ان کی بقا‘ ان کی حیات‘ ان کے مفادات زر و ظلم کے جس نظام سے وابستہ ہیں، وہی اس کے محافظ ہیں‘ جن سے ہم امید باندھتے اور بھاڑے کے ٹٹو‘ جن کی وکالت کرتے ہیں ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کو وہ پسند نہیں کرتے۔ اسی سانس میں مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ عدالتیں نہ ہوتیں تو صفورا کیس اور سبین محمود کے قاتلوں کو سزا نہ مل سکتی۔
فوجی عدالتوں کو کون پسند کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں۔ لوگ عدل چاہتے ہیں۔ وہ لاکھوں خاندان جو ہر روز عدالتوں میں خوار ہوتے اور آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ نجات کا سورج کب طلوع ہو گا؟ شاید کروڑوں‘ جو تھانے اور کچہری کے تصور ہی سے خوف زدہ رہتے اور خون کے گھونٹ پی کر زندہ ہیں۔ زندہ کیا ہیں‘ اس عجیب و غریب شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا: یہ جینے کی نقل ہے۔ ایک ریڈ انڈین قبیلے کے سردار چیف سیٹل نے انیسویں صدی کے وسط میں‘ امریکی صدر کے نام خط میں لکھا تھا: زندگی نہیں‘ یہ تو محض جینا ہے۔
وزارت داخلہ کی الماریاں ان رپوٹوں سے بھری پڑی ہیں‘ جن میں اصلاحی اقدامات تجویزکئے گئے ہیں۔ عدالتوں کا حال بھی یہی ہے۔کتنی ہی دستاویزات گرد میں اٹ گئیں۔ پولیس اور عدالت کی بہتری کے لیے کوئی ایک قدم بھی کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟
اس سوال کا جواب واضح ہے: حکمران طبقے کو یہ سازگار نہیں۔ 1861ء کا پولیس آرڈر ہی اسے گوارا ہے‘ غیر ملکی حکمرانوں نے جو مقامی آبادی کو ہراساں اور خوف زدہ رکھنے کے لیے مسلط کیا تھا۔ 2002ء کا پولیس آرڈر نہایت عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا گیا۔ ہفتوں نہیں‘ مہینوں تک ملک کے بہترین دماغوں نے اس پہ ریاضت کی۔ اگر یہ دنیا کا بہترین قانون نہیں تو ان میں سے ایک ضرور تھا۔ صوبائی حکومتوں کو اس کا مسودہ بھیجا گیا تو وہ پریشان ہوگئیں۔ 2002ء کے انتخابات سر پہ کھڑے تھے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے جنرل پرویز مشرف سے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر انتخاب میں کامیابی مقصود ہے تو اس کے بعض حصوں کو اٹھا رکھا جائے۔ آج تک ان نکات کو دن کی روشنی نصیب نہیں ہو سکی۔ خاص طور پر ان نگران کمیٹیوں، اعلیٰ اور نچلی سطح پر اپوزیشن کے ارکان اسمبلی‘ بلدیاتی نمائندوں اور غیر متنازعہ شہری معززین کو‘جن میں شامل و شریک ہونا تھا۔
سپریم کورٹ کی پیہم کوششوں کے باوجود‘ اڑھائی برس کے بعد بلدیاتی الیکشن ہوئے۔کونسلر اور یونین کونسلوں کے چیئرمین پڑے سوکھتے رہے۔ سال بھر ضلع کونسلوں اور شہری ناظموں کا انتخاب نہ ہو سکا۔ ہر وہ اختیار چھین کر‘ جو چھینا جا سکتا تھا‘ اب اجازت مرحمت ہوئی۔ مزید تاخیر ممکن نہ تھی۔ پنجاب کی حکومت‘ خاص طور پر 2018ء کے الیکشن میں ورنہ طوفان کو دعوت دیتی۔ قابلِ قبول لیڈروںکو مناصب سے اگر محروم رکھا جاتا۔
بلدیاتی اداروں نے کیا محیر العقول کارنامے انجام نہیں دیے۔ چار سال میں نعمت اللہ خان کراچی کا ترقیاتی بجٹ2 ارب سے بڑھا کر چالیس ارب تک لے گئے۔ اس کے باوجود کہ وہ ایک بوڑھے آدمی تھے۔ اس کے باوجود کہ اتوار کا پورا دن تھر کے ایک ریگ زار میں گزارا کرتے‘ جہاں درجنوں کنویں انہوں نے کھودے۔ مصطفی کمال اس کے باوجود‘ تعمیر و ترقی کے اس سفر کو تیز رکھنے میں کامیاب رہے کہ ایم کیو ایم کے نمائندہ تھے۔ پائوں میں زنجیریں تھیں۔ الطاف حسین سر پہ سوار۔ لوٹ مار سے ان کے لوگ باز نہ آتے۔ فاروق ستار اور عشرت العباد ایسے لوگوں کو انہیں ساتھ لے کر چلنا پڑتا تھا۔ عشرت العباد‘ جن کے بارے میں عرض کیا تھا کہ شاید عمر بھر اب وہ دبئی میں مقیم رہیں۔ کراچی کے ساحل کا کھلے عام نظارہ کبھی نہ کر سکیں۔ صاحبزادی کی شادی میں پیپلز پارٹی سمیت‘ بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور کئی ارب پتی کیوں شریک ہوئے؟ یہ جرائم پیشہ لوگوں کا اتحاد ہے۔
پولیس‘ نوکر شاہی‘ عدالتوں اور بلدیاتی اداروں کو قانون کے دائرے میں بروئے کار آنے کی آزادی کیوں نہیں۔ سندھ حکومت اس کے باوجود بلدیہ کراچی کو اختیار کیوں نہیں سونپتی کہ کوڑے کے ڈھیر‘ ہر روز ٹی وی سکرینوں پر دکھائے جاتے ہیں۔ اس کی بھد اڑتی ہے‘ مذاق اڑایا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ پنجاب کے ایک سابق چیف سیکرٹری‘ عالمی بینک میں تعینات ہو چکے‘ تو رسمی الوداعی ملاقات کے لیے وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ گفتگو تمام ہونے پہ آئی تو کہا کہ ایک آخری بات وہ کہنا چاہتے ہیں۔
راوی کے بقول وزیر اعظم نے کہا کہ براہ کرم وہ فواد حسن فواد کے بارے میں بات نہ کریں۔ فواد صاحب کا تو معلوم نہیں‘ مگر وزیر اعظم کے اردگرد تین چار لوگ ڈان لیکس میں ملوث ہیں۔ عسکری ذرائع ہی نہیں‘ وزارت داخلہ کے اعلیٰ ترین حکام بھی تصدیق کرتے ہیں۔ اکثر نام بھی معلوم ہیں‘ لکھنا فی الحال نہیں چاہتا۔ اخبار ملوث ہے‘ اس کا رپورٹر اور ایک ایڈیٹر بھی۔ منت سماجت کی جا رہی ہے‘ ہاتھ جوڑے جا رہے ہیں‘ تاویلات کی جا رہی ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کا ارادہ کچھ اور تھا۔ اس کا انہوں نے اظہار بھی کر دیا تھا۔ تین چار دن کے اندر فیصلہ صادر کرنے کا۔ قطعاً کوئی شبہ انہیں اس میں نہ تھا کہ تین سرکاری شخصیات ذمہ دار ہیں۔ سب کی سب وزیر اعظم کی منتخب کردہ۔ معاملہ پھر معلق کیوں ہوتا چلا گیا۔
اس سوال کے جواب ہی میں وہ راز پوشیدہ ہے‘ جو کوئی راز بھی نہیں۔ اخبارات جس سے کچھ زیادہ بحث کرتے ہیں اور نہ سیاستدان۔ ہر کہیں سینئرکی جگہ جونیئر اور قاعدے قانون کی پابندی کا رجحان رکھنے والوں کی بجائے‘ اشارہ ابرو پہ حرکت میں آنے والے افسر ہی کیوں تعینات کیے جاتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے برعکس‘ بنیادی طور پر جہاں کابینہ ذمہ دار ہوتی ہے‘ بری فوج کا نظام مختلف ہے۔ تمام اہم فیصلے سپہ سالار کو کرنا ہوتے ہیں۔ اسی لیے اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کا اسے اختیار دیا ہے۔ تقرر‘ تبادلے اور برطرفی کا بھی۔ نئے آرمی چیف نے منصب سنبھالا۔ نئے جنرلوں اور ان کے مناصب کا فیصلہ کیا تو چہ میگوئیوں کا آغاز ہوا۔ تحقیق کی تو یہ کھلا کہ عام تاثر کے برعکس ان میں سے بعض کو ان کی پسند پر وہ مناصب دیے گئے‘ جو غیر اہم سمجھے گئے۔ بعض دوسروں سے وعدہ کیا گیا کہ تربیت سے گزر چکیں تو زیادہ بہتر مواقع انہیں فراہم کر دیے جائیںگے۔کرید کرید کر پوچھا‘کسی ایک کو بھی زیر عتاب رکھنے کا ارادہ نہ تھا۔ حالانکہ ایک آدھ سے جنرل باجوہ ناخوش بھی تھے۔ ایک آدھ ایسا بھی تھا‘ جو ان کے خلاف شرمناک افواہ پھیلانے کا ذمہ دار تھا۔ گاہے اخبار نویس کو پیمان کرنا پڑتا ہے۔ نام اور تفصیلات میں بتا نہیں سکتا۔ بیشتر تفصیلات وگرنہ معلوم اور ازبر ہیں۔
ایک ڈکٹیٹر سے‘ اختیارات کے باوجود‘ فوج میں ایک طرح کی جمہوری روش نے کیسے جنم لیا۔ جی ہاں‘ پہاڑ جیسی غلطیوں کا ارتکاب کرنے کے بعد۔ ایک کے بعد دوسری مہم جوئی کے بعد‘ جس سے تباہی پھیلتی رہی۔ بیتے دنوں کے احمقانہ اقدامات کا بوجھ اٹھانے کے بعد۔
اپنے تجربات‘ اپنی غلطیوں اور تباہ کن اقدامات کے باوجود سیاستدان کیوں نہیں سیکھتے۔ اس لیے کہ آزاد پولیس اور آزاد نوکر شاہی انہیں خوش نہیں آ سکتی۔ ان کی سیاست اور ان کے کاروبار اس کے متحمل نہیں۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے سلسلے میں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ ایک دو ماہ پہلے کیوں نہیں؟ ارادہ اور وعدہ کر لینے کے بعد کیوں نہیں؟ بالکل برعکس ان کے حلیف فوجی عدالتوں کے خلاف بیان بازی کیوں کرتے رہے۔ فوجی عدالتوں کو چھوڑیے‘ مروجہ نظام میں بہتری کے لیے آغازِ کار کیوں نہ ہو سکا؟
انہیں کیا‘ دکھ جھیلتی‘ روتی بسورتی مخلوق سے انہیں کیا؟ پھر یہ کہ آزاد عدالت‘ آزاد نوکر شاہی اور پولیس کی وہ تاب ہی نہیں لا سکتے۔
ان کی بقا‘ ان کی حیات‘ ان کے مفادات زر و ظلم کے جس نظام سے وابستہ ہیں، وہی اس کے محافظ ہیں‘ جن سے ہم امید باندھتے اور بھاڑے کے ٹٹو‘ جن کی وکالت کرتے ہیں ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے