امید یہ ہے کہ شاندار فیصلے سامنے آئیں گے‘ شاید جو حسن عبارت کا نمونہ بھی ہوں۔ دلائل سے استوار‘ عدل کے بانکپن اور طرح داری کا نمونہ۔ عدل کی شمشیر‘ گاہے‘ بہترین تلوار سے زیادہ آبدار ہوتی ہے۔ وہی ظلم کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔
ملک کے مستقبل کا انحصار‘ عدل کے قیام اور قرار پر ہے۔ اگر ایسا ہو سکا اور اس کی امید ہے تو ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ مراد صرف وزیراعظم نوازشریف کے مقدمے سے نہیں؛ اگرچہ وہ سب سے زیادہ اہم ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق پہ الزام ہے کہ 12 مئی کے قتل عام کی منصوبہ بندی میں شریک تھے۔ لیڈران کرام کی اس مجلس میں موجود، مبینہ طور پر جسے حکم دیا گیا کہ قتل عام کرو یا کچھ بھی‘ چیف جسٹس کو کراچی کی شاہراہوں پر دکھائی نہ دینا چاہیے۔
نئے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ججوں کا اب جو پینل تشکیل دیا ہے‘ غیر جانبدار لوگوں کو اس پر اطمینان ہے۔ اتفاق سے تین صوبوں کی اس میں نمائندگی ہے۔ ایک اعتبار سے بجائے خود یہ خوش بختی ہے۔ عدالتوں‘ خاص طور پر اعلیٰ عدالتوں میں‘ اس چیز کی کوئی اہمیت نہ ہونی چاہیے۔ ملک جن حالات اور جس تقسیم سے گزر رہا ہے‘ اس میں بہرحال یہ ایک مثبت پہلو ہے۔
بنچ میں شامل تین جج وہی ہیں‘ جو پہلے سے سماعت کر رہے تھے۔ اگرچہ حکم یہ دیا گیا کہ معاملے کی ازسر نو سماعت ہو گی۔ ہفتوں تک انہوں نے اس پر غور کیا اور دماغ سوزی کی عبادت سے گزرے ہیں۔ سنا ہوا بھلا نہیں دیا جاتا۔ سوچ بچار سے فکر و نظر کے جو موتی ڈھلتے ہیں‘ وقت گزرنے کے ساتھ وہ کنکر نہیں بن جاتے۔ انسانی ذہن کی تشکیل قدرت نے اس طرح کی ہے کہ ادراک کے عمل سے آفاق روشن ہوتے اور طرزِ احساس کا سلسلہ استوار ہو جاتا ہے۔ ارادہ اگر سعید ہو جو اطوار و انداز میں جھلکتا رہا‘ تو وہ بے کنار صحرائوں اور سمندروں میں بھی سمت کے تعین میں مددگار ہوتا ہے۔
حیوان کے مقابلے میں آدمی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ عقل کی امانت اسے سونپی گئی۔ صراط مستقیم پر ہو تو اسے راہ دکھاتی ہے۔ صداقت کے طلب گار پہ قدرت چراغ جلا دیتی ہے۔ اس میں وجدان کا نور اگاتی ہے۔ اس کی حفاظت کرتی اور سرخروئی سے ہمکنار کرتی ہے۔ کتاب سوال کرتی ہے کہ آدمی کیا عزّ و شرف کا آرزومند ہے‘ پھر اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ تمام کی تمام عزت اللہ کے لیے ہے۔
ازل سے وسوسہ آدمی کا ہم رکاب ہے۔ حکم اس باب میں یہ ہے کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ جو کچھ وہ کہے‘ اس کے خلاف کرنا چاہیے۔ نفسیات کے ماہرین نے اس بات کو مان لیا ہے۔ بلندی سے گزرنے کا خوف اگر کسی جان کو لاحق ہو تو رفعت پر کچھ دیر‘ قرار سے کھڑے رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی اکثریت وساوس اور اندیشہ ہائے دور دراز کے جہان آباد رکھتی ہے۔ کامران وہ ہوتے ہیں‘ جو دھند کے پار اتر جاتے ہیں۔ پگڈنڈیوں اور ٹیڑھی میڑھی راہوں کی بجائے‘ کشادہ اور کھلی شاہراہوں کا جو انتخاب کرتے ہیں۔ ناکام و نامراد‘ پسپا اور ناکردہ لوگوں کی اکثریت اور بامراد انسانوں میں غالباً یہی سب سے بڑا امتیاز ہے۔ جو سہارے ڈھونڈتے ہیں خود فریبی کا شکار بھی وہی ہوتے ہیں۔ کمتر بناتے اور پامال کرتے ہوئے‘ زندگی ان کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔
پختونخوا سے جس معزز جج کو بنچ کا حصہ بنایا گیا، اخبارات میں ذکر ہے کہ شہرت ان کی بھی اچھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ معاملہ فہم اور بات کے اور چھور پر سوچ بچار کرنے کے عادی ہیں۔ نیک شہرت آسانی سے عطا نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے ریاضت اور احتیاط کے مہ و سال ہوتے ہیں۔ گزری ہوئی زندگی‘ کہ آدمی کو بدگمانی اور شک سے دیکھا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے خود کو الگ رکھنے کا جو فیصلہ کیا‘ وہ احتیاط اور سلیقہ مندی کا مظہر ہے۔ ان افواہوں کا جواب‘ جو ان کے بارے میں پھیلائی گئیں۔ اس کے باوجود کہ عدل کا پرچم سرفراز رکھنے کا اعلانیہ طور پر‘ انہوں نے پیمان کیا تھا۔ بنچ کی تشکیل بجائے خود اسی عزم کا اظہار ہے۔ ہجومِ خلق میں جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اپنی قبر اسے یاد ہے‘ جس میں بالآخر آدمی جا سوتا ہے تو بدگمانی کا جواز دم توڑنے لگتا ہے۔ اگر کسی کا اندازِ فکر تعصب و نفرت میں گندھا ہو‘ اس کی بات دوسری ہے۔
ناچیز کی رائے تو یہی ہے کہ مقدمے کے صغریٰ و کبریٰ پر کھلی بحث کی اجازت نہ دینی چاہیے تھی۔ عدالت کے باہر وکلا اور لیڈروں کو اور نہ ٹی وی پر دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور زخموں کی تجارت کے آرزومندوں کو۔ گاہے مگر شر سے بھی خیر برآمد ہوتا ہے۔ اس کا بھی ایک فائدہ ہوا کہ دونوں طرف سے یکساں دبائو نے جنم لیا۔ دونوں سے آزاد اور بے نیاز‘ عدالت بھی اب کھرا حکم صادر کرنے کے لیے آزاد ہے۔
سیاسی لیڈروں اور نام نہاد بعض دانشوروں نے المناک کردار ادا کیا ہے۔ کہتے ہوئے کراہت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ نے تو چھچھورے پن کا۔ اتنی سادہ سی بات بھی لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ صاحبِ معاملہ جج نہیں ہوتا۔ حکومت اور عدالت کی ضرورت ہی آدمی کو اس لیے پڑی کہ گروہوں میں بٹ کر آدمی وحشت پہ اتر آتا ہے۔ اگر ایک یا دوسرے فریق ہی کو فیصلہ صادر کرنا ہے تو نظامِ عدل کی ضرورت ہی کیا تھی؟
بالکل یہ طے نہیں پایا کہ وزیراعظم قصور وار ہیں۔ یہ فرمان ایک طرح کی جہالت ہے کہ عدالت عظمیٰ ان کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کرتی تو وہ ذمہ دار ہو گی۔ اسی طرح جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کا کوئی تعلق ہی اس معاملے سے نہیں‘ ایسی ایک بات وہ کہتے ہیں‘ جس کا ہرگز کوئی حق انہیں حاصل نہیں۔ عدالت کو فیصلہ صادر کرنا ہے کہ کیا یہ وزیراعظم کی دولت ہے یا ان کے بچوں کی۔ ان کے دادا کی یا والد گرامی کی۔ قانونی طریق سے منتقل کی گئی اور اس پر ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں۔ جو لوگ ایک یا دوسرے موقف کے حتمی طور پر درست ہونے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں، ایک چمکتے ہوئے آفتاب ایسے ''حق‘‘ کا‘ وہ اس ملک اور معاشرے کے دشمن ہیں اور خود اپنے بھی۔ قوم کے قرار‘ استحکام اور مستقبل ‘ سبھی کے۔
اس لمحے تک اپوزیشن کو ایجی ٹیشن کا حق تھا‘ جب تک ہاتھ بڑھا کر عدالت نے اسے اپنے دامن میں لے نہ لیا۔ درباریوں کے لیے اسی ساعت تک وکالت کا جواز تھا‘ جب تک دلائل سے مسلح ان کے وکیل‘ میدان میں نہ اتر آئے۔ اب وہ کیوں چیخ رہے ہیں؟ اپنے کھوکھلے پن‘ اپنے اندر چھپے خوف اور انتقام کی آرزو کے سوا‘ واویلا کرنے والے کیا کر رہے ہیں؟
معاشرے عدل پہ جیتے ہیں‘ صرف اسی پر۔ یہ قصاص کا عمل ہر بار اقوام کو نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ جس معاشرے میں طاقتور سزا سے بچ نکلیں‘ اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ شور مچانے والا ہجوم بھی حکمران کی طرح طاقتور ہوتا ہے۔ اسے بھی لگام ڈالنی چاہیے۔ گاہے وہ بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ پاگل ہو جانے والے ہجوموں کے لیے نہیں‘ عدالتیں انصاف کے خواہاں اور منتظر معاشروں کے لیے ہوتی ہیں۔
تبصرہ کیا جا سکتا ہے مگر فیصلہ سامنے آنے کے بعد۔ وہ بھی منہ سے جھاگ چھوڑتے ہوئے ہرگز نہیں۔ قانون کی حدود میں احتیاط اور شائستگی کے ساتھ۔
فاروق ستار کے باب میں مضمون واحد ہے۔ خوف زدہ اب وہ کر نہیں سکتے۔ کہرام برپا نہیں کر سکتے۔ عشروں تک ان لوگوں نے بے جان مہروں کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے ساتھ بھی مگر ناانصافی نہ ہونی چاہیے۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ خون کو پانی سے دھویا جا سکتا ہے‘ خون سے نہیں۔ یہ ثابت کرنا ہو گا کہ واقعی وہ ملوث تھے...اور یہ فیصلہ سوشل میڈیا نہیں‘ معزز عدالت کرے گی۔
امید یہ ہے کہ شاندار فیصلے سامنے آئیں گے‘ شاید جو حسنِ عبارت کا نمونہ بھی ہوں۔ دلائل سے استوار‘ عدل کے بانکپن اور طرح داری کا نمونہ۔ عدل کی شمشیر‘ گاہے‘ بہترین تلوار سے زیادہ آبدار ہوتی ہے۔ وہی ظلم کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔