تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وقت اپنے دامن میں کوئی چیز دائم چھپا نہیں رکھتا۔ شاید اسی لیے قرآن کریم گزرے زمانوں کو ایام اللہ کہتا ہے،اللہ کے دن!
جمعہ خان کی نئی کتاب باچا خان کی شخصیت اور کردارکے بارے میں ہے۔ ایک باب میری میز پر رکھا ہے‘ بے چینی ہے کہ مطالعہ کروں۔ مگر ضبط سے کام لے رہا ہوں۔ چند صفحات اس لیے پڑھ لئے کہ فلیپ لکھنا تھا۔ صفحات اگر تمام کر دیئے تومزید کا اضطراب سوا ہو جائے گا۔
چند ماہ قبل مصنف کی کتاب ''فریب ناتمام‘‘ ایک دوست نے عنایت کی تھی۔ پہلا باب زیادہ دلچسپ تھا۔ دیہی پختون معاشرے کی مختلف اور منفرد دنیا۔ فوراً بعد سیاسی مباحث کا آغاز ہوتا ہے۔ کتاب ایک دوسری زبان میں لکھی گئی۔ اُردو میں ترجمہ اگرچہ موزوں ہے‘ نک سک سے درست۔ ترجمانی میں مگر احساسات کی پوری تصویر کم ہی ابھرا کرتی ہے۔ مصنف کی یہ اولین کتاب تھی۔ قاری کے مزاج اور رجحانات کو ملحوظ رکھنے کی بجائے ،تاریخی حقائق کو ریکارڈ پر لانے کا خبط مصنف کے ذہن پر سوار تھا۔ غیر معمولی احتیاط کے پیش نظر‘ انہوں نے اپنی ڈائری کے صفحات نقل کئے۔ اس طرح وہ ایک روایتی تصنیف نہ رہی ، قدرے ادق ہو گئی ۔ جیسا کہ کتاب میں اور بعد ازاں ذاتی طور پر انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ادبار کے مہ و سال تھے ۔شاید اسی لیے زیادہ جم کر وہ کام نہ کر سکے۔
لاہور کے پبلشر اور مصنف کے درمیان تنازع چلا آتا تھا۔ 1500 روپے قیمت کے اعتبار سے‘ ہر کتاب پر 225 روپے رائلٹی مصنف کو ملنا چاہیے ۔ اندازہ یہ تھا کہ دس ہزار کی تعداد میں چھپ چکی۔ ساڑھے بائیس لاکھ روپے پبلشرکو ادا کرنا چاہئیں تھے، چند ہزار بھی بمشکل دئیے۔ روکنے کی کوشش کی گئی مگر بلااجازت وہ چھاپتا رہا۔ مصنف کی خواہش پر ایف آئی اے سے رابطہ کیا‘ جس کے سربراہ کھرے افسر ہیں۔ اوّل اوّل ایف آئی اے کا تفتیشی افسر گریز کرتا رہا۔ پشاور کے مصنف سے کیا غرض اسے ہوتی۔ لاہور کے پبلشنر سے معاملہ وہ طے کر رہا تھا۔پھر لاہور کا ایک بااثر اخبار نویس مسئلہ بن گیا۔''سفارش‘‘ قائداعظم نے کہا تھا ''ہمارے معاشرے کا ناسور ہے‘‘۔
اپنے ایک جیّد صحابیؓ کو رسول اکرم ﷺ قاضی بنا کر روانہ کرنے والے تھے۔ پوچھا کہ کس طرح فیصلے صادر کرو گے ؟ عرض کیا دونوں کا موقف سن کر یا رسول اللہؐ! قرآن کریم کی روشنی میں‘ وہ نہیں ، تو آپؐ کا قولِ مبارک۔ اس کا جواب آپؐ نے پسند فرمایا اور تحسین کی۔ ہمارا اندازِ فکر یہ ہے کہ ایک ہی فریق کی سن کرمائل بہ کرم ہو جاتے ہیں۔ ناانصافی ہوتی ہے تو ہوا کرے۔
متن کے اعتبار سے ''فریب ناتمام‘‘ ایک شاہکار تصنیف ہے۔ مصنف انگریزی ادب کا استاد ہے۔ باچا خان کی فکر کا پروردہ ہے۔ایک اکل کھرے پختون خاندان سے اس کا تعلق ہے۔ کاشتکار گھرانہ‘ دیہی زندگی اور اس کے حسد سے دوچار۔ مشکلات و مصائب میں گھرا‘ لیکن خوددار اور گردن فراز۔ تعلیم کے مہ و سال میں کمیونزم سے وہ متاثر ہوا کہ اس دور کی نیشنل عوامی پارٹی‘ جو اب عوامی نیشنل پارٹی کہلاتی ہے‘ کمیونسٹوں کی شکار گاہ تھی ۔
محمد حسین آزاد نے اپنے گرامی قدر استاد‘ بہادر شاہ ظفر کے امیر الشعراء محمد ابراہیم ذوقؔ کے بارے میں بتایا ہے کہ آخری درجے کے رومان پسند تھے۔ شاہی عنایات کے باوجود دھن دولت سے شغف نہ تھا۔ چھوٹے سے ایک مکان میں پیدا ہوئے‘ ساری عمر اسی میں بتا دی۔ استاد کو مخاطب کر کے غالبؔ نے طعنہ دیا تھا۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
غالبؔ سے کسی کا کیا موازنہ ۔واقعہ مگر یہ ہے کہ شاعر کی آبرو بہت تھی۔ بیس سال عمر تھی کہ تمام شاعروں کو پھلانگ کر‘ بادشاہ کے استاد ہو گئے تھے، جب کہ غالبؔ ابھی نہ ابھرے تھے ۔ انہی کے کیا خود مرزا غالب کے خسر‘ میر الٰہی بخش معروفؔ کے بھی۔ عمر میں شہر کا رئیس کئی برس نہیں‘ کئی عشرے ان سے بڑا تھا۔ اپنے استاد کو میاں ذوقؔ کہہ کر بات کیا کرتا۔
ذوقؔ کا مکان اتنا مختصر تھا کہ آسانی سے ایک چارپائی ہی بچھائی جا سکتی۔ عبادت گزار تھے۔دیر تک وظائف پڑھا کرتے۔گھنٹوں زیر آسماں گلی میں ٹہلتے رہتے۔ لکھا ہے : اگرچہ آہستہ پڑھتے مگر اکثر ایسے جوش دل سے پڑھتے کہ گویا سینہ پھٹ جائے گا۔
رومان پسندوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ دوسروں پر غیر معمولی اعتبار کی بنا پر اپنی وفاداری کی بہت قیمت وہ چکاتے ہیں۔ ؎
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
اہل خلوص کے لئے آخرکار مگر نجات لکھی گئی۔ روز ازل ابلیس نے یہ کہا کہ بندوں کو وہ اغوا کر لے گا‘ اوپر نیچے‘ آگے اور پیچھے سے انہیں گمراہ کرے گا۔ پروردگار نے تردید نہ کی اور فرمایا : میرے مخلص بندے مگر گمراہ نہ ہوں گے۔ اللہ سے خلوص کا رشتہ رکھنے والے۔ جیسا کہ اقبالؔ نے کہا : عبددیگر،عبدہ‘ چیزے دگر۔بندہ اور ہوتاہے اور اللہ کا بندہ کچھ اور ۔طالب علم کا خیال یہ ہے کہ خواہ مذہبی احساس نہ رکھتا ہو ، جس کے من میں کھوٹ نہ ہو‘ شرافت اور حیا جس میں باقی رہے ۔جھوٹ اور خیانت سے جو گریز کرے‘ آخرکارصراطِ مستقیم اس پہ روشن کر دی جاتی ہے ۔ مشکلات سے وہ گزرتا ہے مگر دل اس کا پتھر نہیں ہوتا۔ گداز سے بخشا جاتا ہے اور گداز بڑی دولت ہے۔ شکایتاً میرؔ صاحب نے کہا تھا ؎
آبلے کی طرح ٹھیس لگی اور پھوٹ بہے
دردمندی میں گئی ساری جوانی اپنی
پھوٹ بہنا نہیں ، ضبط کرنا ہوتا ہے ۔دھوکہ کھانا تکلیف دہ ہے مگر دھوکہ دینا شیطنت ہے۔ قرار اور انعام تو اطمینان قلب ہے ۔ سرگرداں بھی آدمی رہے تو اضطراب ایک طرح کی نعمت ہے‘ جس طرح خطا میں شرمندگی کا احساس۔
جمعہ خان کو اجمل خٹک مرحوم نے صوفی کا لقب دیا تھا۔ بڑی کٹھن زندگی انہوں نے گزاری ہے۔ ''فریب ناتمام‘‘ میں جس کی جھلک ہم دیکھتے ہیں۔ ریاکاری اور دریورزہ گری سے مگر وہ بچے رہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ نے کرم یہ کیا کہ فریب کاری ان پر کھل گئی۔ 1974ء سے 1992ء تک کے عرصے میں باچا خان کے خاندان‘ ان کے رفقا کار اور کابل کے کمیونسٹوں کو بہت قریب سے انہوں نے دیکھا۔ چیکوسلواکیہ اور سوویت یونین سمیت‘ کئی کمیونسٹ اور غیر کمیونسٹ ملکوں کا دورہ کیا، اپنے مشن اور مقصد کے لیے۔ہر طرح کی سیاسی زندگی کا تانا بانا انہوں نے تاک لیا۔ خود تنقیدی کا موقع ملا اور بالآخر تعصبات سے بہت کچھ رہائی انہوں نے پا لی۔ رزق حلال کھایا تھا۔ حیا اور شرافت کا سبق پڑھا تھا؛ چنانچہ منتقم مزاج اور مبالغہ آرا بن کر نہ ابھرے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے جان لیا کہ آخری تجزیے میں باچا خان اقتدار ہی کے آرزومندہیں....اورہر حال میں اپنے خاندان ہی کو عزیز رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ انگریزی ادب کے استاد رہے ۔ ادب بھی ایک خاص طرح کی بالیدگی پیدا کرتا ہے۔ انگریزی مزاج اخلاقی عظمت کو نہ پہنچ پایا مگر غیر جانبداری اس میں ایک منفرد اور عزیز قدر ہے۔
جمعہ خان کی نئی کتاب دو تین ہفتوں میں چھپ جائے گی۔ Ghaffar Khan, a reluctant nationalist۔ظاہر ہے کہ اساطیری عبدالغفار خان موضوع ہیں۔ برصغیر اور افغانستان میں تاریخ کا ہر طالب علم ایک سوال سے دوچار ہوا۔اس آدمی کی خیرہ کن مقبولیت اورپھر عبرتناک انجام کا سبب کیا تھا۔ جو اوراق میں نے پڑھے وہ اس سوال کا واضح جواب فراہم کرتے ہیں،علمی جواب اور بالکل واضح ۔اس عہد میں جب خوانین عامیوں سے بات تک نہ کرتے۔ ان کے گھروں اور حجروں پر باچا خان نے دستک دی۔ جواں سال خان اپنائیت سے بات کرتا اور کوئی صلہ نہ مانگتا۔ ان پر میزبانی کا بوجھ تک نہ ڈالتا۔ باہمی عناد سے دور رہنے کا مشورہ دیتا۔ سمجھاتا کہ یہ غیروں کی سازش ہے۔ایک معروف مربّی کے ساتھ مل کر ان کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ تعجب تب ہوا ، جب وہ کانگرس سے جا ملا اور مسلمانوں کے آزاد ملک کا سب سے بڑا حریف بن کر ابھرا ۔ وہ آدمی اگر بے لچک اور ضدی نہ ہوتا تو جس کے بہت طویل بازوئوں کو اللہ کا انعام اور ایک روحانی اشارہ سمجھا گیا تو شاید اس کی قبولیت مستقل ہوتی۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وقت اپنے دامن میں کوئی چیز دائم چھپا نہیں رکھتا۔ شاید اسی لیے قرآن کریم گزرے زمانوں کو ایام اللہ کہتا ہے،اللہ کے دن !