قرآئن یہی کہتے ہیں شریف اور زرداری خاندان‘ تحلیل ہونے والے ہیں۔ ؎
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
تاثر یہ ہے کہ شریف اور زرداری خاندان کی سیاسی وراثت باقی رہے گی۔ ان کی اگلی نسلیں اس سرزمین پر حکومت کرتی رہیں گی۔شریف خاندان کا سیاسی سرمایہ ان کا اپنا ہے۔ ان کے اپنے عزم اور تگ و تازکا حاصل۔ زرداری صاحب نے سب کچھ‘ جس پہ انہیں ناز بہت ہے‘ بھٹو خاندان سے حاصل کیا ہے۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو سے ان کا تعلق نہ ہوتا تو ملک کے سیاسی افق پر وہ معتبر نہ ہوتے۔
کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف بھی جنرل محمد ضیاء الحق کی عطا ہیں۔ جزوی طور پر یہ دعویٰ درست ہے۔ نواز شریف کا کارنامہ ہے کہ 17اگست1988ء کے بعد بھی جب جنرلوں کی ایک پوری کھیپ‘ حادثے کا شکار ہو گئی‘ افواجِ پاکستان کی قیادت کا اعتماد انہیں حاصل رہا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل حمید گل ان کی پشت پر کھڑے رہے۔ یہ تاثر دینے میں‘ نواز شریف کامیاب رہے کہ وہ ان سے‘ ان کے عزائم سے ہم آہنگ رہیں گے۔ اس زمانے میں بھارت اور افغانستان کے باب میں‘ٹھیک وہی کچھ وہ کہا کرتے‘ جو یہ لوگ سننا چاہتے۔ اعجاز الحق باپ کی وراثت سنبھالنے کے لیے پرعزم تھے۔ اس وقت بعض کا خیال یہ تھا کہ ایسا کرنے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ جنرل کی شہادت کے بعد‘ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسۂ عام کا اہتمام کیا گیا ۔ اعجاز الحق کے علاوہ‘ سردار عبدالقیوم خاں‘ حسین حقانی اور مجیب الرحمن شامی نے‘ جس سے خطاب کیا۔ انہی دنوں ایک تجزیے میں‘ حقانی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ایک جنرل کی وراثت جس طرح باقی رہی‘ خالدہ ضیاء نے جس کا علم اٹھا لیا، جنرل محمد ضیاء الحق کا نام بھی گونجتا رہے گا۔ پے درپے مجیب الرحمن شامی نے بھی اپنے کئی کالموںمیں جنرل اور ان کے فرزند کی شخصیات کو اجاگر کیا۔ فوجی قیادت کا فیصلہ دوسرا تھا۔ دونوں ممتاز جنرل، میاں محمد نوازشریف کے ساتھ مل کر اقتدار کا لطف اٹھانے کے آرزو مند تھے۔ بظاہر وہ پاکستان کا تشخص اور اس کی نظریاتی سمت استوار رکھنے کے خواہاں دکھای دیئے۔ دلوں اور دماغوں میں دراصل کون سے جذبے کارفرما ہوتے ہیں۔ بعض اوقات آدمی خود بھی ادراک نہیں کرسکتا۔ ایثار کیشی اور مسلسل خود تنقیدی کے نتیجے میں جب تک انکسار اس کی فطرت ثانیہ نہ ہو جائے۔ ؎
براہمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنالیتی ہے تصویریں
ارشاد یہ ہے کہ من عرف نفسہ،فقد عرف ربّہ۔
خود کو جس نے پہچان لیا، اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ اپنی شناخت کے لیے اپنی خامیوں پر غور کرنا ہوتا ہے، محاسن پر نہیں، ہمارے لیڈر، میاں صاحب، زرداری صاحب اور جناب کپتان، جس کے عادی ہیں۔ ڈھنگ کا کوئی کام اگر وہ کرتے ہیں تو اس طرح کہ گویا قوم پر کوئی احسان کیا ہے۔ آخرت میں نہیں، دنیا ہی میںاس کا اجر ملناچاہیے۔ پھر یہ تاثر بھی وہ دیتے ہیںکہ اگر وہ نہ ہوں ، قوم بھٹک جائے، برباد ہو جائے۔
چند دن قبل عمران خان نے یہ کہا!''ٹکٹ میں خود دوں گا‘‘۔ زرداری نے جتلایا کہ وہ ان کے فرزند ارجمند اور صاحب زادیاں میدان میں اتریں گی تومخالفین دبک کر رہ جائیں گے۔
کیا ہم عہدِ قدیم کے وہ مزارعین ہیں، جاگیرداروں کی باہمی جنگوں میں، جو زنجیریں پہن کر میدان میں اترا کرتے؟۔ کیا ہماری نفسیات شاہی رعایا کی نفسیات ہے۔ اگر آپ میاں صاحب، زرداری صاحب اور کپتان کے قریبی ساتھیوں کو دیکھیں تواس تاثر کی تصدیق ہوتی ہے۔ خود کو وہ خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ دوسروں سے بہتر اور برتر۔ یہی وہ چیز ہے‘ اقبال نے جسے تمیزِ بندہ و آقا قرار دیا اور یہ کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا طریق
اقبالؔ یہ بھی کہتے ہیں:
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر/کہ دنیا میں فقط مردان ِ حُر کی آنکھ ہے بینا
اپنے بیٹوں کو مائوں نے آزاد جنا تھا‘ تم کب سے انہیں غلام بنانے لگے۔ عمر فاروقِ اعظمؓ نے یہ جملہ جناب عمر و بن العاصؓ سے کہا تھا یا شاید امیر معاویہؓ سے‘ جو مسلم تاریخ میں‘ سمجھوتے کی پہلی علامت ہیں۔
اس بارے میں اُمت کو تنبیہ کر دیا گیا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اپنے عمل سے بھی۔ غلاموں کو جنہوں نے آزاد کر دینے کا سلسلہ شروع کیا‘ مراتب بخشے کتاب میں یہ کہا گیا تھا : بے شک مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ یزید کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کاروبارِ حکمرانی میں‘ اولین اور عظیم انحراف تھا۔ روحانی میراث مادی ہو گئی۔ غلبے کی جبلّی خواہش نے ایثار اور امانت کی جگہ لے لی۔ علماء کا ایک طبقہ‘ امیرؓ کے باب میں حسن ظن سے کام لینے کا قائل ہے۔ ملوکیت کی صدیوں میں پلے بڑھے اہلِ شام شاید حکمران کی اولاد کے سوا کسی کو قبول نہ کرتے۔عشروں بعد‘ عمر بن عبدالعزیزؓ کیسے قبول کرلیا؟ کس طرح ہر چیز کو انہوں نے بدل ڈالا ؟ حتیٰ کہ عہدِ فاروقی جیسی عظمت و وسعت لوٹ آئی۔
ایک حکمران کے بعد‘ اس کی اولاد ہی کو اگر اقتدار ملتا ہے تو کیا وہ بادشاہت کی ہی ایک شکل نہ ہوگی۔ محض شخصیت پرستی نہیں‘ اس سے بڑھ کر۔ مستقل طور پر بے بسی اور محکومی اختیار کرنے کا رویہ۔ آدمی پھر آزاد اور خود مختار کیسے رہا؟۔ پھر وہ پوری طرح نشو و نما پانے کے قابل بھی کیونکر رہے گا۔ بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آتی ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ مشرق اور مغرب کا بنیادی فرق یہی ہے ۔ فقط تعلیم کا فروغ اور اور نفاذ قانون ہی نہیں۔ عظیم سائنس دان‘ معالج ‘انجینئر اور تخلیق کار ایسے ہی ماحول میں جنم لیتے ہیں۔ خود ہماری اپنی سرگزشت میں یہ شہادت موجود ہے۔ عہدِ رسالت مآب اور خلفائِ راشدین کے عہد میں‘ انسانی تاریخ کے اعلیٰ ترین سالار‘ منتظم اور علماء نے جنم لیا۔ یہ سلسلہ بعد کی صدیوں میں بھی جاری رہا۔ اس کے باوجود کہ یہ ملوکیت کا دور ہے۔ مغرب کے برعکس جو تاریک عہد میں جی رہا تھا‘ مسلمان معاشروں میں آزادی نسبتاً زیادہ تھی۔ خدا ترسی اور خیرات‘ حصول علم اور پابندی کے بغیر ‘ کاروبار کی آزادی ۔ جاگیردار بھی تھے مگر ایسے بھی طاقتور نہیں کہ باقی مزارعین کی زندگیاں جئیں۔ انتہا یہ ہے کہ خاندانی غلاموں کی تربیت اور ان کے فروغ پر توجہ دی جاتی۔ ان میں سے بعض حکمران ہو گئے۔ ہندوستان کا خاندان غلاماں اس کا ایک مظہر ہے۔ التمش ایسا جلیل القدر حکمران‘ جس نے جنا۔ سرزمین مصر و شام میں رکن الدین بیبرس دوسرا‘ تاتاریوں کی یلغار جس نے روک دی۔ پاکستان کی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دس برس میں خلق خدا نسبتاً اچھے حکمران سے بھی تنگ آجاتی ہے ۔بھٹو خاندان کا اقتدار اس لیے دراز ہوا کہ اول بھٹو کو پھانسی دے دی گئی‘ پھر ان کی صاحبزادی ‘ بے نظیر قتل کر دی گئیں۔ شریفوں کا اس لیے کہ ہر بار مارشل لاء کے بل پر حکومت ان سے واپس لی گئی۔ترس کا جذبہ جس پر جنم لیتا ہے۔
اب کی بار ایک طویل عرصہ انہیں ملا ہے ۔ 2018ء میں الیکشن جب ہوں گے‘ پنجاب میں دس اور مرکز میں پانچ سال بیت چکے ہوں گے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں صنعت کاری کی بنیاد پڑی۔ پاکستان کو پہلی بار دنیا میں اہمیت ملی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے بھارت کو ٹھکانے پر رکھا۔ دانشوروں کی بات دوسری ہے وگرنہ ضیاء الحق افغان پالیسی کی حمایت بالعموم 70فیصد سے زیادہ رہی۔ غربت کم ہوئی‘ زکوٰۃ کا نظام قائم ہوا اور مہنگائی قابو میں رہی۔ جنرل مشرف کا عہد بھی معاشی استحکام کا عہد تھا۔ ان کا اصل کارنامہ ابھی منظر پر نہیں آیا۔ دفاعی تحقیق کے میدان میں ایسے بھی کچھ کام ہوئے‘ مستقبل ہی میں جو منظر پر آئیں گے ۔ایک عشرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی خلق ان سے اکتا گئی۔ ابھی سے یہ کہنا مشکل ہے کہ 2018کے الیکشن میں کیا ہو گا۔ فرض کیجیے سندھ میں زرداری اور پنجاب میں شریف خاندان جیت بھی جائیں تو کیا وہ باقی رہیں گے؟۔
مشکل ہے۔خلق خد کی اکتاہٹ ایک اہم پہلو ہے۔ اپنے حکمرانوں سے عوام کی نفرت ہوتی ہے ‘بالآخر جو متشکّل ہو جاتی ہے
قرآئن یہی کہتے ہیں شریف اور زرداری خاندان‘ تحلیل ہونے والے ہیں۔ ؎
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ