"HRC" (space) message & send to 7575

سب سے جدا‘ سب کا رفیق (2)...

اگر کوئی بات میں جانتا ہوں تو فرض ہے کہ دوسروں کو بتائوں۔ فاروق انصاری گوجرانوالہ سے آئے تو ان کے تیور بہت تیکھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پیری مریدی کا یہ ایک روایتی ڈھونگ ہے‘ چلیے ڈھونگ نہیں‘ سلسلہ سہی۔ چپ چاپ پروفیسر صاحب انہیں سنتے رہے۔ ایک ذرا سی فکر مجھے پچیس تیس ان نوجوانوں کے بارے میں تھی جن میں سے اکثر دور دراز کے شہروں سے آئے تھے کہ ان میں سے کوئی مضطرب نہ ہو۔ شکایت کا ایک لفظ کسی کی زبان سے بالکل نہ نکلا۔ اس وقت نہ بعد میں۔ خاموش وہ سنتے رہے۔ پروفیسر صاحب نے تب یہ کہا: یہاں کوئی پیر ہے نہ مرید۔ خوش اخلاقی اور میزبانی کے ایک کلچر کو ہم فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ مجھے ان کا استاد کہہ سکتے ہیں۔ تین منزلوں کی سیڑھیاں اتر کر کھلے میدان میں ہم پہنچے تو علامہ بولے: شاید میری وہابیت تھی۔ اس کے بعد کبھی اس موضوع پر بات نہ کی۔ کبھی کبھار ان کی خیریت پوچھ لیتے ہیں۔ ابھی تک اس حیرت سے شاید نجات نہیں پا سکے کہ آدمی ایسا بھی ہوتا ہے۔ میر صاحب نے کہا تھا ؎
حیرتِ گُل سے آب جو ٹھٹھکا
بہے بہتیرا مگر بہا بھی جائے
نوجوان شاگرد اپنے استاد سے محبت بہت کرتے ہیں۔کم یا زیادہ‘ فیض سبھی نے پایا ہے۔ غیبت اور بغض و عناد سے بچ نکلتے ہیں۔ خوش دل اور خوش کلام ہو جاتے ہیں۔ مباحثہ مگر جاری رہتا ہے۔ برسوں شفقت فرمانے‘ برسوں مدد کرنے کے بعد کپتان سے پروفیسر صاحب مایوس ہو گئے۔ ان کے شاگردوں میں لاتعداد ہیں‘ جن کا جھکائو‘ خان کی طرف ہے۔ بہت سے شاید ووٹ بھی دیں۔ انہیں وہ منع نہیں کرتے۔ تبادلہ دلائل کا ہوتا ہے۔ احکامات وہاں جاری نہیں ہوتے۔ خود ایک مباحثے میں‘ جب بہت تلخی مجھ پر غالب آ گئی‘ احتجاج کی لَے کچھ زیادہ ہی بلند کر دی تو یہ کہا: مجھے سوچنے دیجئے‘ اپنے تعصبات سے مکمل رہائی آدمی کو نصیب نہیں ہوتی۔ یہ فکر انہیں لاحق نہیں ہوتی کہ کوئی ان کی بات مانتا ہے یا نہیں‘ بس یہ کہ دلیل مضبوط ہونی چاہیے‘ غور و فکر کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ دوسرے کی بات پوری توجہ سے سنی جائے۔ کپتان کا سا تجربہ کسی دوسرے کو ہوتا تو وہ کیا کرتا؟ ایک شب میں نے عرض کیا: میں تو خیر کم علم تھا‘ آپ اتنی بڑی غلطی کے مرتکب کیسے ہوئے؟ آدمی کو آ پ پہچانتے ہیں اور ایسا پہچانتے ہیں کہ خود وہ دنگ رہ جاتا ہے... اور اس کے جاننے والے بھی۔ کہا: ہم اللہ سے ہار گئے اور اس سے ہار جانے میں کیا خرابی ہے؟
چند ماہ بعد بلال الرشید نے یہ ذکر چھیڑا تو کہا: یہ سب آپ کے والد کا کیا دھرا ہے۔ حسّ مزاح ان کی بہت اچھی ہے۔ محفل کو گلزار کیے رکھتے ہیں مگر حدود کے ساتھ۔ دل کسی کا نہیں دکھاتے۔ اس کا بھی نہیں‘ جو بدتمیزی پہ ادھار کھائے بیٹھا ہو۔ ایسا اگرچہ بہت کم ہوتا ہے۔
فلسفہ ان کا بہت واضح ہے۔ ایک واقعے سے گاہے‘ اسے بیان کرتے ہیں۔ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ان کی ایک شاگرد کو بہت اصرار تھا کہ ان کی جامعہ کے ڈین سے ملیں۔ وہ بھی مشتاق تھا۔ ان کے پاس چلا آیا: بولا چودہ سال اللہ کو میں تلاش کرتا رہا مگر لاحاصل۔ آپ نے کس طرح اسے پا لیا۔ کہا : 
Professor!God is not the by product of Mathematical and Philosophical calculations. It should be the top priority of intellectual curiosity.
(پروفیسر صاحب! اللہ تعالیٰ ریاضی اور فلسفے میں عرق ریزی کی ضمنی پیداوار نہیں ہو سکتا۔ علمی تجسس کی اعلیٰ ترین ترجیح جب تک نہ ہو‘ آدمی اسے پا نہیں سکتا۔)
یہ نکتہ شاید سب سے زیادہ وہ دہرایا کرتے ہیں۔ وہ راہ میں گری پڑی کوئی چیز نہیں۔ اس کے ہو جائو‘ تو بس اسی کے ہو جائو۔ صبغۃ اللہ و من احسن مِن صبغۃ اللہ ۔ اللہ کا رنگ اور کون سا رنگ ہے‘ جو اس کے رنگ سے بہتر ہو۔ ایک قوال کو کبھی وہ یاد کرتے ہیں: ''مجھے رنگ دو پیا‘‘ اور کبھی اپنا ایک شعر سناتے ہیں ؎
جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا
ایک بار مجھ سے کہا، یہ شعر میں بھول گیا تھا۔ آپ نے یاد دلایا۔ جی ہاں ایک زمانے میں وہ شاعری کیا کرتے۔ ایک دوسرا شعر یہ ہے ؎
ہائے وہ لمحۂِ عرفانِِ ازل
دل ڈوبتا جائے تھا پتھر کی طرح
انگریزی ادب گھول کر پی لیا ہے‘ کچھ زیادہ اگرچہ اس کے قائل نہیں۔ جان ملٹن کے کسی قد ۔ کہتے ہیں: صدیوں تک اس کے بعد کوئی بڑا سخنور نہ اٹھا۔ اقبالؔ کے بعد نمودار ہونے والے بھی اکثر بھلا دیے جائیں گے۔ بہت سے اشعار ازبر ہیں، کبھی سفر میں سنایا کرتے ہیں، طبیعت جب مائل ہو۔ زیادہ مائل ہو تو لحن کے ساتھ۔ موسیقی کے اسرار و رموز سے آشنائی ہے۔ کتنی ہے؟ کہہ نہیں سکتا۔ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کی طرح وہ قائل ہیں کہ موسیقی بجائے خود ممنوع نہیں، انحصار اس کے اچھا یا برا ہونے پر ہوگا۔
ایک شام نماز مغرب کے بعد نعت سن رہے تھے۔ چند منٹ کے بعد پلٹ کر آیا تو بے تاب! دراز کھولتے اور بند کرتے تھے کہ اس نعت خواں کا کیسٹ منگوا کر سنیں۔ کہا کہ ظالم نے سارا سُکر برباد کردیا۔ روزانہ بارہ گھنٹے جو آدمی تسبیحات پڑھے، کس کیف کے عالم میں وہ رہتا ہوگا؟ ہوتے ہوتے256 تسبیحات ہو گئیں۔ قرآن کریم کی آیات اور سرکارؐ کی احادیث۔ 75 برس کی عمر میں حافظہ ایسا ہے کہ باید و شاید۔ ازرہِ مزاح کبھی یہ کہتے ہیں: میری عمر مت بتایا کرو۔ چند سال سے ان کے شاگرد سالگرہ منانے لگے ہیں۔ شور شورابے کے بغیر ‘ ایک خوشگوار سی شام ‘ چند درجن طالب علم ۔ 
اپنے سارے کام خود نمٹاتے ہیں اور بہت سے دوسروں کے بھی۔ رشتہ داروں سے ملتے ہیں۔ دو سروں پر عنایات کرتے ہیں۔ گھر کے لیے خریداری‘ مہمانوں کی تواضع۔ تقریبات میں، جہاں تعداد اکثر درجنوں کبھی سینکڑوں اور کبھی ہزاروں تک پہنچتی ہے، انتظامات کی نگرانی خود کرتے ہیں۔ ایک ایک چیز نک سک سے درست۔ ترتیب کے ساتھ، موزوں اور شایانِ شان۔ سادگی مگر اہتمام۔ خود پریشان ہوتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہیجان اور Obsession کے بغیر کام کی تکمیل‘ بلکہ حسنِ تکمیل۔
سات آٹھ برس ہوتے ہیں‘ سالانہ لیکچر پہ پندرہ سو کا مجمع تھا۔ کھانا شروع ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کہ بھگدڑ سی مچی۔ کچھ ایسی خرابی تو نہیں، جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہے‘ مگر گنوارپن کے چند مناظر دیکھنے میں آئے۔ شام ڈھلے میں نے عرض کیا: یہ کیا ہوا؟ کہا ‘ تقریر کے اختتام پر میں نے کہہ دیا کہ کام و دہن کی تواضع ابھی ہونی ہے۔کیبل کے توسط سے شہر بھر کے لوگ سن رہے تھے۔ لپک کر وہ آ پہنچے، درجنوں یا شاید سینکڑوں۔ پھر کہا، آپ نے دیکھا ہوگا، کچھ ہی دیر میں ترتیب پھر سے پیدا ہوگئی۔ برا بھلا کسی کو نہ کہا۔ کوئی نکالا گیا اور نہ کسی کو طعنہ دیا گیا۔ سبھی نے سیر ہو کر کھایا۔ بن بلائے، جو چلا آئے، وہ بھی مہمان ہے۔ کئی بار کہا‘ یہ انبیاؑء کی سنت ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں