اپنی ہی آگ میں جل بجھے۔ قتل ضیاء الحق بھی ہوئے اور شاید انکل سام ہی کے ہاتھوں‘ مگر اپنا وہ کام مکمل کر چکے تھے۔
فوجی آمریت کا کوئی جواز نہیں اور اس پر دلائل دینے کی ضرورت بھی نہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق بہرحال زیادہ جذباتی توازن کے امین تھے۔ آخری تجزیے میں ان کی کامیابیاں غیر معمولی ہیں۔ پاکستانی معیشت ان کے عہد میں زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم تھی۔ مہنگائی میں اضافہ برائے نام اور غربت مسلسل کم ہوتی رہی۔ تباہی تو بعد کے برسوں میں آئی‘ جمہوری نظام میں‘ حالانکہ اس میں اقتصادی حالت زیادہ بہتر ہونی چاہیے تھی۔
معیشت! قومی زندگی کا پہیہ معیشت کے گرد گھومتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو اصرار ہے کہ اقتصادی اعتبار سے‘ ملک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ 4.7 فیصد شرح نمو‘ جو اکثر آزاد ماہرین کی رائے میں دراصل 3.5 فیصد سے زیادہ نہیں۔ آٹھ برسوں میں قرضوں کا حجم 6000 کروڑ سے بڑھ کر 21000 کروڑ ہو گیا۔ تین سال کے اندر برآمدات 5 ارب ڈالر کم ہو گئی ہیں۔ سمندر پار سے ترسیل زر میں‘ برسوں سے جاری اضافہ تھم چکا اور روبہ زوال ہے۔ ہماری تمام امیدیں‘ تجارتی راہداری سے وابستہ ہیں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا اقوام دوسروں کے ٹکڑوں پر پلا کرتی ہیں‘ خود ہاتھ پیر ہلائے بغیر...دوسرا یہ کہ خدانخواستہ ایک محدود سی جنگ بھی ہو گئی تو سی پیک کے جاری رہنے کی ضمانت کون دے گا؟
بھارتی اشتعال دلا رہے ہیں؛ اگرچہ ''ہندو‘‘ اور ''انڈین ایکسپریس‘‘ سمیت بعض اخبارات‘ نریندر مودی کو مضمرات سے متنبہ کر رہے ہیں۔ ان پہ مگر پاکستان کو خجل کرنے کا بھوت سوار ہے اور بھارتی سرکار کے زیراثر میڈیا پر بھی۔ ٹی وی چینلوں میں ''وار روم‘‘ بنا دیئے گئے ہیں۔ مباحثوں کے دوران‘ پاکستانی شہروں پر میزائل برستے دکھائے جاتے ہیں۔ ممتاز معاشی تجزیہ نگار ضیاء الدین کے بقول‘ بھارت کا ہدف‘ پاکستانی معیشت کو کھنڈر کرنا ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر برآمدات ٹیکسٹائل‘ چمڑے اور آلات جراحی پر مشتمل ہیں۔ تینوں صنعتوں میں‘ دہلی حکومت اپنے کارخانہ داروں کی مدد کر رہی ہے۔ بعض کو زرتلافی ادا کرتی ہے کہ رفتہ رفتہ زرمبادلہ کے پاکستانی ذخائر سوکھ جائیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت عدم توازن کا شکار ہے۔ دو بلین ڈالر کے لین دین میں ہمارا حصہ صرف 500 ملین ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کا خسارہ...یہ خسارہ صرف ٹیکسٹائل سے پورا ہو سکتا ہے۔ کسی کو پروا ہو تو!...اور اگر نہیں ہو سکتا تو وقتی طور پر یہ تجارت محدود کیوں نہ کر دی جائے۔ وزیراعظم سے اُمید کم ہے۔ خدا خدا کر کے‘ وہ بھارتی سبزیوں کی درآمد روکنے پر آمادہ ہوئے۔ تین برس کے دوران‘ اس کے نتیجے میں سبزی اگانے والے 60 ہزار ایکڑ اجڑ گئے۔ جنگی جنون کا ایک ہدف بھی یہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تو کجا خود پاکستانی سرمایہ بھی ملک سے فرار ہو رہا ہے۔ گزشتہ تین برس کے دوران‘ صرف متحدہ عرب امارات میں‘ پاکستانیوں نے چار ارب ڈالر کی جائیداد خریدی۔کیا یہ شرمناک نہیں۔ کیا اس سے زیادہ شرمناک بات یہ نہیں کہ ملک کے مقتدر سیاست دان‘ اس نیک کام کی قیادت فرما رہے ہیں۔
پاکستان نے بھارت میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ بعض لیڈروں اور دانشوروں کو اس پہ اعتراض ہے۔ کانفرنس کے بائیکاٹ سے پاکستان کو کیا حاصل ہو گا۔ دنیا بھر کے لیے ہمارا پیغام تو یہ ہونا چاہیے کہ یہ ہم ہیں جو امن کے آرزومند ہیں اور یہ بھارت ہے جو جنگ پر تلا ہے۔ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان کوئی تصادم نہ چاہے گا۔ بھارت میں امریکی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار اس وقت سامنے نہیں۔ ساٹھ ستربلین ڈالر سے کیا کم ہو گی۔ برطانیہ‘ جاپان اور فرانس کی؟...ایران‘ چین اور افغانستان کیا امن کے خواہش مند نہ ہوں گے؟ باایں ہمہ‘ بھارتی رائے عامہ کو جس طرح مشتعل کر دیا گیا ہے۔ نریندر مودی نے اپنا سیاسی مستقبل‘ جس طرح پاکستان کو درماندہ کرنے کی کوششوں سے وابستہ کر لیا ہے‘ ایک محدود جنگ کے خطرے کو یکسر خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسے روکنا ہو گا اور دو طرح سے۔ خوف کے توازن اور ایک عالمگیر سفارتی مہم سے۔ سرحدوں پر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا رہے۔ بھارتی فوج کو اندیشہ رہے کہ اگر پاکستانی حدود میں وہ داخل ہوئی تو خطرناک ہتھیاروں کا نشانہ بن سکتی ہے۔ پاکستانی فوج اس وقت بہترین حالت میں ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کے ادوار میں پاک فوج کے تقریباً تمام دستے‘ جنگ کی بھٹی سے گزر کر صیقل ہو چکے۔ سرحدی چوکیوں پر جاری جھڑپوں میں سے وہ مزید تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔
اس محاذ پر ہم مضبوط ہیں‘ سفارتی پہ کمزور۔اکتوبر میں امریکہ کا رُخ کرنے والا پاکستانی وفد اپنا موقف واضح کرنے اور کسی حد تک منوانے میں کامیاب رہا‘ دوسرے ملکوں میں بھی یہی مشق کیوں نہ دہرائی جائے۔ یہ اگرچہ قبل ازوقت ہے اور محض ایک مفروضہ‘ قابل غور بہرحال ہے۔ اگر عمران خان لندن پہنچیں اور برطانوی وزیراعظم سے ملیں؟ برطانوی حکومت‘ پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ لندن کا میئر‘ ایک پاکستانی نژاد ہے‘ درجن بھر ارکان اس کے قومی ایوان میں ہیں‘ تجارت کا حجم قابل ذکر ہے۔ مزید یہ کہ برطانیہ اس خطے میں‘ ایک کردار کا ہمیشہ آرزومند رہتا ہے۔ 
جمعہ کو سینٹ میں بعض جذباتی تقریروں کے بعد مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر دفاع نے واضح کیا کہ پاکستان مذاکرات پہ اصرار کرے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ کشمیر کو الگ نہ رکھا جائے۔
ہوش مندی کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ بحرانوں میں اور بھی۔ وہی ملاح طوفان کے پار اترتے ہیں‘ اپنے حواس جو سلامت رکھتے ہیں۔صرف قوت بازو نہیں بلکہ ملاح کی دانش ہوتی ہے‘ جو اسے بھنور سے بچا لے جاتی ہے۔ کشتی رانی مشغلہ نہیں‘ زور آزمائی نہیں‘ ایک ہنر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں