دھول اڑتی رہے، آگ سلگتی رہے، ویرانی پھیلتی چلی جائے گی، امیر بی بی کے دکھ کا مداوا اگر نہیں ہوتا۔ اس کائنات کا محور و مرکز انسان ہے۔ وہی اگر پست و پامال ہے تو سب کرّوفر، سب شان و شکوہ سے کیا حاصل؟
ایک جھلک سکرین پر دکھائی اور پھر غائب ہو گئی۔ سہون شریف کے سانحہ میں اس کے دو کمسن، پھول سے بچّے جاں سے گزر گئے۔ خود اس کا ایک بازو کاٹ دیا گیا۔ بیچارگی کی تصویر۔ سندھی زبان میں بات کرتے ہوئے، اس نے کہا: لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے علاج پر اٹھ گئے۔ اب مرہم پٹی کے لیے ہر روز دو سو روپے رشوت کے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ قرض لے کر یہ رقم صرف کی گئی۔ کوئی دروازہ نہیں کھلتا، کوئی سننے والا نہیں۔
سندھ حکومت نے جاں بحق ہونے والوں کے لیے ایک کروڑ روپے فی کس معاوضے کا جو فرمان جاری کیا تھا، اس کا کیا ہوا؟
ایک نوجوان کی داستان۔ چوبیس سال پہلے وہ ایف سی کالج لاہور کا طالبِ علم تھا، قتل کے الزام میں جب گرفتار کیا گیا۔ پرسوں پرلے روز سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا۔ اس نے پوچھا ہے: رائیگاں ربع صدی کا حساب کون دے گا؟ گیارہ سال ہائیکورٹ اور نو سال سپریم کورٹ میں یہ کیس کیوں پڑا رہا؟
ایک بزرگ وکیل سے پوچھا گیا کہ نظامِ انصاف کو موثر اور ثمر خیز بنانے کے لیے وسائل کہاں سے مہیا ہوں۔ انہوں نے کہا: میرا سر جھکا ہوا ہے اور میں شرمندہ ہوں۔ پھر انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ہر جج پہ دس لاکھ روپے ماہوار صرف ہوتے ہیں۔ چند سال قبل ان کے معاوضے وفاقی سیکرٹریوں اور جنرلوں کے برابر ہوا کرتے تھے، اب کئی گنا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو آڈٹ کی اجازت دینے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ ججوں کی غیر معمولی مراعات کے لیے روپیہ فراہم ہو سکتا ہے تو دوسری چیزوں کے لیے کیوں نہیں؟
اٹھارہ برس ہوتے ہیں، پسماندہ افریقی ملک سوڈان کا سفر کیا۔ یہ جاننے کے لیے کہ شدید غربت اور جنگ کے باوجود جرم کی گرم بازاری کیوں نہیں؟ معلوم ہوا کہ مقدمات کے فیصلے ہفتے بھر میں ہو جاتے ہیں۔ قانون کا شکنجہ مضبوط ہے، کوئی بچ نہیں سکتا۔
یہ دوسرے عرب ملکوں ایسا قدامت پسند مذہبی معاشرہ نہیں۔ بارہ دن میں فقط ایک خاتون کو نقاب پہنے دیکھا۔ دنیا بھر میں فوج میں خواتین کا تناسب سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔ آٹھ ڈالر روزانہ کے جس چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرا تھا، اس میں کام کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی تھی، عام گھریلو سی لڑکیاں۔ راہ چلتی ٹیکسی کار میں خواتین لفٹ مانگ لیتی ہیں۔ انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کوئی نہیں دیکھتا۔ شوخی اور شرارت معاشرے کا مزاج نہیں۔ انسانی فطرت ہر کہیں ایک سی ہوتی ہے۔ جرم سرزد ہوتے ہیں۔ مجرم مگر بے خوف نہیں۔ دریا کنارے ایک تنہا خاتون کو میں نے چھوٹا سا ہوٹل چلاتے دیکھا۔ طویل قامت، خوش رو، با وقار اور با حیا۔ دریائے نیل کے پانیوں پر ستارے جھلملاتے ہیں تو خلق امڈی چلی آتی ہے۔ اکیلا دکیلا گاہک سہ پہر کو یہاں نہیں آتا۔ وہ محفوظ و مامون، مسافر اور سیاح بھی۔
کچھ پاکستانی دوست مل گئے۔ ایک دن وسطِ دریا میں بنے رویرا ریستوران کی طرف جاتے، ڈیرہ اسمٰعیل خان کے اس باسی نے کہا: رکیے، مجھے گورنر سے ملنا ہے۔ دس پندرہ منٹ میں وہ لوٹ آیا۔ معلوم ہوا، کوئی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہی نہیں، جس روز واپسی تھی، راہ میں ایک وفاقی وزیر کو ملنے کے لیے رکا۔ بڑا دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔ راہداریوں میں شور و غوغا اور نہ دربان و دروغے۔ اس طویل قامت بھلے آدمی نے پوچھا: گرم یا ٹھنڈا؟ دو اڑھائی منٹ میں سرخ رنگ کا قہوہ اس نے سامنے رکھا اور رسان سے گفتگو کرنے لگا۔
زندگی کو ہم نے الجھا لیا ہے۔ شاندار مکان، گاڑیاں، پُرتکلف لباس اور کھانے، ریا اور نمود و نمائش۔ سوڈان کے صدر کی بیگم گاہے بسوں میں سفر کرتی، تنہا مارکیٹ چلی جاتی تھی۔ خود صدر صاحب کا حال یہ کہ تاخیر ہو جائے تو تقریب میں پچھلی صف میں بیٹھ جاتے۔ حکمران طبقہ سادہ سی زندگی بسر کرتا ہے۔
پانچ برس ہوتے ہیں، بھارت کے صوبہ بہار میں عشروں کی لاقانونیت کا خاتمہ کرنے والوں سے ملاقات ہوئی۔ وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار اور ان کے رفقا۔ عام سے لوگ، معمولی لباس۔ ان پر مگر یہ واضح تھا کہ حکومت کا کام کیا ہے اور کیسے وہ چلائی جاتی ہے۔ گھنٹہ بھر کی گفتگو میں انہوں نے واضح کر دیا کہ نظم و نسق کیونکر قائم ہوا۔ سرکاری افسروں اور سیاستدانوں میں کرپشن کا خاتمہ کن تدابیر سے ہو سکا۔ عدالتی فیصلوں میں تاخیر کا سدّباب کرنے کی کیا حکمتِ عملی اپنائی۔ سال بھر میں اکثر خرابیاں ختم ہو گئیں... بزرگ وکیل نے، اوپر جس کا ذکر ہے، یہ کہا: دنیا میں کوئی درد ایسا نہیں، جس کی دوا نہ ہو ۔
سہون شریف کی امیر بی بی کی تصویر کل شب سے آنکھوں کے سامنے ہے اور ٹلتی نہیں۔ یا اللہ، کب وہ عدل کے سزاوار ہو ں گے، کب ان کے لیے دوا دارو کا اہتمام ہو گا۔ درسگاہوں کے دروازے کب ان کے بچّوں پر کھلیں گے۔ کب محنت مزدوری کے مواقع ملیں گے۔ کب پیٹ بھر کے وہ کھانا کھا سکیں گے۔ کب سایہ میسر ہو گا۔ کب سکھ کی نیند وہ سو سکیں گے؟
ہر چیز لیڈروں کو یاد ہے، وہی کیوں نہیں۔ اللہ کے مفلس و درماندہ بندے، اگر کسی نظام کا محور و مرکز نہیں تو وہ نظام کیا ہے؟ سونا اگلنے والی دھرتی، جس پہ دریا بہتے ہیں۔ جس کے بطن میں کھربوں ڈالر کی معدنیات پوشیدہ ہیں۔ جو دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے۔ ان بنیادی امراض سے وہ نمٹ کیوں نہیں سکتی، جن کے نسخے معلوم ہیں۔
تحریکِ انصاف کے ایک معزز رہنما سے کل شب یہ پوچھا: حکومت سنبھالنے کی کیا تیاری آپ نے کی ہے؟ ریل کے وہ وفاقی وزیر رہ چکے۔ گزارش کی: تین چار مزید ہوش مندوں کو شامل کرکے چند ماہ میں خستہ حال ادارے کو سنوارنے کا منصوبہ آپ مکمل کر سکتے ہیں۔ تھنک ٹینک اسی کو کہتے ہیں۔ سٹیل مل، واپڈا، پی آئی اے، ان کا قیام و قرار یا سلیقے سے نجکاری۔ زراعت، بجلی، پولیس، منی لانڈرنگ کا خاتمہ، سول سروس کی تشکیلِ نو اور عدلیہ۔ ان سب کے لیے چھوٹے چھوٹے تھنک ٹینک ہی تو درکار ہیں اور اس کے سوا پارٹی کی تنظیمِ نو۔ سال بھر کا عرصہ موجود ہے۔ کیوں ابھی سے آغازِ کار آپ نہیں کرتے۔ جنّوں کا نہیں، یہ آدمیوں کا کام ہے۔ عمران خان کی ترجیح تھی تو صوبے کی پولیس ناصر درانی نے استری کر ڈالی۔ بیس برس سے اسے میں جانتا ہوں۔ ہرگز کوئی سکالر یا جینئس نہیں مگر نیک طینت اور صاف ستھرا۔ اصولوں کا پابند اور ان کا شناور۔ اس قدر احترام اس نے کمایا ہے کہ رشک آتا ہے۔ پٹواری کے عذاب سے بھی چھٹکارا دلایا۔ ہسپتال اور سکول بھی کچھ بہتر کیے۔ ساٹھ ستر کروڑ درخت بھی گاڑ دیے۔ اس کے باوجود کہ ٹیم کمزور تھی، بہت کمزور۔
قومی سیاست میں چار برس تحریکِ انصاف نے مگر احتجاج میں رائیگاں کر دیے۔ زندگی علم، ریاضت اور تگ و تاز سے سنورتی ہے۔ معاف کیجیے، حریفوں کو لتاڑتے رہنا اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں لگے رہنا چھوکروں کا کام ہے، لیڈروں کا نہیں۔
دھول اڑتی رہے، آگ سلگتی رہے، ویرانی پھیلتی چلی جائے گی، امیر بی بی کے دکھ کا مداوا اگر نہیں ہوتا۔ اس کائنات کا محور و مرکز انسان ہے۔ وہی اگر پست و پامال ہے تو سب کرّوفر، سب شان و شکوہ سے کیا حاصل؟