اپنے گریباں میں جھانکنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ کسی شخص نہ کسی قوم اور قبیلے کو‘ حالانکہ یہی سب سے زیادہ ضروری ہے۔
میری زندگی میں اگر فلاں نہ ہوتا۔ قومی حیات میں اگر فلاں جنرل یا فلاں صدر نہ ہوتا۔کیوں نہ ہوتا؟... تقدیر کا لکھا تھا۔ قرآن کریم میں ہے کہ جہاں جہاں کسی کو رکنا اور ٹھہرنا ہے اور جہاں اسے پہنچنا ہے‘ وہ سب رقم ہے۔ زمین پر اترنے سے پچاس ہزار سال پہلے تمام روحیں تخلیق کر دی گئی تھیں۔ بہت چھوٹے ذروں کی شکل میں۔ آدمؑ کو ان کی تمام ذریت ان کی ہتھیلی پر رکھ کر دکھائی گئی۔ ان میں سے اکثر سیاہ تھے‘ بدقسمت؛ کچھ درخشاں‘ خوش بخت۔ابن عربی ؒ کہتے ہیں کہ ان زمانوں میں پروردگار نے آدم کی مٹی پہ نگاہِ کرم جمائے رکھی۔ فلسفی ول ڈیوراں کا قول یہ ہے کہ سوئے ہوئے آدم کے سر پر برق چمکتی رہی اور اس کا دماغ وسعت پذیر ہوا۔ ایسے ہی ایک خوش بخت کی داستان حیات پر ان دنوں ریاضت کر رہا ہوں۔ ہمارے عہد کا آدمی ہے۔ محبوب اور معزز‘ لگتا ہے کہ قدیم عہد کی روح ہے‘ جو بھٹک کر ہمارے عصر میں آ گئی ۔نجیب ‘ شائستہ اور دردمند۔ قدامت پسند نہیں‘ اپنے عصر کے سب تیوروں سے آشنا۔ اپنے مطلوب کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ؎
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
اسے دیکھنے کی تاب ہے‘ برتنے کی بھی۔ پاس پڑوس میں رہنے والا کوئی عامی مگر حسن اخلاق میں گندھی مٹی۔ سرکارؐ سے محبت اور ان کی امت سے بھی۔ تمام نبی آدمؑ سے۔ اسے دیکھ لیں تو اپنا شعر افتخار عارف دیوان سے خذف کر دیں ؎
رحمت سید لولاکؐ پہ کامل ایماں
امتِ سید لولاکؐ سے خوف آتا ہے
فرمایا : جہاں سے اے کاش شروع ہوتا ہے‘ شیطنیت وہیں سے آغاز کرتی ہے۔ ارشاد ہے کہ تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں۔ کتاب میں لکھا ہے : کسی پر بھی اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ کوئلو پائلو‘ لاطینی امریکہ کے اس نادرِ روزگار نثرنگار کے اقوال رہنما ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے: غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بس سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے سے اگر انکار کر دیا جائے تو ہمارے لئے زندگی انہیں دہراتی رہتی ہے۔ دوسرا یہ ہے : کچھ لوگ ہوتے ہیں‘ جو بہکتے نہیں‘ جوغلط بیانی کبھی نہیں کرتے‘ جو کبھی کسی خطا کے مرتکب نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ مگر خیالوں میں ہوتے ہیں‘ دنیا میں نہیں ۔
ہوتے ہیں‘ مگر مستثنیات کے طور پر۔ نیویارک میں ایک بنگالی معالج سے ملاقات ہوئی۔ لنگی پہنے‘ سیدھا ساداآدمی‘ شیریں کلام اور استوار۔ کہا : آپ کا ذکر بہت سنا تھا۔ ملنے کی تمنا بہت تھی۔ عرض کیا: بھائی‘ ایک عامی ہوں‘ معلوم نہیں کیوں بعض نے حسن ظن پال لیا۔ سب جن غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں‘ ہم بھی ہوئے۔ بولا : خیر‘ یہ الگ بات ہے‘ مگر ایک نکتہ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ انسان سبھی خطاکار ہیں‘ صدیقین شاذونادر ہی ہوتے ہیں۔ ٹھیک کہا۔ ابوبکرؓ بھی ایک ہی تھے۔ جاہلیت میں بھی معزز و مکرم‘ اجلے اور پاکباز۔ خود اللہ کی کتاب کہتی ہے : اپنے آپ کو پاکباز نہ کہا کرو۔ بڑے نہیں تو چھوٹے گناہ کرو گے ہی۔
آدمی کا یہ رویّہ ہے کہ کسی نہ کسی کو قصوروار ٹھہرائے۔ خود ترحمی ہے اور سطحیت بھی۔ ہمیشہ سے آدمی ناشکرا ہے۔ اولاد آدمؑ کی اکثریت اوّل دن سے ایسی ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ بہترین کو بھی کمتر گردانتی ہے۔ روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت کم سنتی ہے ۔ فردوس گم گشتہ کا ماتم زیادہ۔
تخریب کاری اور تشدد کی ہر نئی لہر میں‘ نام نہاد مذہبی لوگوں کے ہر فریب کے ہنگام‘ کچھ لوگ جنرل محمد ضیاء الحق پر تبریٰ کرتے ہیں۔ ان کی ذات کا دفاع ہرگز مقصود نہیں۔ خاکم بدہن عمر بن عبدالعزیز ؒوہ نہیں تھے۔ صلاح الدین ایوبی‘ ٹیپو سلطان یا محمد علی جناح کا عکس بھی نہیں۔ نوکری پیشہ آدمی تھے۔ حادثے سے اقتدار میں آئے۔ فخر ایشیا‘ قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹو نے خانہ جنگی کی آگ بھڑکا نہ دی ہوتی تو وہ کبھی آ نہ سکتے۔ ایک زمانے نے تحقیق کی ۔ سیاست سے آشنا ان کے خاندان کے خادم نے بتایا کہ اصلاً وہ پاکستان قومی اتحاد کے خلاف تھے ۔ صلح کے خواہشمند مگر بھٹو نے صلح کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔ بھٹو کے حامی بہت تھے اور پرجوش ۔ آج بھی پیپلز پارٹی زندہ ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے 29 برس بعد بھی۔ الیکشن اس نے جیت لیا تھا۔ سندھ میں آج بھی برسراقتدار ہے۔ اہل سندھ کی آزمائش اگر تمام نہیں ہوتی تو اگلا صوبائی انتخاب بھی اسی کا ہو گا۔ کراچی میں کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ کوچہ و بازار کی صفائی کے اعتبار سے‘ دنیا کا غلیظ ترین شہر۔ لاڑکانہ میں بھی یہی عالم ہے۔ پورا سندھ ایک بدرَو ہے اور مکین اس کے کناروں پہ بستے ہیں۔ زراعت برباد‘ تعلیم‘ ہسپتال اور صنعت برباد۔ کراچی کے لوگ‘ سب سے زیادہ ذہین سمجھے جاتے ہیں۔ حالات سے باخبر‘ دستِ سخا رکھنے والے۔ اس کے باوجود یہ عذاب کیوں ان پر مسلط ہے۔ ہر روز آپؐ کا یہ قول دہرانا چاہیے: ''برائی سے جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کئے جائیں گے۔ تمہیں وہ سخت ترین ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔‘‘
کیوں نہیں؟...اس لئے کہ برائی اور برے لوگوں کو خلق گوارا کر لیتی ہے۔ ان کے خلاف جہاد تو درکنار‘ ان سے لوگ جا ملتے ہیں۔ بھیک کا دامن پھیلاتے اور مراعات مانگتے ہیں۔ حکمران طبقے کو خدا سمجھ لیا جائے تو کیا یہ شرک خفی نہیں؟ جہانگیر بدر کو اللہ معاف کر دے اور اپنی رحمت سے انہیں ڈھانپ لے۔ ایک بار کہا : بے نظیر بھٹو لیڈروں کی ایک نئی کھیپ پیدا کر سکتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا : بدر صاحب! شرک ہے یہ شرک۔ ایک خوبی پیپلز پارٹی والوں کی ماننی پڑتی ہے۔ سخت سے سخت تنقید وہ گوارا کرتے ہیں۔ باقی سب پارٹیوں کا حال ایک جیسا ہے۔ مذہبی جماعتیں سب سے زیادہ سخت گیر۔ شریف خاندان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں پارسا تسلیم کیا جائے۔ الطاف حسین کو جس نے کبھی بھگتا ہے‘ وہی جانتا ہے کہ تذلیل اور تحقیر کیا ہوتی ہے۔ اس سے جو سلامت گزرے‘ پھر کسی کا خوف انہیں محسوس نہیں ہوسکتا۔ اے این پی والے بھی ایسے ہیں۔ رویہ زرداری صاحب کا بھی انتقامی ہے۔ دیہی سندھ میں ان کے مخالفین کا حال دیکھ کر آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی کراچی سے بدلہ لے رہے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے والے کئی طرح کے لوگ ہیں۔ کچھ تو پروپیگنڈہ کا شکار سادہ لوح، دوسرے پیپلزپارٹی کے لوگ، ایک لحاظ سے وہ حق بجانب ہیں کہ ان کے دیوتا کو فوجی حکمران نے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ بائیں بازو والے کہ سوویت یونین کی تباہی میں سب سے بڑا کردار مرحوم جنرل کا تھا۔ کچھ اصولی اختلاف رکھنے والے، جمہوریت کو ایک شریعت اور ابدی اصول کا جو درجہ دیتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ غلطیاں ان سے سرزد نہ ہوئی ہوں۔ جہادکا تصور ان پہ واضح نہ تھا۔ جہاد کرنے والوں کا ایک اخلاقی معیار اوراخلاقی اصول ہونے چاہئیں۔ قرآن کریم اور
اللہ کے آخری رسولؐ نے شرائط متعین کی ہیں۔ ان سے انحراف ہمیشہ تباہ کن ہو گا۔ وہ ایک مولوی کے فرزند تھے۔اپنے ذاتی تجربات کے باوجود جن کا کبھی ذکر کروں گا۔ مذہبی طبقات سے ان کا حسن ظن تمام نہ ہوا۔ ان کی سرپرستی کی اور معاشرے نے اس کے نتائج بھگتے۔ انہیں ادراک ہی نہ تھا کہ مذہبی طبقہ دین کے دور زوال میں ابھرتا ہے۔ اہمیت ظاہر نہیں‘ باطن کی ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ ملا کے بارے میں اقبال اور صوفیا کے طرز احساس اور تجزیے کو یکسر انہوںنے نظرانداز کردیا۔ باایں ہمہ سوویت یونین سے لڑنا ہی تھا۔ اس جارح کا خیر مقدم نہ کیا جاسکتا تھا، 13لاکھ افغانوں کو جس نے موت کی نیند سلا دیا۔ 13لاکھ کو اپاہج کر ڈالا اورہزاروں برس سے آباد دیہات ویران کر ڈالے۔ بعد میں آنے والے اکثر حکمرانوں کی طرح جنرل محمد ضیاء الحق کا رول ماڈل بھی شایداموی حکمران تھے۔ بھٹو میکیاولی سے متاثر تھے، ہٹلر اور مسولینی سے۔ نر گسیت کا مارا ہوا آدمی ۔ اگرچہ اس کی ذہانت و فطانت نے ایک عالم کو گروی رکھ لیا۔ ذاتی زندگی میں جنرل محمد ضیاء الحق ایک اجلے آدمی تھے۔ دھن دولت سے بے نیاز ‘عبادت گزار، تہجد کے عادی۔ ہر برس حجاز جایا کرتے۔ لوگ انہیں مسجد نبوی میں پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوادیکھتے۔خود کووہ خطاکار ہی سمجھتے تھے، بھٹو کی طرح تاریخ ساز نہیں۔ ملک ان کے عہد میں مضبوط تھا۔ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا جزیرہ۔ اساس اگرچہ بھٹو نے رکھی تھی مگر ایٹمی پروگرام ان کے عہد میں تکمیل کو پہنچا۔
جنرل محمد ضیاء الحق بے اولاد مرے۔ان کی سیاسی اور صحافتی بیوائیں انہیں بھول گئیں۔
فی الجملہ وہی بات ۔افراد کی طرح معاشرے کو قربانی کے بکرے درکار ہوتے ہیں۔ غلام اسحاق خان، جنرل محمد ضیاء الحق، سکندر مرزا، غلام محمد وغیرہ وغیرہ۔
اپنے گریباں میں جھانکنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ کسی شخص نہ کسی قوم اور قبیلے کو‘ حالانکہ یہی سب سے زیادہ ضروری ہے۔