بعض جرم ایسے ہوتے ہیں‘ قومیں جو نظرانداز نہیں کر سکتیں‘ کردیں تو فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
نون لیگ آزاد کشمیر کی صدارت کے لیے ‘راجہ صاحب کا نام تجویز کرنے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود کہ شریف خاندان کے خوف سے‘ اس خطاکار سے تقریباً مکمل طور پر انہوں نے قطع تعلق کرلیاتھا۔ میرا دل مگر مطمئن رہا کہ آزاد کشمیر کے لیے موزوں ترین لیڈر وہی ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان‘ سندھ اور پنجاب کی طرح نہ سہی‘ مگر مظفرآباد کے خزانے میں بھی نقب لگائی جاتی تھی۔ وزیراعظم بنے تو انہوں نے اس کی حوصلہ شکنی کی۔ان کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں کچھ دھونس اور کچھ منت سماجت سے مسلم کانفرنس کے ایک بزرگ لیڈر بیرون ملک علاج کے نام پر کچھ روپیہ اچک لے جاتے‘ تقریباً دس لاکھ روپے سالانہ۔ مگراس پہ فاروق حیدر ناخوش رہتے‘ کڑھتے رہتے۔ آزاد کشمیر کے چیف جسٹس نے ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کوشش کی۔ اپنی اولاد کے لیے من مانی کی تو وہ مزاحم ہوئے۔ نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول تھے۔ نئی نسل میں مقبولیت‘ سیاست میں کھرا سکہ ہے۔ بدعنوانوں کو حاصل نہیں ہوتا۔
انہیں وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ابھی صادر نہ ہوا تھا‘ جناب پرویزرشید نے راجہ صاحب سے فرمائش کی: ہارون الرشید کے خلاف ایک مضمون لکھئے اور اخبار میں چھپوا دیجئے۔ میاں صاحب کے تحفظات تمام ہو جائیں گے۔ وہ خاموش رہے‘ انہوں نے گریز کیا۔ بس یہ کہ اس نیاز مند سے رابطہ ختم کر ڈالا۔ نون لیگ میں جس کو شاد و آباد رہنا ہو ‘ اس طرح کی قربانی اسے دینا پڑتی ہے۔
طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے۔ دل میں خوف ہو تو سمجھوتہ گاہے کرنا ہی پڑتا ہے۔ چلئے کوئی بات نہیں‘ گلہ کبھی نہ کیا۔ ایک دوست اگر شاد اور کامران ہو تو جی خوش ہوتا ہے۔ پرانی ملاقاتوں کی مہک کبھی اداس بھی کرتی ہے مگر کیا کیجئے‘ یہ دنیا ہے اور اس میں زندگی کرنے کے لیے دل پہ کبھی پتھر بھی رکھنا پڑتا ہے۔
مگر یہ تو سان گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی ایسی حرکت وہ کریں گے۔ اور اس وقت جب کوئی فائدہ اس سے پہنچ نہ سکے۔ اس حرکت کے بعد وہ پریشان ہیں مگر اب فائدہ کیا؟
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا
وضاحت انہوں نے فرمائی ہے۔ اخبار کی مذمت بھی کی ہے مگر اس سے کیا حاصل؟ یہ وہ داغ نہیں‘ آسانی سے جو دھل سکے۔ عمر بھر ان کے ساتھ رہے گا۔ الزام اگر غلط ہو تو خاموشی کام آتی ہے جیسا کہ شاعرؔ نے کہا تھا۔
حرفِ انکار سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
جرم سرزد ہو جائے تو دو ہی راستے ہوا کرتے ہیں۔ تلافی یا ان سے معافی جن کے دل دکھے ہوں۔ اپنے قصور کا آدمی اعتراف کرے۔ اخلا قی جرأت اور توکّل ہو تو اپنے منصب سے الگ ہو جائے۔ صدارت سے سبکدوشی کے بعد جناب غلام اسحٰق خان سے میں نے عرض کیا تھا: فیصلہ آپ نے درست کیا‘ عوامی احساسات کو مگر ملحوظ نہ رکھا کہ کس انداز سے صادر ہو۔ لوگوں کے اندر ان کے رجحانات کی طرف سے داخل ہونا چاہیے۔ کہا: میں سمجھتا ہوں‘ اسی لئے خوش دلی سے سزا بھگت رہا ہوں۔ اپنے مالک کو یاد کرتا ہوں۔ اس کی رضا پہ راضی ہوں۔
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ
تمام انسان خطا کار ہیں۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: خود کو پاک باز نہ کہا کرو‘ بڑے نہیں تو چھوٹے گناہ کرو گے ہی۔ کون جانتا ہے کہ پائوں کب پھسل جائے۔ یوں بھی تعصبات سے مکمل رہائی ممکن ہی نہیں۔ جذبات اور مفاد سے مگر آدمی بالکل ہی مغلوب ہو جائے تو عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ غلطی پہ اصرار نہ کرنا چاہیے‘ تلافی کرنی چاہیے۔
ذہنی طور پر ‘ یہ ایک الجھا ہوا معاشرہ ہے۔ مولوی کے ہاتھوں الہام کی غلط تعبیر‘ احساسِ عدم تحفظ میں دیانت و صداقت سے انحراف۔ عمران خان ہی ''جنون‘‘ کی تبلیغ نہیں کرتے‘ برصغیر کے بڑے بڑے مفکّر عقل کو عیّار سمجھتے ہیں۔ بجائے خود عقل عیار نہیں ہوتی۔ ہاں اگر وہ دھوکہ کھا جائے اور دھوکہ وہ باطن کے تضاد کی وجہ سے کھاتی ہے۔ اقبالؔ نے جس عقل کی مذمت کی‘ وہ خالصتاً دنیاوی ہے‘ مادہ پرست‘ روشِ عام کی‘ فیشن کی پیروکار۔ ان کے ہاں عشق قندیل ہے‘ وہ جو وحیِ ٔ الٰہی سے روشنی پاتا اور جاں نذر کرتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
مگر یہ بھی انہی کا ارشاد ہے کہ عقل نور ہے۔ہاں مگر فقط چراغِ راہ ہے‘ بجائے خود منزل نہیں۔
میر شکیل الرحمن کی بات دوسری ہے۔ میاں محمد نوازشریف کی طرح ان کے لیے پاکستان ایک سرزمین ہے‘ اتفاق سے جہاں وہ پیدا ہوگئے۔ حبّ ِوطن اور دیانت ان کے نزدیک اضافی اقدار ہیں۔ ارب پتیوں کا بھی ایک ملک ہوتا ہے۔ اس سے وہ محبت کرتے ہیں‘ مگر ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جن کا ملک ہی ہوتا ہے‘ وطن نہیں‘ پرچم نہیں۔ کوئی جذباتی اور روحانی وابستگی ان کی نہیںہوتی۔ سرمایہ ہی سب کچھ ۔اس نئی قوم کے دانشوروں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ وہ چڑچڑی بڑھیا جو یہ کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی قوم وجود میں نہیں آتی۔ دانشور آئی اے رحمن ہیں جنہوں نے لکھا کہ... ایک ہزار برس تک دنیا کی علمی قیادت کرنے والے... مسلمان اوّل روز سے علم دشمن ہیں۔ اور بھی بہت ہیں‘ جن کی تربیت ملحدوں‘ اشتراکیوں یا کٹھ ملائوں کے زیراثر ہوئی۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ متحدہ بھارت میں کہیں زیادہ وہ آسودہ ہوتے۔شناخت ان کی یہ ہے کہ اقبالؔ کا نام تک نہیں لیتے۔ قائداعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ حالانکہ اپنی نصف صدی کی اجتماعی زندگی میں ایک بار بھی یہ لفظ انہوں نے کبھی استعمال نہ کیا۔ انیس برس کے وہ نوجوان تھے اور لندن میں مقیم‘ جب پہلی بار چرچ سے ناراض پادری ہولی اوکس کی اس اصطلاح کا چرچا ہوا۔
رواداری؟... نمو اور افزائش تو کیا رواداری کے بغیر کوئی معاشرہ جما جڑا بھی رہ نہیں سکتا۔ قائداعظمؒ کے 75.6 فیصد حامی یہاں تھے تو اختلاف کرنے والے دس بارہ فیصد بھی۔ باقی وہ تھے جو کسی مقامی آویزش میں الجھے تھے۔ بھٹو کے فدائین اور حریف بھی۔ نوازشریف اور عمران خان کے حامی اور مخالف بھی۔ عبدالغفار خان اور الطاف حسین کے عشّاق اور اس سے نفرت کرنے والے بھی۔ الطاف حسین نے قتل و غارت سے انہیں خوف زدہ کر ڈالنا چاہا تو نتیجہ کیا نکلا؟ یوسفِ بے کارواں ہوگئے۔ نہیں‘ نہیں یوسفؑ نہیں کہ اپنی تنہائی میں بھی وہ شاد کام تھے ۔ الطاف حسین راندئہ ِدرگاہ ہوئے‘ جس طرح کہ طالبان ۔ دوسروں کی حماقتوں پر نہیں‘ زندگی اپنے علم اور اپنے عمل پہ بسر کی جاتی ہے۔
میر شکیل الرحمن نے اپنے لئے گڑھا کھودا اور اس میں گرے۔ ایک بار پھر کھود رہے ہیں۔ ایک احمقانہ بیان کو شہ سرخی بنا کراپنے‘ اہل وطن کو انہوں نے بلیک میل کرنا چاہا۔ پچھلی بار بچ نکلے تھے‘ اب شاید نہ بچیں۔ راجہ صاحب نے پہلی بار حماقت کی ہے اور گلگت بلتستان کے وزیراعظم نے بھی۔ راجہ صاحب کی وحشیانہ جسارت میں‘ جن کی حماقت دب گئی۔ معلوم نہیں‘ یہ سب کچھ میاں محمد نوازشریف کے ایماپرہوا یا دونوں وزرائے اعظم کے باہم مشورے سے۔اعتراض میاں صاحب کو بہرحال نہیں۔ ان کے مزارعین کو بھی نہیں۔
بعض جرم ایسے ہوتے ہیں‘ قومیں جو نظرانداز نہیں کر سکتیں‘ کردیں تو فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔