"HRC" (space) message & send to 7575

دارومدار

فرمایا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور کسی کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں، ظاہر ہے کہ مصطفے کمال کے لیے بھی قطعاً نہیں۔
آدھی رات کوفون کی گھنٹی بجی۔ ''میں مصطفے کمال بول رہا ہوں‘‘۔ کسی نے کہا! بے تکلفی اور اپنائیت کے ساتھ، اپنے دل کا حال انہوں نے کہہ دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ اس طرح بھی اپنی ،خطا کوئی مانتا ہے۔ اس طرح بھی تسلیم و رضا کو کوئی اختیار کرتا ہے۔
''آپ کا کالم ہم نہیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ کو اپنادشمن سمجھتے تھے‘‘۔ انہوں نے کہا۔ ایم کیو ایم کو خیر باد کہنے کی رو داد انہوں نے سنائی اوریہ کہا: جب آپ کو میں نے پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ رائے درست نہ تھی۔ ایسے حسن ظن کا اظہار انہوں نے کیا، جس کا مستحق میں ہرگز نہ تھا۔ دل کامعاملہ عجیب ہے۔ عہد عالمگیری کے عارف سلطان باہو نے کہا تھا۔
دل دریا سمندروں ڈونگے، کون دلاں دیاں جانے ہو۔
ایسے فصیح تھے کہ جب تک پنجابی زبان زندہ ہے، وہ زندہ رہیں گے۔ ایسے سربکف تھے کہ جب مسلم برصغیر کا بڑا حصہ مغالطے کا شکار تھا، جھنگ کے ایک گائوں میں بیٹھ کر، اس جعلی صوفی داراشکوہ کے مقابلے میں محی الدین اورنگزیب عالمگیر کی حمایت کی۔ اس طرح ڈٹ کر کہ ایک کتاب ''اورنگ نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ بادشاہ کو نصیحت کی اور خلق کو راہ دکھائی۔
مصطفے کمال اپنی روداد سنا چکے تو گزارش کی: زندگی کے فیصلہ کن موڑ پہ یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ خوف کا آپ شکار ہیں۔ اس سے نجات حاصل کیجئے اوراس کا علاج توفیق الٰہی میںپوشیدہ ہے۔ دو دعائیں، ایسے میںپڑھی جاتی ہیں قرآن کریم کی آیت،''انّ ربّی علیٰ کل شیئی حفیظ‘‘ اور جناب رسالت مآبؐ کی تعلیم کردہ ''اَللّھم اَکِفنا ھُم کَماشِئت‘‘ میرا اللہ، ہرچیز کی حفاظت کرنے والا ہے، اے اللہ، انہیں (میرے دشمنوں کو) جس طرح تو چاہے نمٹا دے۔
کچھ دن میں عارف سے ملاقات ہوئی تو تفصیل بیان کی اور تسبیح کی درخواست ۔ دعائیں انہوں نے بتا دیں اور ایک واقعہ سنایا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر، ایک صوبائی وزیر لپک کرآیا اور پوچھا: الطاف حسین سے ہماری جان کب چھوٹے گی۔ فرمایا: میں نے کہا: چھوٹ جائے گی۔ پوچھا: کون تھا، بتایا کہ قاتل کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک، جس کے صبر کاپیمانہ لبریز تھا۔
مصطفے کمال کے صبرکا پیمانہ بھی یونہی لبریز ہوا تھا۔ فرق یہ ہے کہ عہدے سے چمٹے رہنے کی بجائے، خطرہ انہوں نے مول لینے کا فیصلہ کیا۔ اس امر کا ادراک جب ہو چکا کہ الطاف حسین درندہ ہے ، ہجرت کا فیصلہ کیا۔
نعمت اللہ خان کی وراثت کو انہوں نے آگے بڑھایا تھا اور خلق کو حیران کردیا تھا۔ بوڑھے نعمت اللہ خان اس حال میں کراچی کے میئر بنے کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس اعتبار سے مینڈیٹ ان کا ادھورا تھا۔ اپنی انتظامی صلاحیت، انصاف پسندی، تحرک اور امید پرستی سے، شہر کو انہوں نے بدل ڈالا۔ ایک ارب روپے سالانہ کے ترقیاتی بجٹ کو 39ارب تک لے گئے۔
اس زمانے میں ہر دوسرے تیسرے مہینے کراچی جایا کرتا۔ جنرل پرویز مشرف کو انہوں نے قائل کرلیاکہ ڈیفنس اور سمندری علاقوں کی نگہداشت کے نیم فوجی اداروں کو حصہ شہر کی ترقی میں ڈالنا چاہیے۔ کرپشن کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالی اور بتدریج ناامیدی کی گھٹا چھٹنے لگی۔ ایک رکشا والے سے پوچھا: اپنے میئر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ اس کے جواب نے ششدر کردیا۔ کہا: ''قائداعظم کے بعد، ایسا لیڈر ہمیں نصیب نہیں ہوا۔‘‘
کراچی والوں کے دل انہوں نے جیت لیے۔ سندھی جاگیرداروں کے برعکس، کراچی والوںسے جو نفرت کرتے ہیں، جنرل پرویز مشرف کو شہر سے ہمدردی تھی۔ یہ معجزہ مگر انجام نہ دیا جاسکتا،نعمت اللہ خان اگر ایک ایثار کیش اور بااصول منتظم نہ ہوتے۔ 
کراچی کے ایک ممتاز صنعت کار نے، اپنی فیکٹری کی حدود ایک ایکڑ مزید بڑھالی تھیں۔ اس زمین کی کوئی خاص قیمت تھی اور نہ کوئی پوچھنے والا۔ وقت بدلا تو پڑتال ہونے لگی۔ گھبرایا ہوا وہ میرے پاس آیا۔ کہا: قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ نیلامی ہوگی۔ اندیشہ ہے کہ ایم کیوایم والے بلیک میل کریں گے۔ وزیراعلیٰ ارباب رحیم سے کہا، مگر وہ کوئی مدد نہ کرسکے۔ کہا کہ نعمت اللہ خان ان کی نہیں سنتے۔ صنعت کار کے ساتھ، ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بولے: نیلامی تو ہوگی۔ ڈرتے ڈرتے،کاروباری آدمی نے کہا: اشتہار کسی چھوٹے سے اخبارمیں دیجئے گا، ترجیحاً پنجاب میں۔ رسان سے خان صاحب بولے: اشتہار اس اخبار میں چھپے گا، جس میں ہارون الرشید کا کالم شائع ہوتا ہے۔ پوری قیمت آپ کو ادا کرنا ہوگی۔ گند ڈالنے کے لیے، کسی نے مداخلت کی تو ہم کہہ دیں گے: قبضہ آپ خود لے لیجئے۔
اس آدمی کی وراثت کو سنبھالنا سہل نہ تھا مگر مصطفے کمال نے سنبھالا اور اس طرح کہ قبضہ گیر اور قاتل ایم کیو ایم کو داد پہ داد ملنے لگی۔ نام اس کا بلند ہوا تو الطاف حسین نے بلدیہ سے الگ کرکے، سینٹ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ ایام تھے، سید زادے کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی جب توفیق ارزاں ہوئی۔
کراچی سے وہ امریکہ پہنچے اور ایک دوست کے ہاں پڑے رہے۔ کب تک مگر پڑے رہتے۔ جمع پونجی تو تھی نہیں۔ تجربہ اگر تھا توتعمیرات کا۔ دبئی کا قصد کیا کہ شاید ڈھنگ کی کوئی نوکری مل جائے۔ مل گئی، بحریہ ٹائون کو اپنے منصوبوں کے لیے ایک نگران درکار تھا۔ ملک ریاض جوکچھ بھی ہیں ، ہر کامیاب کاروباری کی طرح ہنر مندوںکی مگر توقیر کرتے ہیں۔ کراچی میںاربوں کے منصوبے تھے اورایک نگران درکار تھا۔ مصطفے کمال کی شرط یہ تھی کہ دبئی میں رہ کر کام کریںگے۔ حیرت انگیز طورپر یہ بات مان لی گئی تھی۔ کیوںمان لی گئی؟۔ بندوں کے خالق کو اپنے ایک مجبور بندے کو رہائی عطا کرنا تھی۔
الطاف حسین سمیت، ایم کیو ایم کے لیڈر اسے ڈھونڈتے رہے، ای میل پہ ای میل بھیجتے رہے۔ اس نے پلٹ کر نہ دیکھا اوراپنی زندگی میں مگن رہا۔ طویل عرصے کے بعد ایک آسودہ زندگی۔ ایک خیال مگراسے پریشان کرتا رہا کہ ظلم میں وہ شریک رہا ہے۔ اس دن کے لیے سچی گواہی اسے دینی ہے۔ جب اللہ کے حضور اسے حاضر ہونا ہے۔ جب کوئی کسی کا ہاتھ تھامنے والا نہ ہوگا۔
القارعہ
اور تجھے کیا خبر کہ القارعہ کیا ہے/ وہ دن لوگ جب کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو جائیں گے/اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کے گالے/ پلڑا جس کا بھاری ہوگا/وہ دائمی نشاط میں ہوگا/اور پلڑا جس کا ہلکا ہوگا/تو اس ٹھکانہ جہنم ہوگا
آدمی، آدمی کا دارو نہیں، آدمی کا دارو اللہ ہے۔ تین برس بعد، مصطفے کمال لوٹ آئے استقبال ایسا ہوا کہ پارٹی کے قیام کافیصلہ کرلیا۔ ان کے اولین عوامی جلسے کو دیکھنے میں کراچی گیا تو انیس قائم خانی نے کہا: آپ اگر نہ ہوتے تو یہ پارٹی کبھی وجود نہ پاتی۔ نہیں میری وجہ سے نہیں بنی۔ نہیں بخدا، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع، میری کدوکاوش سے ممکن نہ ہوئی۔ نہیں، عمران خان کے فروغ کا سبب یہ ناکردہ کار نہیں۔
یہ ایک خیال ہوتا ہے، جو فروغ پاتا ہے اورخیال آسمان سے اترتا ہے۔ ہم ایک تجویز پیش کرتے ہیں، جو ہماری استعداد سے لاکھوںکروڑوں گنا بڑی ہوتی ہے۔ زمانہ اگر اس کے لیے سازگار ہو جائے تو یہ مجھ ایسے کسی حقیر آدمی کے سبب ہوتا ہے۔ اور نہ ظہیر الدین بابر ایسے کسی عظیم الشان فاتح کے طفیل۔یہ اللہ کے فیصلے ہیںجس طرح وہ چاہتا ہے، انہیں بروئے کار لاتا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کا تصور عارف کے ایک انیس سالہ شاگرد، محمد اویس نے پیش کیا تھا۔ جنرل ابتداء میں مانتا ہی نہ تھا لیکن پھر یوسف رضا گیلانی اس پر تل گئے۔ عمران خان سے میری ملاقات تب ہوئی، جب پارٹی بنانے کا وہ ارادہ کر چکے تھے۔ جماعت کی تشکیل سے پہلے، مصطفے کمال نے مجھ سے کبھی مشورہ نہ کیا۔ یہ اللہ نے ان کے دل میں ڈال دیا تھا۔آخری تجزیے میں ناکامی یا کامیابی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ٹیپو شہید ہو کر جیت گیا تھا۔ ہٹلر جیت کر ہارگیا۔
فرمایا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور کسی کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں، ظاہر ہے کہ مصطفے کمال کے لیے بھی قطعاً نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں