کارِ حکمرانی کچھ ایسا پیچیدہ بھی نہیں ۔ ایک عزم چاہتاہے اورواضح لائحہ عمل، پھر سختی سے قانون کا نفاذ۔۔۔اور یہ ممکن نہیں ، جب تک کہ حکمران خود قانون کی پاسداری نہ کریں ۔
پنجاب حکومت کے گلے میں بسنت چھچھوندر کی طرح پھنس گئی ہے ۔ اگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے ۔ امسال خادمِ پنجاب کا حکم یہی ہے کہ کسی صورت انعقاد نہ ہو ۔ احسن بھی یہی ہے کہ انسانی زندگیوں کو خطرے میں بہرحال ڈالا نہیں جا سکتا۔ کچھ لاہوریوں کو مگر یہ گوارا نہیں ۔ ان کی تفریح پسند طبیعت صدیوں سے ایک سانچے میں ڈھلی ہے ؛چنانچہ وہ کسمسا رہے ہیں ۔ بحث پھیل کر وسیع ہو گئی اور اتنی ہی زیادہ الجھ بھی گئی ، دھاگے کی طرح ۔ امریکہ سے ایک لاہوری نے پیغام بھیجا ہے کہ پاکستان اپنی ثقافت سے نبرد آزما ہے ۔ اس کے خیال میں یہ مذہبی طبقات کے دبائو کا نتیجہ ہے ۔ سیکولر یا مذہبی ، سوشلسٹ یا ملّا ، زندگی تو سبھی کے لیے محترم ہے ۔ یہ ایک اٹوٹ ابدی جبلّت ہے ۔ انسان تو کیا، سبھی جانداروں کی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے : سبھی زندگیوں کو ہم نے بخلِ جان پر جمع کیا۔ خود خالق کو حیات کی بقا اس قدر عزیز ہے کہ جان خطرے میں ہو تو لحمِ خنزیر تک کھانے کی اجازت ہے ۔
پتنگ بازی کے مخالف مذہبی لوگ ایک لحاظ سے ضرور غلطی پر ہیں ۔ اسے وہ ہندوئوں کا مذہبی تہوار کہتے ہیں ۔جی نہیں ، برصغیر کا قدیم رواج ہے مگر مذہبی نہیں ۔ ایسا ہوتا تو لاہور کی بجائے ، ہندو اکثریت کے بھارتی شہربسنت کامرکز ہوتے یاپھر نیپال جو اعلانیہ ایک ہندو ملک ہے ۔ جب کہ لاہور ایسے جو ش و خروش کے ساتھ بسنت کبھی کہیں اورنہ منائی گئی ۔ پھر یہ بھی کہ چین کے دور دراز شہروں سمیت ہر کہیں دنیا بھر میں پتنگ اڑائے جاتے ہیں ۔ مسئلے کی نوعیت کچھ اور ہے، سمجھنے کی اسے کوشش کرنی چاہئیے ۔
اکتوبر1969ء میں لاہور کی صحافت سے وابستہ ہونے کے بعد فروری 1970ء میں پہلی بار بسنت کی خبر لکھی تو ایک صدمے کے ساتھ ۔ چھ بچّے چھتوں سے گرے اور زخمی ہو کر میو ہسپتال جا پہنچے تھے ۔ یہ ایک دردناک منظر تھا ، خبر میں جو سمٹ نہ سکا ؛چنانچہ اس پر ایک مضمون سا لکھا۔ اس وقت یہ ادراک بھی نہیں تھا کہ اسی کو کالم کہا جاتاہے ۔
نوبت پھر یہاں تک پہنچی کہ 1992ء میں لاہور اور دوسرے شہروں سے بسنت کی خبریں موصول ہوئیں تو نادرِ روزگار نیوز ایڈیٹر عباس اطہر مرحوم نے اس پر سرخی جمائی ''قصور ، فیصل آباد اور لاہور میں بسنت خون کے چھینٹے اڑاتی گزر گئی ‘‘
معاملے کو یہیں تمام نہ ہونا تھا ۔ مئی 2008ء میں میرے محترم دوست، وزارتِ خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری فاروق گیلانی مرحوم نے فون کیا کہ رئوف ملک سبکدوش ہو رہے ہیں ۔ کیا ان کی ملازمت میں توسیع کے لیے تم مدد کر سکتے ہو ۔ رئوف ہمارے مشترک دوست تھے۔ ایک نفیس اور نجیب ،بیباآدمی ۔ بے ضرر، انسان دوست اور نرم خو۔ اس کے بعد جو انکشاف انہوں نے کیا ، رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا ۔ اپنے جواں سال فرزند کو اس نے کھو دیاتھا ۔ دھاتی تار سے گردن کٹنے پر۔
نون لیگ کے وزرا ابھی زرداری حکومت کا حصہ تھے ، جو ججوں کی بحالی کا معاہدہ توڑنے پر اقتدار سے الگ ہو گئے ۔ فاروق صاحب کا کہنا تھا کہ رئوف کا دوسرا بیٹا امریکہ میں ہے اور ان کی اہلیہ بھی ۔ فراغت کے بعد اگر وہ بھی ا مریکہ چلا گیا تو اندیشہ ہے کہ ڈپریشن کا شکار ہو جائے گا۔ زرداری صاحب سے بات کی۔ مان گئے مگر یہ کہا کہ افسر کا تعلق چوہدری نثار کی وزارت سے ہے اور اس میں وہ مداخلت نہیں کرنا چاہتے ۔عرض کیا: ان سے میں درخواست کر لوں گا۔ توسیع ممکن نہ ہوئی ۔ لیت و لعل کا سلسلہ شروع ہوا اور اتنادراز ہوگیا کہ تنگ آکر رئوف امریکہ چلے گئے ۔ اللہ انہیں برکت دے ۔ معلوم نہیں ، اب وہ کہاں ہیں ، کس شہر میں ۔
ایک آدھ برس میں بسنت کا تہوار مسخ نہیں ہوا۔ رفتہ رفتہ بگڑا ہے ۔ اس دوران ہم سب تماشا دیکھتے رہے ۔ فقط دھاتی تار ہی نہیں بتدریج خنجر کی سی دھار والے‘ شیشے کا مانجھا لگے بل دئیے گئے ایسے دھاگے بازار میں آگئے ، زندگیوں کے لیے جو خطرہ تھے، خاص طور پر موٹر سائیکل سوار کے لیے ۔ اس کے ساتھ بیٹھے معصوم بچّوں کے لیے ۔ اچھا خاصا ایک درمیانہ طبقہ وجودپاگیاتھا۔ دولت کی فراوانی تھی ‘ تعلیم و تربیت کے فقدان سے نمائش کی آرزو بھی ۔ غلبہ پانے کی قدیم طاقتور انسانی جبلّت ، دھاتی تار ،طرح طرح کے کھانے ، ہوائی فائرنگ اور نازیبا حرکات۔ پڑوسیوں کے لیے عذابِ جان اور پولیس کے لیے بھی ۔ شکایات کے انبار لگ جاتے ۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنے کی ضد او روہ بھی ایک مخصوص علاقے میں ۔ قدیم لاہور میں چھتوں کے کرایے تین سے چار لاکھ روپے تک جا پہنچے ۔
تہوار کچھ اور بڑھا۔ بے سمت اور بے لگام معاشرے میں طرح طرح کے گل کھلانے لگا۔ اب جنرل پرویز مشرف میدان میں اترے کہ بسنت کی سرپرستی فرمائیں ۔ وہ لاہو ر تشریف لے جاتے ، جہاں کبھی وہ زیرِ تعلیم رہے تھے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں کھیل کا حصہ بن گئیں۔ کاروباری مفادات اور مسابقت سے تعداد بڑھتی گئی ۔ دنیا بھر سے مہمان چلے آتے ۔ ایک سیدھا سادہ ، پرلطف تہوار نئی جہات سے آشنا ہوا۔ میجر عارف صاحب کو اللہ تعالیٰ صحتِ کاملہ عطا کرے ۔ ایک بار ان کے وسیع و عریض دفتر کی چھت پر مجھے بھی تقریب میں شامل ہونے کا موقعہ ملا۔ خورونوش، گپ شپ اور رنگوں سے ڈھکا آسمان ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھچھورا پن بڑھتا گیا ؛حتیٰ کہ وبالِ جان ہو گیا؛ تا آنکہ پابندی عائد کر دی گئی ۔ خلاف ورزی اگرچہ اب بھی ہوتی ہے مگر ہلاکتوں میں کمی آگئی ۔
اب واویلا یہ ہے کہ لاکھوں آدمیوں کا روزگار بسنت کے موسم سے جڑا تھا۔ بعض کے مطابق دو اڑھائی لاکھ افراد کا۔ بجا ارشاد اور نہ بھی ہو تو تہوار پہ کیا اعتراض ۔ سدّباب تو دھاتی تار ، فائرنگ اور خرمستی کاہونا چاہئیے ۔ اس کی ضمانت کون اور کیسے دے ؟
اجتماعی حیات کے آداب اور تقاضے ہیں ، جنہیں ہم نے فراموش کر دیا ۔ وحشت کا شکار ہونے سے پہلے کا مسولینی معقول آدمی نظر آتا تھا۔ روم کے سفر میں اقبالؔ اس سے ملے ۔ مفکر سے نصیحت کی استدعا کی تو انہوں نے سرکارؐ کا قول اسے سنایا: ایک حد سے زیادہ آبادی کو پھیلنے کی اجازت نہ دینی چاہیے ۔ کسی منصوبہ بندی کے بغیر بڑھتے پھیلتے ، بے ہنگم شہر خرابی لاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ناکارہ پولیس اور مرجھائی ہوئی عدلیہ کی موجودگی میں اور بھی۔ کراچی ایک مثال ہے اور لاہور کی بسنت دوسری ۔ وہ شہر ، جس پر شریف خاندان کی سیاست کا دارومدار ہے ۔ جو اسے کراچی سے بڑا اور پیچیدہ بنانے پر تلا ہے ۔
بستیوں کے بارے میں سرکارؐ کے ارشادات واضح ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی گلی ایسی ہونی چاہئیے کہ لدے ہوئے دو اونٹ گزر جائیں ۔ امیروں اور غریبوں کی آبادیاں الگ نہ ہونی چاہئیں ۔ قدیم لاہور کی پر پیچ گلیوں میں زندگی گھٹ کے رہ جاتی ہے ۔ ڈیفنس میں اپنی تہذیب کے لمس سے محروم اور مفلس ۔
ظاہر ہے کہ کالم میں یہ بحث سمٹ نہیں سکتی ۔ بسنت کا کیا ہو ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مینارِ پاکستا ن کے میدان سمیت لاہو رکے دس بارہ یا اس سے بھی زیادہ پارک مختص کر دئیے جائیں ۔ ان کی نگرانی ہو ۔ قاتل تار اور خرافات پہ اصرار کرنے والوں کا محاسبہ ممکن رہے ۔
کارِ حکمرانی کچھ ایسا پیچیدہ بھی نہیں ۔ ایک عزم چاہتاہے اورواضح لائحہ عمل، پھر سختی سے قانون کا نفاذ۔۔۔اور یہ ممکن نہیں ، جب تک کہ حکمران خود قانون کی پاسداری نہ کریں ۔