کیا ہماری بھی قانون حفاظت کرتا ہے یا فقط اس اشرافیہ کی ، جسے بجا طور پہ اب بدمعاشیہ کہا جانے لگا ہے ۔ جس کا وقت قریب آن لگا ہے اور جسے اس کی خبر ہی نہیں ۔
اب ہمارے پاس ایک آدمی ہے ، جنرل محمد ضیاء الحق ۔ آدمی کاہے کو ہے ، قربانی کا ایک بکرا ہے ۔ جب بھی کوئی حادثہ رونما ہو، اسے ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے ۔ اس لیے کہ اس کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ۔ جن سیاستدانوں نے اس سے فیض پایا ، اب وہ اس کا نام نہیں لیتے ۔ جو اخبار نویس اس کا دم بھرتے اور علم اٹھائے رکھتے تھے ، نئے آقا اب انہوں نے تلاش کر لیے ہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہادِ افغانستان کے ہنگام ، اپنی سیاسی ضرورت کے علاوہ ، اپنے آبائی رجحانات کے طفیل مولویوں کو اس نے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی۔ اپنی مساجد، مدارس اور خانقاہوں سے وہ باہر نکلے اور قیادت کے مدعی ہو گئے۔ شاید ہی کوئی دوسرا اخبار نویس ہو ، مسلسل اور پیہم جس نے اس مسئلے پر لکھا ہو۔ اس قدر یاد دہانی کرائی ہو کہ بار بار اس کی عافیت خطرے میں پڑ گئی ہو۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ مولوی فرقہ پرست ہے ، تنگ نظر ہے ، عصرِ حاضر کے تقاضوں سے نا آشنا اور ماضی میں زندہ رہتاہے ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں اس کا رسوخ بڑھا مگر جنرل کو دنیا سے اٹھے 29برس بیت چکے ۔ اس اثنا میں ہم اپنی اصلاح کیوں نہ کر سکے ؟ معاشرے کو منظم ، شائستہ اور روادار کیوں نہ بنا سکے ؛حالانکہ اس دوران جنرل کی مخالف پیپلزپارٹی جیسی جماعتیں برسرِ اقتدار آئیں اور خود جنرل مشرف بھی ، سرتاپا جو سیکولر تھا ۔ کیا تنہا مولوی صاحبان ہی انتہا پسندی کے ذمہ دار ہیں ۔ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو مولوی کی آڑ میں مذہب کی توہین اور تحقیر پہ اتر آتے ہیں ۔ پوری قوم کے اعتقادات اور ایمان کا جو مذاق اڑاتے ہیں ۔ جو یہ کہتے ہیں کہ قائدِ اعظمؒ ایک سیکولر پاکستان کے آرزومند تھے ۔
سیکولر ؟ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ممبئی کے وکیل نے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔اپنی وفات تک ایک بار بھی لفظ ''سیکولر ‘‘انہوں نے استعمال نہ کیا ۔ یہ پنڈت نہرو کا نعرہ تھا، جس کا حوالہ تک جناحؒ نے کبھی نہ دیا ۔ ان کا عہد دو عظیم نظریاتی تحریکوں کا عہد تھا۔ سوشلزم اور سیکولرازم ۔ ان دونوں سے بے نیاز ، اعتدال کی راہ وہ چلتے رہے ۔ گورنر جنر ل کے طور پر وہ حلف اٹھا چکے تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا : مجھے امید ہے کہ پاکستان اکبرِ اعظم کی راہ چلے گا اور جمہوریت کی ۔ قائدِ اعظم ؒ کا جواب یہ تھا : جمہوریت کا سبق ہم نے چودہ سو سال پہلے ہی پڑھ لیا تھا۔ اس آدمی نے جو کبھی عوامی جذبات نہ بھڑکاتا اور محض مقبولیت کے لیے کبھی کوئی بات نہ کہتا تھا ، بار بار اصرار کیا کہ قرآن پاکستان کا دستور ہوگا ۔ ان کی 101تقاریر میں اسلام کا حوالہ موجود ہے ۔
اقدار کی حیرت انگیز پاسداری کے ساتھ ایک مسلمان سیاستدان اور حکمرانوں کی تقریبا تمام اخلاقی صفات ان کی ذات میں جمع ہو گئی تھیں ۔
ریاکاری سے بہت دور، ہمیشہ وہ سچ بولتے ۔ ایک ادنیٰ سی خیانت کا الزام بھی ان پر کبھی عائد نہ کیا گیا ۔ وعدے کی پاسداری کرنے والے ، غیبت اور وقت ضائع کرنے سے گریزاں ، وہ ایک قابلِ تقلید رہنما تھے ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ، جو خود بھی ایک کھرے مسلمان تھے، ان کی وفات پر کہا تھا: وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے ۔ ایسے آدمی کو سیکولر قرار دینے کی جسارت وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو نہ قائدِ اعظم سے آشنا ہیں اور نہ سیکولرازم سے ۔
بے شک ہیجان کے مارے اس معاشرے میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے ۔ مذہبی معاملات میں بھی وہ ظاہر ہوتی ہے لیکن فقط مذہبی طبقہ ہی تو اس کا ذمہ دارنہیں ۔ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیے ، جو غیر ملکی امداد کے بل پر غیر سرکاری انجمنیں NGOsتشکیل دیتے ہیں ۔ دنیا کو پاکستان کے نقطہ ء نظر سے دیکھنے کی بجائے پاکستان کو دنیا کے نقطہ ء نظر سے دیکھتے ہیں ۔ بالکل بجا کہ توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر کسی زندگی سے کھیلنا ایک بھیانک جرم ہے ۔ بالکل درست کہ ایسے لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور عبرت ناک انجام سے دوچار کرنا چاہئیے ۔ سوال یہ ہے کہ ذمہ داری یہ کس کی ہے ؟ اقتدار کی باگ کیا مولویوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ قانون سازی کریں ؟ پولیس اور عدلیہ کو بانجھ کس نے بنا رکھا ہے ؟ نفاذِ قانون کس کی ذمہ داری ہے ؟دوسرا سوال یہ ہے کہ سیکولر انتہا پسندوں سے کون نمٹے گا؟ جو ہم جنس پرستی پر مبنی ڈرامے اور ''آئیٹم سانگ ‘‘بنا کر پاکستانی چینلوں سے چلانے میں مصروف ہیں ؟ کیا ایک مسلمان ریاست اس کی متحمل ہے ؟ کیا وہ مذہبی طبقے کو تشدد پر اکسا نہیں رہے ؟
ماہرینِ نفسیات یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی محرومی سے جنم لیتی ہے ۔ عدمِ تحفظ کا احساس، توہین اور تحقیر۔ پٹوار ، پولیس اور سرکاری دفاتر میں خلقِ خدا کے پامال اور رسوا ہونے کی ذمہ داری کس پر عائدہوتی ہے ۔ منگل کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ایک خاتون مسافر کی جو تذلیل کی گئی، اس کے مرتکب بھی کیا مولوی صاحبان تھے ؟ ناچیز کی رائے میں محض سرکاری ملازم بھی نہیں ۔ جن حالات میں وہ کام کرتے ہیں ۔ جس طرح موم کی ناک بناکر انہیں رکھا جاتاہے ، اس کے بعد ان میں سے کچھ اگر چڑچڑے ہو جائیں ، ذہنی مریض بن جائیں تو اس میں تعجب کیا ۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف ہی نہیں ، سرکاری ملازم حمزہ شہبازوں اور بلاول بھٹوئوں کے بھی رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔ فوجی قیادت کی غلطیاں اپنی جگہ ، ایک فوجی افسر یا جوان جذباتی اعتبار سے زیادہ مضبوط کیوں ہوتا ہے ۔ پولیس سٹیشن میں ایک کانسٹیبل اور تھانیدار افسروں کے رحم و کرم پہ رہتاہے ۔ سپاہیوں کو ''ملازم‘‘ کہہ کر پکارا جاتاہے ۔فوجی جوان کو اس کے نام سے بلایا جاتا ہے ،اس کے سینے پر جو آویزاں رہتا ہے ۔ اگر نہیں تو اسے ''شیر‘‘ یا ''شیرو‘‘ کہا جائے گا۔ کسی بھی مقام پر ہو، 99فیصد اپنی ملازمت کا تین برس کا عرصہ وہ مکمل کرتاہے ۔ پولیس میں یہ شرح تین چار ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ سالِ گذشتہ ایک کور کمانڈر نے کہا : ایک کپتان کا تبادلہ کرنے کا اختیار میں نہیں رکھتا ، الّا یہ کہ اس کا سبب واضح ہو ۔ پھر بھی اپیل کا حق وہ رکھتا ہے ۔ نیو یارک ، سٹاک ہوم ، لندن ہی نہیں ، دبئی اور جدہ میں بھی ریاست کی پوری قوت ایک کانسٹیبل کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے ۔ لاہور کا پولیس افسر کسی ایم پی اے کا چالان کردے تو پوری پنجاب اسمبلی کااستحقاق مجروح ہوتاہے ۔ بندہ و آقا میں بٹی ہوئی قوم دراصل قوم نہیں ہوتی ، ایک انبوہ ہوا کرتاہے ۔ ہجوم سے کیا امید اور ہجوم کی کون سی سمت؟
جرم کا خاتمہ خوف سے ہوتاہے ، قانون کے خوف سے ۔ قانون کی اگر کسی کو پرواہ نہ ہو۔ پولیس اور عدالت انصاف عطا کرنے سے انکار کر دیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟محض حکومت او رلیڈروں کو کوسنے کی بجائے ، محض مولویوں کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے ، ہم میں سے ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئیے ۔
بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آتی ہے ۔ اس کے ساتھ مگر ایک کڑی شرط وابستہ ہے ، نظم اور ڈسپلن ۔ ناروے ، سویڈن ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں مسافر یہ دیکھ کر دنگ رہ گیاکہ کسی سڑک پر کبھی کوئی ہارن نہیں بجاتا۔ ایک دن یہ واقعہ ہوا تو بے اختیار کئی لوگوں نے کہا : یہ کون پاگل ہے ؟ کوپن ہیگن میں لوگ نلکے کا پانی پیتے ہیں ، جی ہاں ، نلکے کا۔ کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ سرکاری ملازم اس کے اشارہ ء ابرو پر حرکت میں آئے۔
ظاہر ہے کہ ہوائی اڈے پر مسافر بے تابی کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی اگر فضائی کمپنی کے ملازم کو معاملہ جلد نمٹانے کو کہے تو اس کا جواب یہ ہوتاہے "Dont stress me"مجھ پر دبائو ڈالنے کی کوشش نہ کرو ۔ پھر چیخنے کی بجائے، سر جھکا کر اپنے کام میں وہ مصروف ہو جاتاہے ۔ قانون اس کا محافظ ہے ۔
کیا ہماری بھی قانون حفاظت کرتا ہے یا فقط اس اشرافیہ کی ، جسے بجا طور پہ اب بدمعاشیہ کہا جانے لگا ہے ۔ جس کا وقت قریب آن لگا ہے اور جسے اس کی خبر ہی نہیں ۔