آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں۔ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ آدمی جیتے رہتے ہیں‘ احساس رخصت ہو جاتا ہے، رچائو اور گداز روحوں سے رخصت ہوتے ہیں۔ اقبالؔ کو بھلا دیا جاتا ہے ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اخبار نویس کو حیرت ہے کہ وزیراعظم کی خواہش پر‘ ان کی رہائش گاہ پر 8212 فٹ کی مزید تعمیرات کے لیے مقرر کردہ اخراجات میں اچانک 162 فیصد اضافہ کیسے ہو گیا۔ سرکاری افسروں کی بجائے‘ جو مجاز ہیں‘ جناب احسن اقبال نے ذاتی طور پر منظوری عطا کی ہے۔ اپنے حکم میں انہوں نے لکھا ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر اعتراضات اٹھانے کی بجائے‘ ان تجاویز کو قبول کر لینا چاہیے۔ دراصل یہ تجاویز کس کی پیش کردہ ہیں؟ وفاقی وزیر نے لکھا ہے کہ پہلے سے بنایا گیا منصوبہ‘ ناقص اور ناقابل اعتبار تھا۔ کوئی دلیل انہوں نے پیش نہیں کی کہ کیونکر وہ اسے ادھورا کہتے ہیں۔
احسن اقبال کے صاحبزادے ضلع کونسل نارووال کے چیئرمین چن لیے گئے ہیں۔ حکمران پارٹی کا اعلان یہ تھا کہ وفاقی وزرائ‘ قومی و صوبائی ارکانِ اسمبلی اپنے رشتہ داروں کو یہ مناصب سونپے نہیں جائیں گے۔
تعمیر پر آنے والے اخراجات 3865 روپے فی فٹ کی بجائے‘ اب 6313 روپے ہو گئے۔ ایک سال کے اندر ایسی کیا آفت آئی ہے کہ دوگنا قیمت ادا کی جائے۔ جمعہ کے اخبارات میں‘ وزیر اعظم کا دعویٰ جگمگایا تھا: اشیاء کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔
وزیر اعظم کے گھر میں ایک عدد کانفرنس ہال اور چھ مزید دفاتر تعمیر کئے جائیں گے۔ کس لیے؟ کانفرنس ہال کی ضرورت کیوں پڑی۔ قریب ہی وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ایسے کئی ہال موجود ہیں۔ ایک توجیہ البتہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا بیشتر وقت یہیں گزرتا ہے۔ یہیں کیوں گزرتا ہے؟ لگ بھگ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیکرٹریٹ میں وہ کیوں تشریف نہیں لے جاتے؟ وزرائِ اعظم ضروری اجلاس وہیں منعقد کیا کرتے۔ خیر‘ یہ عامی تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں بھی تشریف لے جایا کرتے‘ جن سے قائدِ اعظم ثانی کو پرہیز بتایا گیا ہے۔
کمروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ‘ وزیر اعظم کے خاندان کے لیے ایک الگ اضافی دروازہ تعمیر کیا جائے گا۔ 50 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ اس اضافی دروازے کی ضرورت کیا ہے؟ حکام اور دستاویزات اس پر خاموش ہیں۔ پھر یہ کہ اس دروازے میں ایسی کون سی خصوصیات ہوں گی کہ خطیر رقم لٹا دی جائے۔
عمارت کے لیے منظور شدہ چین سے درآمد کی جانے والی لفٹ کی بجائے‘ اب کسی مغربی ملک سے ایک نئی نکور لفٹ درآمد کی جائے گی۔ اس پر ایک کروڑ 2 لاکھ کے اضافی اخراجات ہوں گے۔ قومی منصوبوں کے لیے چینی مصنوعات کو ترجیح دینے والے وزیر اعظم کو اپنی عارضی قیام گاہ پر‘ دوست ملک کی بنی ہوئی لفٹ کیوں گوارا نہیں؟
پرانے طرز کے ایئرکنڈیشنرز پسندیدہ نہیں؛ چنانچہ نئے اور جدید ترین ایئرکنڈیشنرز کی منظوری دی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ فرسودہ قسم کے یہ آلات شور پیدا کرتے ہیں۔ کیا کسی ایئرکنڈیشنر کا شور اس قدر شدید ہوتا ہے کہ دور اپنے کمرے میں بیٹھے‘ وزیر اعظم کی طبعِ نازک پہ گراں گزرے۔ یکسوئی سے اپنے فرائض انجام نہ دے سکیں؟
ان تعمیرات کے لیے سرمایہ کہاں سے فراہم ہو گا؟ اسحق ڈار کی وزارت خزانہ خاص طور پر ان کی منظوری دے گی یا منصوبہ بندی کی وزارت دوسرے منصوبوں کا سرمایہ منتقل کر دے گی۔ اگر لاہور کی میٹرو کے لیے قبرستانوں تک کی مختص رقوم صرف کی جا سکتی ہیں تو یہاں کیوں نہیں؟
ملک بھر میں کچھ اور عمارتیں بھی ہیں جو نامکمل اور ناکارہ پڑی ہیں۔ کیا وزیر اعظم نے کبھی ان کے بارے میں سوچا ہو گا؟ مثال کے طور پر وزیرآباد میں تعمیر کردہ امراض قلب کا ہسپتال‘ جہلم سے گوجرانوالہ تک کے کروڑوں کی آبادی‘ جس کی تکمیل کے انتظار میں ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے اور سب سے قدیم میو ہسپتال میں تعمیر کردہ سرجیکل ٹاور کے علاوہ‘ لاہور ہی کا وہ ڈینٹل ہسپتال‘ جس کی عمارت مکمل ہو چکی۔ پنجاب کے وزیر صحت سلمان رفیق کا جواب یہ ہے کہ عمارتیں بنانے سے کیا ہوتا ہے۔ عملے پر بھی تو اخراجات اٹھتے ہیں۔ موصوف نے بتایا نہیں یہ عملہ کیوں مقرر نہیں کیا جا سکتا ؟ عمارتوں پر صرف ہونے والے اربوں روپے کیا برباد ہو جائیں گے؟ ملک بھر میں ایسی تقریباً ایک درجن عمارتیں حکمرانوں کی راہ تک رہی ہیں؟ اس ملک کے مکینوں اور ان کی امیدوں کی طرح کیا وہ اجڑی ہی رہیں گی؟
لاہور کا بابِ پاکستان اس کی بہترین یا شاید بدترین مثال ہے۔ والٹن روڈ پر آٹھ سو کنال پر پھیلا ہوا یہ میدان‘ 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان پہنچنے والوں کی اولین پناہ گاہ تھا۔ قائد اعظم اس کیمپ میں تشریف لائے تھے۔ دیکھنے والوں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ وہ لٹے پٹے‘ خستہ حال اور درماندہ تھے۔ اپنے گھر بار‘ مال مویشی اور زرعی زمینیں وہ چھوڑ آئے تھے‘ حتیٰ کہ اپنے پیاروں کی لاشیں بھی۔ اس کے باوجود پاکستان ان کے لیے ایسی جنت تھا کہ ملک کے بانی کو سامنے پا کر‘ ایک والہانہ پن کے ساتھ انہوں نے ''قائد اعظمؒ زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس خیال کے ساتھ مہاجرین سے ملنے وہ تشریف لے گئے تھے کہ انہیں اعتراضات اور سوالات بلکہ ممکن ہے کہ احتجاج کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے‘ جو اپنے درد کی حکایت بیان کرتے اور اپنے محسوسات کو علم بناتے ہیں‘ وگرنہ ممکن ہے کہ ایک دلگداز داستان باقی رہتی۔ منفرد ادیب ممتاز مفتی کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے والٹن کیمپ کی روداد لکھی ہے‘ مگر قائد اعظمؒ کے قلب و نظر کی کہانی کبھی رقم نہ کی جا سکی۔ وہ ان چیزوں سے کس قدر بلند و بالا تھے۔
باب پاکستان کا خواب‘ تحریک پاکستان کے کارکن‘ وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کے دور میں دیکھا گیا۔ اس کے لیے فنِ تعمیر کے ماہرین میں ایک مقابلہ منعقد کرایا گیا۔ یہ مقابلہ لاہور کے امجد مختار نے جیت لیا۔ عمارت کی تشکیل انہوں نے اس طرح کی کہ مرکزی دروازے سے داخل ہونے والے کی پہلی نگاہ ‘اس پہ پڑے تو اسے ''لاالہ الا اللہ‘‘ لکھا نظر آئے۔ یہ صرف کمروں اور برآمدوں کا تاثر نہ ہوتا بلکہ 164 فٹ تک بلند ہوتے ستون تصویر کو اجاگر کرتے۔ کیا عجب ہے کہ تعمیر ساز کے ذہن میں سپین کی مسجد کا تصور رہا ہو‘ جس کے ستون اقبال کو کھجور کے درخت دکھائی دیئے تھے ع
شام کے صحرا میں جیسے ہجومِ نخیل
پھر یہ ارشاد کیا تھا کہ کائنات میں اس کی کوئی دوسری نظیر‘ قلبِ مومن کے سوا اورکہیں نہیں ہو سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے تاثر‘ فنی کمال‘ حسن بیاں اور دلآویزی میں مسجد قرطبہ پر لکھی گئی نظم‘ اتنا ہی عظیم کارنامہ ہے‘ جتنی کہ یہ خیرہ کن تعمیر۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے‘ عبادت گاہ کی طرح‘ شاعر کی یاد اور گونج باقی رہے گی۔
اس عمارت میں کانفرنس ہال‘ میوزیم‘ نمائش گاہ کے علاوہ وسیع و عریض ایک سبزہ زار بھی طے ہوا تھا۔ لاہور کے شالیمار باغ کی طرح‘ وسیع و عریض اور اسی کی طرح کئی تختوں پر مشتمل غلامی کا عہد‘ جدوجہد کا دور اور وہ دن جب آزادی کا آفتاب طلوع ہوا۔ کسی اور زمانے کا خواب!
2006ء میں ماہر تعمیر نے کسی نہ کسی طرح ‘جنرل پرویز مشرف تک رسائی حاصل کر لی تو تعمیر کا آغاز ہوا۔ اڑھائی ارب روپے کا منصوبہ ہے، ڈیڑھ ارب صرف ہو چکے۔ 60 فیصد ڈھانچہ مکمل ہے۔ شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اس پر کام روک دیا گیا اور اب تک رکا پڑا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے ایک اخبار نویس کو بتایا: خادم پنجاب یہ کہتے ہیں کہ یہ غریب ملک ایسے منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم نہیں کر سکتا۔۔۔۔ایوان وزیر اعظم کی وسعت و کشادگی کے لیے کر سکتا ہے؟
آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں۔ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ آدمی جیتے رہتے ہیں‘ احساس رخصت ہو جاتا ہے، رچائو اور گداز روحوں سے رخصت ہوتے ہیں۔ اقبالؔ کو بھلا دیا جاتا ہے ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا