وہی بات جو خورشید رضوی نے کہی تھی۔؎
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
گرد اب بیٹھ چکی‘ بس ایک سوال عقب میں چھوڑ گئی۔ اپنے ایک ساتھی کے باب میں دانشور اور صحافی اس قدر غلط بیانی کے مرتکب ہو سکتے ہیں‘ نازک قومی معاملات میں‘ ان کی آرا اورتجزیوں پر اعتماد کیسے کیا جائے؟
آدمی اپنی افتادِ طبع کے اسیر ہوتے ہیں۔ اپنے مزاج‘ اپنے تعصبات‘ اپنی نفرت اور محبت کے۔ ایسا بھی مگر کیا کہ کبھی اس سے اوپر اٹھ ہی نہ سکیں۔ دائم ان کے دام میں گرفتار رہیں۔
جانے پہچانے دو عدد دانشوروں نے اخبار نویس رئوف کلاسرا پہ الزام لگایا کہ اسلام آباد کے تین سرکاری گھروں پہ اس نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اپنی بیگم اور اپنے بھائیوں کو سرکاری نوکریاں دلائی ہیں۔ بہت سے دوسرے ناجائز مفادات بھی حاصل کیے۔
میں اس میں کود پڑتا۔ حقیقت حال مجھے معلوم تھی مگر خاموش رہا کہ کتنی ہی احتیاط برتوں تلخی جنم لے گی۔ بہتر ہے کہ کوئی دن میں تفصیل سے بات کروں اپنے ماتحت کے خلاف۔ چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ہم میں سے ہر ایک اس طرح کے سانحات سے گزرتا ہے۔ میرے ایک سابق مدیر نے محض اس لیے کردار کشی کی مہم چلائی کہ ان کے ادارے میں کام کرنے سے میں نے انکار کردیا تھا۔ نون لیگ کے ایک نیک نام رہنما نے‘ جن پر منشیات کے دھندے کا الزام عدالت میں ہے‘ اس قدر بے ہودگی کا ارتکاب کیا کہ سننے‘ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ اگر قانون کی حکمرانی اس ملک میں ہوتی۔ ازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات کا بروقت فیصلہ اگر ہو سکتا تو ان کی ساری جائیداد شاید بِک گئی ہوتی۔
رئوف کلاسرا‘ ہماری صحافت کا ایک دلچسپ کردار ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک رپورٹر ہیں۔ کالم نویس بننا چاہا تو میرا خیال تھا کہ بن نہ سکیں گے۔ آغاز ِکار میں زبان و بیان کی غلطیوں کی بھرمار ہوتی...مگر یاللعجب‘ آج وہ ملک کے مقبول ترین کالم نگار ہیں۔ پھر یکایک ٹی وی میزبان بھی ہوگئے۔ جس کی کوئی توقع ان سے نہیں تھی۔ زبان میں لکنت تھی مگر اللہ جانے کیا ہوا کہ جاتی رہی۔ بڑے بڑوں کو اس میدان میں اس نے پیچھے چھوڑ دیا۔ بڑے طمطراق کے ساتھ جو بروئے کار تھے۔ یہ بڑے لوگ جو سلوک اپنے ساتھ ان دنوں کر رہے ہیں‘ نتائج اس کے نکلنے والے ہیں۔ گرد راہ ہو جائیں گے۔ہر غلطی کی ایک قیمت ہوتی ہے اور قدرت کے قوانین بدلتے کبھی نہیں۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ ہر صاحب نعمت سے حسد کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ حسد جس سے کیا جائے‘ نعمت میں اس کے لیے اضافہ کردیا جاتا ہے۔ شہرت اور کامیابی کے کلاسرا مزے لوٹ رہا ہے۔ حاسد ان کے اپنی آگ میں جل رہے ہیں۔ ازل سے یہی ہوتا آ رہا ہے اور ابد تک یہی ہوتا رہے گا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے: ہر آدمی کی قدروقیمت اس کے ہُنر کے مطابق ہوتی ہے۔ زندگی آدمی سے نباہ نہیں کرتی۔ آدمی کو زندگی سے نباہ کرنا ہوتا ہے۔ حقیقت پسندی اسی کا نام ہے۔ چرچا‘ جس کا بہت رہتا ہے‘ ادراک کم ہی لوگ کرتے ہیں۔
کلاسرا نے تردید کردی مگر الزام تراشی پہ تلے رہنے والے تلے رہے۔ پہلا بہتان یہ لگایا کہ اپنی اہلیہ کو سرکاری ملازمت اس نے دلوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ بیاہ ہوا تو خاتون کو سینیٹ آف پاکستان سے وابستہ ہوئے‘ چھ ماہ گزر چکے تھے۔ یہ 1998ء کے وسط کا قصہ ہے۔ کلاسرا تب اسلام آباد کی صحافت میں پائوں جمانے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ یہ بڑا ہی دلچسپ واقعہ ہے مگر یہ پھر کبھی۔
جہاں تک تین عدد سرکاری مکانات کا تعلق ہے‘ اتفاق سے یہ ناچیز ایک عینی شاہد ہے۔ ایک ہی مکان ہے اور ایسا کہ بس گوارا۔ پوری ایمانداری سے عرض ہے کہ میں ہوتا تو اپنے خاندان کو اس میں بسانے سے انکار کردیتا۔ مکانیت اگرچہ کافی ہے مگر بے سراسا‘ بے تکاسا۔ ایک معروف شاہراہ پہ‘ ٹریفک تمام وقت جس پہ رواں رہتی ہے۔نصف شب تک رینگتی اور اندرون میں‘ جس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
ایک بہت اچھا مکان بیگم کلاسرا کو الاٹ ہوا تھا۔ سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو جب نگران وزیراعظم بنے۔ سینیٹ کا سٹاف رویا پیٹا کہ رات گئے تک گاہے انہیں کام کرنا ہوتا ہے۔ سرما کی سفاک راتوں میں‘ خاص طور سے دشواری ہوتی ہے۔ سیکرٹری ہائوسنگ نے ان کے حکم پر خالی گھروں کا سراغ لگانا شروع کیا۔ بیگم کلاسرا کے حصے میں جو مکان آیا وہ اسلام آباد کے بہترین علاقے میں تھا۔ مارگلہ کے دامن میں‘ جس کی رفعت اور ہریالی نے اس شہر کو جمال بخشا۔یاد پڑتا ہے‘ اس گلی میں‘ جہاں سابق سیکرٹری خزانہ علامہ وقار مسعود قیام پذیر تھے۔ کبھی نہاری یا پائے کھلانے کے لیے مدعو کیا کرتے۔ اب وہ ایک بھولی بسری سی داستان لگتی ہے۔ کلاسرا کو اطلاع دی گئی تو اس نے انکار کردیا۔ صاف اور قطعی الفاظ میں اور یہ کہا: میں ایک اخبار نویس ہوں۔ آئے دن حکومت کے خلاف مجھے لکھنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی کسی رعایت کا میں متحمل نہیں۔ بیگم کلاسرا ایک بہت ہی مضبوط خاتون ہیں۔ ڈٹ جائیں تو اپنی بات پہ ڈٹ جائیں مگر دلیل سننے والی اور شکرگزار۔ کلاسرا نے انپا مؤقف بیان کیا تو فوراً ہی وہ مان گئیں۔
دوسرے گھر کا قصہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ اتفاق سے بے شمار یادیں اس مکان سے میری وابستہ ہیں۔ میرے مرحوم دوست سید فاروق گیلانی ربع صدی تک یہاں مقیم رہے۔ بے شمار شامیں اس میں بسر کیں۔ دل و جان میں آج تک ان کی مہک باقی ہے۔
یاد ایامے کہ با او گفتگو ہا داشتم
چہ خوشا حرفے کہ گوید آشنا با آشنا
انگریزی ادب کے طالب علم‘ اردو کے نثرنگار‘ تاریخ‘دینیات‘ معیشت اور سیاست کے اسرار ورموز سے آشنا‘ کھرے اور سچے فاروق گیلانی‘ ان میں سے ایک تھے کہ ایک بار زندگی میں در آئیں تو رخصت کبھی نہیں ہوتے۔یاد ہم نے بھی انہیں بہت کیا۔ شاعر اظہارالحق نے مگر مرثیہ لکھا تو قلم توڑ دیا۔
وہ روشنی کا جو تھا بھرم ختم ہو گیا ہے
عجیب دن ہے کہ صبحدم ختم ہو گیا ہے
خوشی خموشی سے اُٹھ کے باہر چلی گئی ہے
حیات تیرا ہر اک الم ختم ہو گیا ہے
وہ گفتگو جو زروجواہر تھی‘ بجھ گئی ہے
جو حرمتِ حرف تھا قلم‘ ختم ہو گیا ہے
نہ پو پھٹے کا وضو ہی باقی نہ شامِ یاراں
ٹھہر چکا وقت‘ زیر و بم ختم ہو گیا ہے
لپیٹ دو خوان حاتمِ عصر جا چکا ہے
وہ ابر‘ وہ منبع کرم ختم ہو گیا ہے
یہاں دریچے بہشت کی سمت کھل رہے ہیں
یہاں پہنچ کر ہر اک غم ختم ہو گیا ہے
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی‘ کس طرف چل نکلی۔ ڈھنگ کے لوگ زندگی میں کم ملتے ہیں۔ ملتے ہیں تو کبھی نہ ختم ہونے والا نقش دل کی محرابوں پہ چھوڑ جاتے ہیں کہ آخر کو داغ ہو جاتا ہے۔ ان کی یاد آئے تو ربط گاہے برقرار نہیں رہتا۔ آج بھی یہی ہوا‘ آج کا کالم اس الم کی نذر ہوا۔ باقی کل۔ یارزندہ‘ صحبت باقی۔ کہانی توآغاز ہوئی تھی۔
وہی بات جو خورشید رضوی نے کہی تھی۔؎
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں