عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی اور لاہور کا رند شاعر یاد آتا ہے ؎
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
یہ بھی کیا لازم ہے کہ ایک عامی کا اندازہ ہمیشہ غلط ہو۔ فرض کیجئے‘ میرا خیال درست ثابت ہو۔ آخر یہ تصور درست ہی نکلا تھا کہ عمران خان ایک دن بڑے لیڈر بن جائیں گے۔ مسلسل مذاق اڑانے کے باوجود 30 اکتوبر 2011ء کو سبھی نے یہ بات مان لی۔ ایک بات مجھے بھی ان کی ماننا پڑی کہ سیاست کی باریکیوں سے کپتان آشنا نہیں۔ کسی وقت بھی کسی بڑی غلطی کا ارتکاب... اور اس پہ ڈٹ سکتا ہے۔
قانون کا کوئی فہم نہ ہونے‘ قانون دانوں سے کسی طرح کی شناسائی کے بغیر‘ یہ اندازہ بھی تو آخر درست ہی نکلا کہ نعیم بخاری‘ حامد خان سے بہتر وکیل ثابت ہو سکتے ہیں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور اس دریا کے کئی دوسرے شناور حامد خان کو ہمالیہ سمجھتے تھے اور نعیم بخاری کو شملہ پہاڑی۔
انتہا تو یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کا مشورہ مان لیا‘ تقریب میں جسے پا کر ان کا موڈ بگڑ جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کرنے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ خیرخواہ ان کے کسی کام نہ آئے‘ جنہوں نے مشورہ دیا کہ ایک عدد پریس ریلیز جاری کر کے‘ ٹرمپ کو وہ اپنا مداح ثابت کریں۔ اتنی بار ان کے کھوٹے سکے پاکستانی عوام نے قبول کئے ہیں تو اب کیوں نہ کریں گے۔ کون جانتا ہے کہ کس کا تخمینہ کبھی سچا نکلے‘ کس کا جھوٹا۔
ماہرین ناقص نکلتے ہیں اور مبتدی کامران۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض سرے سے ماہرین نہ ہوں۔ ممکن ہے کہ عجلت کا وہ شکار ہوتے ہوں یا ان امراض کا‘ شب و روز میڈیا میں جن کا چرچا رہتا ہے۔
اس خیال کو محض اس لیے مسترد نہ کیجئے کہ اس کا پیش کرنے والا‘ راج نیتی کا کوئی تجربہ نہیں رکھتا۔ نندی پور کا منصوبہ‘ جہاندیدہ اور تجربہ کار میاں محمد شہباز شریف کی نگرانی میں پروان چڑھا۔ ہتھیلی پر جو سرسوں جما سکتے ہیں۔ خود خادم پنجاب کے بقول‘ چین والے انہیں معجزے برپا کرنے والا لیڈر سمجھتے ہیں۔ ایک سال کا کام ایک مہینے‘ ایک مہینے کا ایک ہفتے‘ ایک ہفتے کا ایک دن اور ایک دن کا ایک گھنٹے میں کر سکتے ہیں۔ نندی پور کو اپنا ''بے بی‘‘ انہوں نے قرار دیا تھا۔ خواجہ آصف سے وہ ناراض تھے کہ ان کے خاندانی کاروبار یعنی مملکت پاکستان کے کاروبار حکومت میں در کیوں آئے ہیں۔ در آئے ہیں تو احکامات کی مودبانہ تعمیل کی بجائے‘ اپنے بھیجے سے کام لینے پہ مصر کیوں ہیں۔ آخر کو کیا ہوا؟ پنجابی کی ضرب المثل یہ ہے: نہانا‘ دھونا کام کسی نہ آیا‘ اوپر مکھیاں آ بیٹھیں۔ دعوے کئے‘ ڈنکے بجائے‘ ڈھول پیٹے‘ تمغے تک بانٹ دیئے۔ آخر کو پتا چلا کہ ہر طرح سے نک سک سے درست یہ کارخانہ‘ ہر لحاظ سے شاندار ہے۔ بس یہ بجلی پیدا نہیں کر سکتا۔ بجلی اسی طرح پیدا ہو گی‘ جیسے خواجہ آصف نے بتایا تھا۔
کاروبارِ حکومت میں نواز شریف ناکام کیوں رہے۔ آصف علی زرداری کیوں ناکام رہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کیوں دھتکارے گئے؟ فلسفے بہت پیچیدہ ہیں۔ بات سیدھی سادی ہے۔ خیرخواہوں کی‘ صاف صاف کہنے والوں کی سنتے وہ نہیں تھے۔ اپنی عقل پہ انہیں ناز تھا۔ ناز جنہیں ہوتا ہے‘ ناکام وہ رہتے ہیں۔ کامیابی ان کے لیے ہوتی ہے‘ سیکھنے پر‘ اپنی غلطیوں کو مان لینے پہ جو تیار رہتے ہیں۔
یہ ایک اخبار نویس کا خیال ہے۔ لازم نہیں کہ درست ہو۔ یہ بھی مگر لازم نہیں کہ غلط ہی ٹھہرے۔ اس سے پہلے مگر ایک سوال۔ پاکستانی معیشت میں کراچی کا حصہ کتنا ہے۔ اعداد و شمار مہیا نہیں۔ فرض کیجئے کہ صنعت‘ خدمات‘ برآمدات اور دوسرے تمام شعبوں کو ملا کر بیس فیصد۔
فرض کیجئے یہ اندازہ درست ہے۔ اب ایک اور سوال ہے: اگر اس قدر خوف‘ اس قدر خوں ریزی‘ اس قدر خدشات اور اس قدر اندیشوں میں الجھا‘ گھبرایا اور پریشان حال یہ شہر‘ قومی معیشت میں بیس فیصد حصہ ڈال سکتا ہے‘ تو آسیب سے رہائی کے بعد کس قدر۔ فرض کیجئے اور یہ کوئی ایسا غلط مفروضہ نہیں کہ بہترین منصوبہ بندی‘ نجی سرمایہ کاری اور حکومت کی توجہ کے نتیجے میں‘ بجلی کی پیداوار ایک برس میں پندرہ بیس فیصد بڑھ جائے؟ چلیے نہ بڑھے‘ اسراف نہ ہو‘ رائیگاں نہ ہو۔
دس فیصد زائد بجلی اور پورے شہر میں مکمل طور پہ امن و امان۔ کیا یہ ممکن ہے کہ شہر کی پیداواری صلاحیت میں دس فیصد اضافہ ہو جائے۔ ہونا تو زیادہ چاہیے کہ خوف زدہ مزدور‘ منیجر اور مالک کی استعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ پندرہ بیس فیصد ہونا چاہیے‘ چلیے دس فیصد ہی سہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پورے ملک کی کل قومی پیداوار میں دو فیصد۔ دو فیصد کا مطلب سمجھتے ہیں آپ؟ صدر زرداری کے پورے پانچ سالہ دور میں‘ سالانہ پیداوار میں یہ کل سالانہ اضافہ ہوا کرتا۔ اب یہ 3.5 فیصد ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی لغت میں اسی کو 4.5 فیصد کہتے ہیں۔ ان کے اخباری ڈھنڈورچی اسے چھ سات فیصد ثابت کر سکتے ہیں۔ افسوس کہ اس میدان میں ان کی خدمات سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا گیا۔ جو لوگ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا کی پیش گوئیاں‘ غلط ثابت کر کے‘ امریکہ کے صدارتی الیکشن جیتنے والا ڈونلڈ ٹرمپ‘ نواز شریف کا ایک ادنیٰ مداح ہے۔ ان کے لیے یہ کیا مشکل ہوتا۔
امن و امان سے‘ منصوبہ بندی سے‘ دو فیصد سالانہ اضافہ اگر کراچی کی آمدن میں ممکن ہے۔ مجھے تو بہرحال یہ ممکن دکھائی دیا تو فیصل آباد میں کیوں نہیں؟ گزشتہ تین برس کے دوران‘ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں تین بلین ڈالر کمی آئی ہے۔ اب ایک اور بحران کا سامنا ہے۔ سوئی گیس کی بجائے اب صنعت کاروں سے تقاضا یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ گنا مہنگی ایل این جی گیس خریدیں۔ مہنگی تو ہو گی۔ عالمی منڈی میں 4.25 ڈالر فی یونٹ مہیا ہے۔ پاکستان نے 6.65 ڈالر کے حساب سے خریدی ہے۔ کیوں خریدی‘ طلال چوہدری‘ دانیال عزیز اور زبیر صاحب سے پوچھیے تو اعداد و شمار کے پہاڑ وہ کھڑے کر دیں گے۔ کھڑے کیوں کریں گے‘ آپ کے سر پہ رکھ دیں گے۔ آپ گھبرا اٹھیں گے۔ ہاتھ جوڑ دیں گے کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں جناب والا!
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان‘ شریف خاندان کے سرپرست جنرل محمد ضیا الحق اور شہباز شریف کے بقول‘ ملک کو برباد کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں‘ سالانہ شرح نمو اوسطاً سات فیصد رہی۔ فوجی آمروں اور ظالم حکمرانوں کے ادوار میں۔ جمہوریت کے عاشق سیاست دان جن کے خلاف تحریکیں چلاتے‘ اور عوام جنہیں غاصب سمجھتے۔ پُرجوش عوامی تائید و حمایت کے حامل جمہوری لیڈروں کو ان سے بہتر ہونا چاہیے۔ ان سے بڑے کارنامے انجام دینے چاہئیں۔ ساری دنیا میں‘ ترکی میں‘ ملائیشیا میں‘ چین میں یہی ہوا۔ عوام کے منتخب رہنمائوں نے معاشی معجزے کر دکھائے۔ گستاخی معاف‘ ہماری سیاست میں کوئی خرابی تو ہے کہ جیسے ہی جمہوریت کی گاڑی رواں ہوتی ہے‘ سفر کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ بے روز گاری بڑھنے لگتی ہے‘ مہنگائی‘ افراط زر اور غیر ملکی قرضے بھی۔
عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی اور لاہور کا رند شاعر یاد آتا ہے ؎
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے