کون جانتا ہے کہ آنے والا پل آدمی کے لیے کیا لائے گا۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ پابندی کب آ پڑے گی اور آزادی کب تک نصیب رہے گی۔ بارہ سو برس ہوتے ہیں، بغداد کے ایک عطار نے اس سوال پہ غور کیا اور دائمی آزادی کا نسخہ ڈھونڈ نکالا۔ اس آدمی کا نام جنید تھا اور اسے سیدالطائفہ کہا جاتا ہے۔ اہلِ صفا کے قبیلے کا سردار۔ رسولِ اکرمؐ کے بعد اہلِ علم میں جنید وہ پہلا آدمی تھا، جس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا کہ اس پر بیعت کی جائے ورنہ تو یہ دربار کا شیوہ تھا۔ فرق یہ ہے کہ صوفی کی بیعت اخلاقی تربیت کے لیے تھی، کارِ حکمرانی کے لیے نہیں۔ جنید ایسے لوگ تھے، جن کی وجہ سے ایک اصطلاح وجود میں آئی ''التصوف الحریہ‘‘ تصوف آزادی ہے۔ آٹھویں پارے کی ایک آیت ہے، ختم المرسلینؐ کے بارے میں جہاں ارشاد یہ ہے ''اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے، (پیغمبرؐ ) ان کو دور کرتے ہیں‘‘۔ آدمی غلام چلا آتا تھا۔ بادشاہوں، جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کا، حکومتوں اور ایوانوں کا۔ سرکار ؐ نے اسے آزاد کر دیا۔ آپؐ کے وصال کو مگر چند عشرے ہی گزرے تھے کہ دربار پھر سے آراستہ ہونے لگے۔ برسرِ دربار اہلِ حَکم پھر سے کھڑکنے لگے۔
جنگِ جمل اور جنگِ صفین کے بعد اہلِ علم نے اپنا راستہ الگ کر لیا تھا۔ پورے انہماک اور مکمل غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر وہ پہنچے کہ نجات اقتدار کی کشمکش سے گریز کے علاوہ ذاتی اصلاح کی پیہم جستجو پر منحصر ہے۔ مزاروں پہ تو مجاور بیٹھے ہیں، استخواں فروش۔ اپنے اجداد کی پارسائی اور ان کی ہڈیاں بیچنے والے۔ صوفی خلق کے سامنے کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ عطا کرتا ہے، وہ مانگتا نہیں۔ دوسروں کو ہمیشہ وہ رعایت دے سکتا ہے، اپنے آپ کو کبھی نہیں۔
صوفیوں کی تو بات ہی دوسری ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کی صحبت اور سائے میں بیٹھنے والے بھی رفتہ رفتہ متوکل اور بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ دنیا جہان کی فکروں سے آزاد۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: الغنا غن النفس۔ غنی وہ ہے، جو ادنیٰ خواہشات سے رہائی پا لے۔ آدمی اپنی خواہشات کا قیدی ہے۔ مبتلا زمانوں کی تو بات ہی دوسری ہے۔ خود سرکارؐ کے عہد میں ایک شخص ایسا تھا، جس نے ایک خاتون کی خاطر مکّہ سے مدینہ ہجرت کی تھی۔ یہ الگ بات کہ ہم عصر عربوں کی باریک بینی اور فصاحت نے اسے مہاجرِ امِّ سلمہ کا لقب دیا۔ عمر بھر وہ اسی تہمت کے ساتھ جیا۔
دو ماہ ہوتے ہیں، کوپن ہیگن سے کسی نے فون کیا۔ کہا کہ سکینڈے نیویا، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کے پاکستانی آپ کو یاد کرتے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ دور دور کے دیار و امصار سے آئے دن اب ایسی فرمائشیں موصول ہوتی ہیں۔ اس پر مجھے بحریہ ٹائون کے ملک ریاض یاد آئے۔ کھرب پتی جب نہ ہوئے تھے تو میرے جیسے چند دوستوں کے ساتھ گپ لگایا کرتے۔ ایک دن کہا: جب بھوک بہت لگا کرتی تو جیب میں پیسے نہ ہوتے تھے۔ اب پیسے بہت ہیں اور بھوک نہیں۔
عام طور سے ایسی فرمائشوں پہ مودبانہ معذرت ہی پیش کی جاتی ہے۔ اب کی بار وعدہ کر لیا۔ دو وجوہ کی بنا پر۔ ایک تو سری لنکا سے آئے چند دن ہی بیتے تھے۔ ایک عجیب ملک جو پورے کا پورا گویا باغوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے اس دعوت میں اپنائیت بہت تھی، تپاک بہت۔ گویا کوئی ہمدمِ دیرینہ ہو۔ برسوں بلکہ عشروں کی رفاقت ہو۔ اپنا نام انہوں نے طارق میاں بتایا۔ کہا کہ پاکستان میں خصوصی شہریوں یعنی معذوروں کے لیے ''سکون‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے۔ اس کے سالانہ اجلاس میں آئیے اور پاکستان کا احوال بیان کیجیے۔ ناروے کے بعد پڑوس کے ممالک میں۔ وعدہ کر لیا۔ تب اندازہ نہ تھا کہ سخت تکان اور افراتفری میں ایک دن اس دیار کو روانہ ہونا پڑے گا، جسے کبھی نہیں دیکھا۔ جس کے بارے میں کوئی تجسس کبھی نہ تھا؛ لہٰذا معلومات بھی نہیں۔ ناروے کے باب میں احمد ندیم قاسمی کا ایک جملہ یاد ہے ''اس ملک کا نام ایک دن ''کھاروے‘‘ ہو جائے گا۔ شاندار حسِ مزاح کے دانشور نے اس لیے یہ بات کہی تھی کہ ناروے میں مقیم پاکستانیوں کی قابلِ ذکر تعداد کا تعلق کھاریاں سے ہے۔ جہلم اور گجرات کے بیچ ایک غنودہ سا قصبہ۔
پاکستان سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کا آغاز 1960ء کے عشرے میں ہوا۔ اذیت پسند افسر شاہی نے پاسپورٹ کے باب میں بہت ہی سخت پالیسی اپنا رکھی تھی۔ سیاستدانوں کو سرے سے دلچسپی ہی نہ تھی کہ ان کا نہیں، یہ عامیوں کا مسئلہ تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں نے منگلا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تو میرپور گائوں کے مکینوں کو، جن کے گھر جھیل میں ڈوب جانا تھے، پاسپورٹ جاری کرنے کا وعدہ کیا۔ ویزہ کی پابندی تھی ہی نہیں۔ پاسپورٹ جیب میں ڈالو، ٹکٹ خریدو اور لندن جا اترو۔ دوسری عالمگیر جنگ کے زخموں سے نڈھال برطانیہ کو سستے مزدور درکار تھے، جس طرح جنگ کے ہنگام سستے جانباز۔
میرپور سے اٹھنے والی لہر پھیلتی گئی۔ گوجر خاں، کھاریاں، لالہ موسیٰ، گجرات اور اس سے پرے وسطی پنجاب کے میدانوں میں؛ حتیٰ کہ اپنے عصر کا ادراک رکھنے والے تیز فہم بھٹو کا عہد آپہنچا۔ افسر شاہی کی گردن اس نے پکڑی اور پاسپورٹ پر عائد پابندیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔
اب 70 لاکھ سے زیادہ پاکستانی بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ زیادہ تر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات لیکن بہت سے یورپ، امریکہ، سکینڈے نیویا اور آسٹریلیا میں بھی۔ دوری محبت کو بھڑکاتی ہے۔ گھر میں رہتے ہوئے وطن کی قدر و منزلت ویسی نہیں ہوتی، جیسی کہ ناقابلِ عبور فاصلے پر۔ ازل سے آدمی نا شکرا ہے۔ جو نعمت میسر ہو، اسے بھول جاتا اور مزید کی تمنا کرتا ہے۔ محروم ہو جائے تب ادراک کرتا ہے کہ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس اور ایک چپاتی بھی کتنی بڑی آسائش ہے۔ جانا پہچانا ماحول، ازبر راستے، اپنے لوگ، زندگی ان کے درمیان سہل ہوتی ہے، احساسِ تحفظ کی چادر میں۔ نا شناس ماحول میں اجنبیوں کے درمیان مگر ایک اور چیز میسر آتی ہے۔ بقا کی جاں پرور، لافانی جبلت جاگ اٹھتی ہے۔ رفتہ رفتہ آدمی کی پوری استعدا د بروئے کار آنے لگتی ہے۔ انسانی صلاحیت معجزہ دکھاتی ہے۔؎
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
پاکستان کے مستقبل کا بہت کچھ انحصار سمندر پار پاکستانیوں پہ ہے۔ عصری حقائق سے وہ زیادہ آشنا ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور اس کے فوائد و محاصل سے۔ جدید اداروں میں کام کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کا وہ سلیقہ رکھتے ہیں۔ یہ شعور ان میں زیادہ ہے کہ تعلیم کے بل پر ہی ترقی کے زینے طے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا، وطن کی محبت بھی انہی میں زیادہ ہے۔ سکینڈے نیویا سے موصول ہونے والی دعوت کو بھول گیا ہوتا لیکن پھر طارق میاں اور ان کے دوستوں نے اصرار کرنا شروع کیا۔ یاد دلایا کہ سات اپریل کی شام ''سکون‘‘ کی سالانہ تقریب ہے اور ملتوی نہیں کی جا سکتی۔ ایک سہارا اب بھی باقی تھا کہ ویزے کی درخواست مسترد کر دی جائے۔ 3 اپریل کی شام تک صورتِ حال یہی تھی۔ آسودہء خواب، میں لاہور میں پڑا تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے پڑوس میں۔ شام 8 بجے ان سے گپ لگا رہا تھا، جب ایک پیغام ملا: کل دوپہر بارہ بجے ناروے ایمبیسی والے آپ سے رابطہ کریں گے۔ بھاگم بھاگ گھر پہنچا۔ ایسا ہی ہوا۔ پیغام ملا: ویزہ لگ گیا، اپنا پاسپورٹ لے جائیے۔ یہ چار اپریل کی شام ہے۔ کل صبح 8 بجے لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچنا ہے۔ تکان کا مارا جسم، بھاگم بھاگ اب لاہور روانہ ہوں۔ کوئی دن پاکستان سے دور۔
کون جانتا ہے کہ آنے والا پل آدمی کے لیے کیا لائے گا۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے