"HRC" (space) message & send to 7575

ہم مجبور‘ہم تماشائی

المناک اور حیرت انگیز حد تک ہم قدامت پسند ہیں ۔ماضی میں زندہ اور مایوسی کا شکار،لیڈروں پہ انحصار کرنے والے ۔ کوئی شہسوار نہ آئے گا۔ آئے بھی تو چلا جاتاہے ۔ معاشروں کے مستقبل کا انحصار ان کی تربیت پہ ہوتاہے ۔ یہ نکتہ ہم پہ کیوں نہیں کھلتا ؟
افواہ ہے کہ فیصل صالح حیات کی طرح ، شاہ محمود قریشی بھی پیپلزپارٹی میں چلے جائیں گے ۔ ابھی سے الیکشن کی تیاری زرداری صاحب نے شروع کر دی ہے اور شکار ڈھونڈ رہے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی ہوش مند آدمی ہیں ۔شایدوہ حماقت کا ارتکاب نہ کریں ۔ تحریکِ انصاف کے ووٹ پیپلزپارٹی سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ان کی فتح کا امکان کم ہو جائے گا۔پی ٹی آئی کو فوری طور پر دھچکا ضرور لگے گا لیکن بتدریج زخم مندمل ہو جائے گا۔ شاہ محمود کو زیادہ نقصان ہوگا۔ 
پیپلز پارٹی سے بے شک ان کے مراسم قدیم ہیں ۔ زرداری صاحب کے وہ وزیرِ خارجہ رہے ۔ 30اکتوبر2011ء کو لاہور میں عمران خان کے تاریخی جلسہ ء عام کے بعد پی ٹی آئی سے وابستہ ہونے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ پیپلزپارٹی سے ان کی ناراضی کی اصل وجہ مقامی حریف یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ تھی ۔ وہ ٹیم کے کھلاڑی نہیں، الگ کھیلتے ہیں ۔ تحریکِ انصاف میں شامل ہوتے ہی اپنا گروپ بنانے کی کوشش انہوں نے شروع کر دی تھی ۔
یاد ہے کہ کانوں میں ٹونٹیاں لگائے، عمران خان بی بی سی کو انٹرویو دینے کے لیے تیار تھے ، جب میں بنی گالہ پہنچا۔ تب ان سے کچھ زیادہ ہمدردی تھی ۔ انہیں برآمدے میں لے گیا اور شاہ محمود قریشی کے طرزِ عمل پہ بات کی ۔ خان نے کہا : کون سا گروپ ، ایک قومی اسمبلی اور ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ ان کا استحقاق ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں۔ شاہ محمود مگر اپنی روش پر چلتے رہے ۔ حفیظ اللہ خان کے ذریعے یہ شرط انہوں نے منوالی تھی کہ مستقل طور پر پارٹی کے وہ دوسرے سب سے اہم لیڈر ہوں گے ۔ تمام جلسوں میں عمران خان سے پہلے خطاب کیا کریں گے ۔ شاہ صاحب طویل اور سطحی تقریر کے عادی ہیں ، تیاری کے بغیر چلتے ہوئے فقرے ۔ 
پیپلزپارٹی میں گیلانی سے چڑ تھی تو پی ٹی آئی میں جاوید ہاشمی سے ۔ جماعت میں ان کے شامل ہونے کا موقعہ آیا تو کراچی میں پہلے بڑے اجتماع کا دن تھا۔ لاہو رکے ولولہ انگیز جلسے کے بعد بہت سی امیدیں اس دن سے وابستہ تھیں ۔ الطاف حسین کی وحشیانہ سیاست سے بیزار اہلِ کراچی نے بہت توقعات ان سے وابستہ کر لی تھیں۔ یہ الگ بات کہ بعد ازاں پارٹی کے مقامی لیڈروں کی باہمی آویزش اور کمزور تنظیم کے سبب تمام امیدیں خاک میں مل گئیں ۔ 
ملتان سے جاوید ہاشمی روانہ ہوئے تو طے پایا کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر عمران خان ان کا استقبال کریں گے ۔ شاہ محمود ان کے دامن گیر ہو گئے ۔ انہیں محسوس ہوا کہ دبنگ آدمی کا سواگت بھرپور ہوا تو ان کی شان گھٹ جائے گی ۔ منت سماجت کارگر نہ ہوئی تو آنکھوں میں آنسو بھرے ، کپتان سے اس نے کہا : یہ میری عزت کا مسئلہ ہے ۔ 
مستقل طور پر یہ مسئلہ عمران خان کو درپیش رہا۔ اس روز سبھی کی فرمائش یہ تھی کہ عمران خان کے خطاب سے قبل جاوید ہاشمی تقریر کریں اور جم کر۔ ٹیلی ویژن سے براہِ راست نشر ہونے والا خطاب ملک بھر میں سنا جائے گا۔ غیر معمولی تاثر اس سے پیداہو سکتاہے ۔ 
اجتماع گاہ بھر گئی ۔ سامعین بے تاب ہونے لگے مگر جاوید ہاشمی نہ پہنچے ۔ حفیظ اللہ خان کی گاڑی میں وہ گھوم رہے تھے ۔ حفیظ اللہ کا اصرار تھا کہ جاوید ہاشمی کو نمایاں ہونے کا موقع دیاجائے ۔ ادھر عمران خان وعدے پر قائم تھے ، جو خود انہوں نے حفیظ اللہ کی موجودگی میں کیا تھا۔ آخر کاروہ آئے ۔ سخت غصے میں تھے اور انہوں نے کہا : میں نے سکون آور دوا کھائی ہے ۔ میں نے کہا: ایک گولی اور کھا لو۔ حفیظ اللہ بہت ہی سخت گیر آدمی ہے مگر نجانے کیوں میری بات گوارا کرتا ہے ۔ جاوید ہاشمی کو شاہ محمود سے پہلے خطاب کرنا پڑا ، پذیرائی بہرحال بہت رہی ۔ پھر شاہ محمود بہت دیر تک مائیک سے چمٹے رہے ۔ 
عدم تحفظ کا شدید احساس ۔۔۔یہ ہے ہمارے لیڈر کا مسئلہ اور یہی ہماری قوم کا ہے ۔ اقوام کی عادات صدیوں میں تشکیل پاتی اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوتیں ۔ مسلسل تعلیم ، تلقین اور تبلیغ کے ذریعے ہی معاشرے کا مزاج بہتر بنایا جا سکتاہے ۔ مثالی کرداروں کے بل پر ، جیسے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ تھے۔مطالعہ اسی لیے ضروری ہے کہ کامران تجربات سے روشناس کرتاہے ۔ تعلیم ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ اہلِ علم کی صحبت ۔ جب کوئی سوال اٹھتا ہے تو مسلمان قرآنِ کریم کی طرف دیکھتا ہے یا سرورِ کونین ؐ کی سیرت کو ۔ وہ تاریخ سے پوچھتا ہے اور دوسری اقوام سے سیکھتا ہے ۔ محض ماحول کے رجحان میں فیصلے صادر نہیں کرتا۔ 
سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا قرینہ یہ تھا کہ دانائوں سے مشورہ کرتے مثلاً سیدنا علی ؓ ، مثلاً جناب عبد اللہ بن مسعودؓ ۔ ایک طے شدہ نظام الاوقات کے تحت، دور دور تک پھیلے صوبوں سے وفود آیا کرتے ۔ مثلاً بصرہ ، شام ،فسطاط اور کوفہ سے،عام طور پہ دس افراد پہ مشتمل ۔ لشکر کے سالار ، منتظمین ، اہلِ علم اور خزانچی۔ صوبوں کے حالات پر ان سے سوالات کیے جاتے ۔ مفلسوں اور ضرورت مندوں کے بارے میں ۔ غلّے کی فراہمی اور اسلحے کی رسد ۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے لکھا ہے کہ 26نئے ادارے فاروقی عہد میں قائم ہوئے ۔ ملٹری انٹیلی جنس ، خزانہ اور سب سے بڑھ کر سوشل سکیورٹی۔ ملک بھر کی آبادی کا اندراج ، ضرورت مندوں کی فہرستیں ۔ وہ مردانِ کار کا انتخاب کرتے ۔ ہمیشہ فصیح اور ذہین لوگوں کی تلاش میں رہتے ۔ انہیں تلقین کرتے ، ان کے لیے کوئی مصروفیت ڈھونڈتے ۔ معاشرے کا رخ یہی لوگ تومتعین کرتے ہیں ۔ 
رفتہ رفتہ سب کچھ ہم نے کھو دیا۔ ایمان اور علم کا ورثہ ہی نہیں ۔ یہ بھی بھول گئے کہ ہر کام کے لیے اہل افراد ہوتے ہیں ۔ جس ستون پہ معاشرہ استوار رہتاہے ، وہ اس کے ادارے ہوتے ہیں ۔ قومی نمائندے ووٹ سے چنے جاتے ہیں ۔ مخصوص مناصب اور پیشوں کے مگر ماہرین ہوتے ہیں ، Technocrats۔ جنرل پرویز مشرف نے اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داریاں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو سونپیں تو ایک انقلاب سا برپا ہو گیا۔ افراد ہی ادارے بناتے ہیں لیکن پھر دوام اداروں کو ہوتاہے ۔ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے ساتھ ، خیرہ کن کارناموں کا تسلسل ٹوٹ نہ جانا چاہئیے ۔ عمران خان ایک دن چلے جائیں گے ۔ شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی باقی رہنی چاہئیے ۔ ایدھی فائونڈیشن ایک بے لوث روح کی یادگار ہے ، ہمیشہ جگمگاسکتی ہے ۔ ۔۔ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ 
حیرت ہے کہ سیاسی پارٹیاں تھنک ٹینک اور ادارے کیوںتشکیل نہیں دیتیں ۔ اپنی ساری توانائی حکمران پارٹی کو اٹھا پھینکنے پر کیوں لگا دیتی ہیں ۔ تعلیم کا حال ابتر ہے ۔ کیا یہ ایک معمہ ہے ، جو سلجھایا نہیںجا سکتا ؟کتنے ماہرینِ تعلیم ہیں اور کتنے بے شمار تعلیمی ادارے ۔ ان کی مدد سے سرکاری سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا مطالعہ کیوں نہیں کیا جا تا؟ ایک وسیع تر، قابلِ عمل منصوبہ کیوں نہیں بنایا جاتا۔ تمام بیمار ادارے ، ہسپتال ، سول سروس، صنعت وغیرہ وغیرہ۔ زراعت کو عہدِ جدید سے ہم آہنگ کرنے کے قرینے ۔ عمران خان جہانگیر ترین کو یہ ذمہ داری کیوں نہیں سونپتے ، شاہ محمود جن سے نالاں رہتے ہیں ؟ چین ،کوریا، جاپان ، جرمنی ، ملائیشیا اور ترکی ، ادبار سے دو چار کتنی ہی قومیں دلدل سے نکل گئیں ، ہم تماشائی بنے کھڑے ہیں ۔ مجبور ، لاچار اور بے کس۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ترک ، چینی اور سنگا پور والے ہم سے زیادہ ذہین ہیں اور نہ ریاضت کیش ۔ 
المناک اور حیرت انگیز حد تک ہم قدامت پسند ہیں ۔ماضی میں زندہ اور مایوسی کا شکار،لیڈروں پہ انحصار کرنے والے ۔ کوئی شہسوار نہ آئے گا۔ آئے بھی تو چلا جاتاہے ۔ معاشروں کے مستقبل کا انحصار ان کی تربیت پہ ہوتاہے ۔ یہ نکتہ ہم پہ کیوں نہیں کھلتا ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں