وقت گزرنے کے ساتھ فوج کی قوت میں کمی نہیں‘ اضافہ ہو گا‘ افسوس‘ صد افسوس‘ مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
میری اطلاع درست مگر اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اطلاع یہ تھی کہ بالآخر وزیر اعظم اور عسکری قیادت میں مفاہمت ہو گئی۔ مفاہمت وزیر اعظم کی ضرورت تھی اور جنرل باجوہ کشیدگی ختم کرنے کے آرزومند تھے۔ جیسا کہ بار بار اس کالم میں عرض کیا‘ وہ تمام تر توجہ بیرونی محاذ اور دہشت گردی پہ مرکوز رکھنے کے آرزومند تھے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ کہا کہ ڈان لیکس پر‘ کمشن کے اتفاق رائے کا انتظار ہے‘ تو فوج کے ترجمان نے ٹوک دیا تھا۔ اس نے کہا تھا: اتفاق رائے ضروری نہیں۔ چوہدری صاحب اس پہ ناراض ہوئے اور کہا کہ میجر جنرل آصف غفور‘ اپنے منصب پہ مامور نہ تھے‘ جب ایک سابق جج کی صدارت میں‘ یہ کمیشن قائم ہوا تھا۔ ارے بھائی‘ آئی ایس پی آر کا ڈائریکٹر جنرل‘ اپنی نہیں‘ سپہ سالار کی زبان بولتا ہے۔ بار بار جنرل باجوہ وزیر اعظم سے کہہ چکے تھے کہ رفقائِ کار کا ان پر دبائو ہے۔ ان کے الفاظ یہ تھے ''سر‘ میرا بھی ایک حلقۂ انتخاب (Constituency) ہے۔
وزیر اعظم مصر تھے کہ کمیشن کی رپورٹ میں‘ طارق فاطمی کے بارے میں لکھا گیا ایک جملہ حذف کر دیا جائے۔ اس لیے کہ فاطمی ذاتی طور پر ان کے وفادار تھے۔ وزارتِ خارجہ سے سبکدوش کرنے کے بعد‘ وہ انہیں کوئی دوسرا منصب سونپنے کے آرزومند تھے۔ وزیر اعظم کے پچھلے دورِ اقتدار میں‘ ایوان وزیر اعظم میں انہوں نے کام کیا کہ وزارت کا ایک افسر بڑے صاحب کی خدمت میں حاضر رہتا ہے۔ فاطمی بادشاہوں کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اپنی اصول پسندی کا ڈھنڈورا انہوں نے بہت پیٹا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ 2007ء میں لندن سے میاں صاحب کی واپسی کے بعد‘ بلا تنخواہ ان کے وکیل اور مشیر وہ بن گئے تھے۔ پانچ برس تک ٹاک شوز میں ان کی وکالت وہ کرتے رہے۔ رائے ونڈ کے دربار میں وہ حاضر ہوتے رہے‘ تاآنکہ 2013ء آ پہنچا۔ اب یہ مزدوری وصول کرنے کا وقت تھا۔ پسینہ خشک ہونے سے پہلے نہ سہی مگر میاں صاحب کبھی نہ کبھی ادائیگی کر ہی ڈالتے ہیں‘ سرکاری خزانے سے۔ اوّل ان کی بیگم صاحبہ کو قومی اسمبلی کا ممبر بنایا گیا‘ حالانکہ پارٹی کے کسی اجلاس میں کبھی وہ شریک نہ ہوئی تھیں۔ سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہ تھا۔ بیگم صاحبہ نے پھر ایک عدد این جی او قائم کی اور سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں این جی اوز کس لیے بنائی جاتی ہیں۔
پھر وہ خود مشیر خارجہ بنائے گئے مگر اس طرح کہ بڑے میاں سرتاج عزیز‘ ان کے سر پہ مسلط کر دیے گئے۔ فوراً بعد چپقلش کا آغاز ان میں ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ دربارداری کی ویسی سکت بوڑھے آدمی میں ہرگز نہ تھی جیسی کہ نسبتاً جواں سال فاطمی میں۔
جناب پرویز رشید کے بارے میں‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کہہ چکے تھے کہ کوتاہی کے وہ مرتکب ہوئے۔ رائو تحسین کا معاملہ بھی یہی تھا۔ ان سب کو اپنی بیگناہی اس وقت یاد آئی‘ سول ملٹری قیادت میں کشمکش کا جب آغاز ہوا۔ موقع پا کر سب کے سب واویلا کرنے لگے ہیں۔ فی الحال کسی کو ان کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ جب ملے گی تو بہت سی کہانیاں منظرِ عام پر آئیں گی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پچھڑی ہوئی‘ برباد سول سروس اور کابینہ میں وفاداری اب ریاست نہیں افراد سے ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم سے۔ پھر یہ کہ سچائی میدان جنگ کی پہلی مقتول ہوا کرتی ہے۔ کیا صرف سول قیادت غلطی کی مرتکب ہوئی یا فوجی قیادت بھی۔
''مسترد‘‘ کے لفظ سے آشکار ہے کہ فوجی قیادت برہمی کا شکار ہوئی‘ جس طرح کہ سیاسی لیڈرشپ بدحواسی کا۔ رائے ونڈ میں بنیادی فیصلہ تو یہی صادر ہوا کہ فوج سے تصادم مول نہ لیا جائے گا۔ پانامہ کیس عدالت میں ہے اور الیکشن سر پہ کھڑے ہیں‘ مگر حکومت کی کمزوری کھل کر سامنے نہ آئے۔ تھوڑا سا ڈرامہ کیا جائے اور پھر بات مان لی جائے۔ کچھ وزرا نے چیخ و پکار کی‘ کچھ سرکاری اخبار نویس بروئے کار آئے۔ سوشل میڈیا پر فوجی قیادت کے خلاف زبان درازی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
مصالحتی کوشش کا آغاز فوراً بعد ہو گیا تھا۔ بعض وزرا کی طرف سے اظہارِ ناراضی کے باوجود‘ اپنی معلومات کی بنیاد پہ فوجی قیادت مطمئن تھی۔ جنرل باجوہ اس پہ آزردہ ضرور تھے کہ وزیر اعظم سے ان کے خوشگوار ذاتی مراسم مجروح ہوئے۔ دونوں کا رجحان مگر ایک ہی تھا‘ مفاہمت!
بدھ کو رات گئے نامہ و پیام مکمل ہو چکا تھا۔ فوجی قیادت کا مطالبہ مان لیا گیا تھا کہ کمشن کی سفارشات پر من و عن عمل ہو گا۔ وزیر اعظم کا کہنا یہ تھا: اقدام اس طرح ہو کہ ان کی توقیر بحال ہو جائے۔ اس سے زیادہ تفصیل ابھی میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ ذرائع کو تفصیلات بیان نہ کرنے کا میں نے یقین دلایا تھا۔ اس کے بغیر معلومات کا حصول ممکن ہی نہ تھا۔
اعلان جمعرات کو ہو جانا چاہیے تھا‘ جمعہ کی شام تک نوٹیفکیشن مگر جاری نہیں ہوا۔ آخری وقت پہ کیا ٹھنڈک پڑ گئی؟ کچھ بھی ہو‘ مفاہمت ہو کر رہے گی۔
کیا یہ مفاہمت مکمل اور حتمی ہو گی‘ اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ وزیر اعظم اندازے کی خطرناک غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب وہ اس کے متحمل نہ تھے۔
جنرل راحیل شریف بھی وزیر اعظم کا انتخاب تھے۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے میں غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے مشکل حالات میں میاں صاحب کی انہوں نے مدد کی تھی۔ اس کے باوجود دونوں میں بگاڑ کیوں پیدا ہوا؟ اس لئے کہ وزیر اعظم اپنا دل صاف نہ کر سکے۔ ایک میڈیا گروپ سے بگاڑ پیدا ہوا تو اپنا وزن انہوں نے اس کے پلڑے میں ڈال دیا۔ جنرل راحیل شریف کو فوج اور وزیر اعظم میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ ادارہ ہی ان کی ترجیح تھا۔ وہی ان کی قوت کا سرچشمہ تھا۔
بہت کھل کر نہ سہی لیکن مگر تقریباً واضح الفاظ میں ڈان لیکس کے باب میں، یہ بات جنرل باجوہ نے وزیر اعظم کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ناکام رہی۔ آخر کار انہوں نے بھی اپنے ادارے کا انتخاب کیا ہے۔ پانامہ کیس کے ہنگام‘ مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرکے ایک طرح سے انہوں نے بھی وزیر اعظم کی اعانت کی مگر یہ ان کے لئے کافی نہ تھا۔
بدلے ہوئے وقت کے تقاضوں کا وزیر اعظم کو ادراک نہیں۔ کبھی انہوں نے پارلیمان میں تیرہویں ترمیم پیش کی تھی کہ وزیر اعظم کو دستور کا کوئی بھی حصہ معطل کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اب وہ اٹھارویں ترمیم والے دستور کے وزیر اعظم ہیں‘ جس میں صوبے بسا اوقات ٗ کنفیڈریشن میں شامل ریاستوں کی طرح بروئے کار آتے ہیں۔
سادہ سی بات یہ ہے کہ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقہ فوج کو سونپ کر‘ سول اداروں کو کمزور تر کرکے سول قیادت پسپا ہو چکی۔ دستور نے نہیں، ملک کو فوج نے متحد رکھا ہے۔ بیرونی اور داخلی خطرات کا مقابلہ اس نے کیا ہے۔ اجتماعی حیات میں اصل اہمیت طاقت کی ہوا کرتی ہے۔ مقبول فوج‘ سول قیادت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ملکی سلامتی کی جنگ جس نے لڑی اور دہشت گردوں کو پسپا کر دیا ہے۔ قوم کی بیشتر امیدیں، جب اس سے وابستہ ہیں تو کرپشن کے سنگین الزامات سے دوچار سول قیادت غلبہ کیسے پائے؟
مثالی صورت تو یہ ہوتی ہے کہ سول اداروں پولیس‘ عدلیہ اور سول انٹیلی جنس کو مضبوط بنا کر، رفتہ رفتہ فوج کا کردار کم کیا جاتا... مگر تضادات! ان تضادات کا بوجھ اٹھا کر کوئی کتنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟
وقت گزرنے کے ساتھ فوج کی قوت میں کمی نہیں‘ اضافہ ہو گا‘ افسوس‘ صد افسوس‘ مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟