حیرت کا ایک جہان ہے‘ بے حدو بے کنار۔ زرو جواہر کی ایک کان‘ جگمگاتی اور ششدر کرتی ہوئی ۔ اپنی نہیں‘ درویش اللہ کی طرف بلاتا ہے ... اور اللہ کے جہان کی کوئی آخری حد کیسے ہو سکتی ہے؟
الجبرا کے بانی الخوارزمی نے انسان کے بارے میں یہ کہا تھا: اگر وہ صاحبِ اخلاق ہے تو اسے 1نمبر دے دو۔ جمال ہے تو ساتھ ایک صفر لگائو‘ 10ہو جائے گا۔ دولت بھی ہو تو ایک صفر اور‘ یعنی100۔حسب و نسب بھی ہو تو مزید ایک صفر‘1000۔ اخلاق سے محروم ہو جائے تو صفر ہی باقی رہ جائیں گے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر ایک صوفی ‘ دوسروں سے کس طرح مختلف ہیں؟ وہ حسنِ اخلاق کی دولت‘ جمال اور حسب و نسب رکھتے ہیں۔ نگاہ بلند ‘ سخن دل نواز‘ جاں پرسوز‘‘۔ اقبال ؔنے کہا تھا اور دم آخر کہا تھا :ایک دانائے راز اور آئے گا۔ میرا خیال ہے غالبؔ کی طرح‘ ان کا زمانہ ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا‘ جس کا ایک شعر انہیں بہت پسند ہے ؎
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
کتاب ان کی باقی رہے گی۔ اقبالؔ کے برعکس‘ جن کے عہد میں یہ اہتمام ممکن نہ تھا‘ آواز بھی اور پوری کی پوری۔ قرآنِ کریم ارشاد کرتا ہے کہ جو چیز آدم زاد کے لیے نفع بخش ہو‘ باقی رہتی ہے۔
پروفیسر صاحب کے حسنِ اخلاق کی اساس وہ ہے‘ جسے زوال نہیں۔ اس کی جڑیں ہمیشہ باقی رہ سکتی ہیں ۔ فرمایا : پاکیزہ اور سچا کلمہ ایک شجر ہے ‘جڑیں جس کی گہری اور ٹہنیاں آسمان تک پھیل جاتی ہیں۔انہوں نے یہ سبق اللہ کی کتاب سے سیکھا اور اس کے سچے رسول‘ رحمتہ للعالمین ﷺ سے۔ ان کی کوئی گفتگو‘ کوئی مجلس‘ ان کے ذکر سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔ موضوع کوئی بھی ہو‘ لوٹ کر وہیں آتی ہے۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎
گفتگو کسی سے ہو‘ دھیان اسی کا رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے‘ سلسلہ تکلم کا
تکلّم کا سلسلہ یہاں نہیں ٹوٹتا۔ ایک ندّی ہے‘ آہستہ خرام ‘ جس میں طوفان نہیں اٹھتے۔ کشتیاں جس پر رسان سے بہتی اور ساحلوں کو سفر کرتی ہیں‘ کرتی چلی جاتی ہیں۔محفل ہو کہ ہجوم‘ یہ آواز کبھی زیادہ بلند نہیں ہوتی‘ کبھی نہیں۔ ہچکچاہٹ نہ تامّل‘ بھید بھائو اور نہ افسانہ طرازی۔واعظوں کے بارے میں امام مسلمؒ کا یہ قول ہم نے پروفیسر صاحب ہی سے سنا کہ اہلِ خیر جھوٹ بہت بولتے ہیں ۔ اثر پذیری کے لیے وہ مبالغہ کرتے‘ چیختے اور خواب گھڑتے ہیں۔ پروفیسر واعظ نہیں‘قول و عمل ایک۔ مبالغہ کرتے ہیںاور نہ خواب سناتے ہیں۔ تنہائی ہو کہ ہزاروں کا مجمع‘ ہمیشہ ایک ہی موقف‘ ایک ہی لہجہ اور وہی ایک انداز۔ ایک بار مجھ سے کہا: جس روز اپنی بات کہتے ہوئے اٹک گیا‘ اسی روز خطاب آرائی سے کنارہ کشی اختیار کر لوں گا۔
کچھ بھی وہ نہیں چھپاتے۔ یہ الگ بات کہ راز جس بات کو رکھنا ہو‘ وہ ہمیشہ راز رہتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ علم‘ حکمت اور حسنِ کلام‘ تین اوصاف اس آدمی میں ہونے چاہئیں‘ اللہ کی طرف انسانوں کو جو بلانا چاہے۔ ایسی اپنائیت ہم نے دیکھی نہ سنی۔ مختلف زمانوں کے منفرد فقیروں کی شناخت کا ذکر تھا۔ کہا: مجھ پہ اللہ کا کرم یہ ہے کہ میرے ساتھ آپ لوگ اس قدر آسودہ ہیں۔ حکمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جس جملے یا تبصرے پر ردعمل ظاہر نہ کرنا ہو‘ ماتھے پہ شکن ڈالے بغیر‘ شہد کے گھونٹ کی طرح پی جاتے ہیں۔ کبھی چند ماہ اور کبھی برسوں بعد‘ اس کا حوالہ دیتے ہیں‘ جب مطلوب ہو۔ جب مخاطَب اسے قبول کرنے پر آمادہ نظر آئے۔ ایک بار ‘ دس سال کے بعد مجھ سے کہا‘ فلاں دوست کی تم جان ہی کو اٹک گئے تھے۔ اصل الفاظ یہ نہ تھے۔ شائستگی ہر حال میں وہ روا رکھتے ہیں۔ وہ صاحب بالآخر میرے بہترین دوستوں میں شامل ہو گئے۔ سرکاری افسر ہیں۔ دور کہیں رہتے ہیں۔ کبھی خاص طور پر میں ان سے ملنے جاتا ہوں۔ایک کالم کبھی ان پر لکھا تھا۔ آنجناب نے رسید تک نہ دی۔ جس بات پر ڈٹ گئے‘ بس ڈٹ گئے۔نہیں‘ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح نہیں۔ دلیل رکھتے ہیں اور تلوار کی طرح آبدار۔ پروفیسر صاحب کے شاگردوں میں ایک سے ایک عجیب آدمی ہے۔ ان کہانیوں کو اگر کوئی لکھ سکے تو ایسی ایک طلسمِ ہوشربا وجود میں آئے کہ سینکڑوں برس تک سنی اور پڑھی جاتی رہے۔ اس لنکا میں بہت سے باون گز کے ہیں۔
اپنے حلم کے بارے میں کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی والدہ مرحومہ کا فیض ہے ۔ ادھوری بات ہے۔ گہرا اور باقی رہنے والا اخلاق ‘ خود ترسی کا جس میں شائبہ تک ہو‘ سب سے بڑی کتاب اور سب سے بڑے معلمؐ کی سیرت میں جی لگائے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا اپنا قول یہ ہے: صوفی وہ ہوتا ہے‘ دوسروں کو جو ہمیشہ رعایت دے سکتا ہو‘ اپنے آپ کو کبھی نہیں۔ راولپنڈی سے ہم گوجر خان جا رہے تھے‘ محوِ گفتگو ۔ سوال کیا تو جواب نہ ملا۔ پلٹ کر دیکھا‘ وہ سو رہے تھے۔ چند منٹ میں جاگ اٹھے‘ چہرے پہ تکان کے اثرات۔ میں نے کہا‘ اپنے ساتھ آپ زیادتی نہیں کر رہے؟ بولے: اب یہی طرز زندگی ہے اور میں اسی میں شاد ہوں۔واقعی شاد ہیں۔
ادراک کی یہ سطح اس علم کے وفور سے پھوٹتی ہے‘ جس کے بارے میں ارشاد یہ ہے: درجات علم کے ساتھ ہیں‘ ہر جاننے والے کے اوپر ایک اور جاننے والا ہے۔ نہیں‘ صرف علم سے نہیں‘ علم اور کردار کے ہم آہنگ ہوجانے سے۔ تب وہ گیت بُنا جاتا ہے‘ جسے ہم صوفی کہتے ہیں ۔ صدیوں تک‘ ہزاروں برس تک‘ جس کی یاد باقی رہتی ہے ۔لوک داستانوں سے زیادہ دل آویز‘ لہو گرمانے اور گداز اُگانے والی شاعری سے بھی زیادہ۔ نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم شاعر بھی تھے ؎
اپنی شادابیٔ غم کا مجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے
خواجہ نظام الدین اولیا ؒنے کہا تھا: کتنے بادشاہ ہو گزرے ہیں۔ نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ جیندؒ و بایزید‘ یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ خواجہ مہر علی شاہؒ سے کسی نے پوچھا: اس آیت کا مفہوم کیا ہے کہ اللہ کو یاد کرو‘ وہ تمہیں یاد کرے گا۔ فرمایا: کیا آپ دیکھتے نہیںکہ دنیا سے اہلِ ذکر چلے جاتے ہیں‘ مخلوق پھر بھی انہیں یاد رکھتی ہے۔ مٹی کے ان ڈھیروں تک چلی آتی ہے‘ جسے اوڑھ کر وہ سو رہے ہوتے ہیں۔ خواجہؒ کو‘ پروفیسر صاحب عظیم ترین صوفیا میں سے آخری کہتے ہیں۔ کشمیر سے ہجرت کرنے والے ان کے اجدادمہر علی شاہؒ کے سائے میں رہے۔ ان سے محبت کی۔ خود اپنے بارے میں پروفیسر صاحب کیا کہتے ہیں؟ ایک سادہ سا جملہ ''مسلمان ہوں اور مومن بننے کی جدوجہد میں لگا ہوں‘‘۔
انکسار اور ایسا انکسار۔ کل شب میرے دوست رانا محبوب اختر نے گفتگو کا اس طرح آغاز کیا: ''ہارون کا میں مرید ہوں اور وہ آپ کے مرید ہیں‘‘۔ بات کرنے والے کو وہ ٹوکتے نہیں‘ جملے کے اختتام پر راجپوت کو رکنے کااشارہ کیا اور یہ کہا: میرا کوئی مرید نہیں‘ یہ لفظ مجھے پسند نہیں۔ ایک دوسرے سے ہم سب سیکھتے ہیں۔ (جاری)