کھیل ختم‘ پیسہ ہضم۔ پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ بالکل ہی ایک نئے زمانے کا۔ مکرّر عرض یہ بھی ہے کہ ع
چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں
صدقے کے سات بکرے‘ بے شمار دعائیں اور بے بہا آنسو۔ آتش بازی‘ گل پاشی‘ چھتیس گھنٹے تک جاری رہنے والے بھنگڑے۔ صرف دعائوں سے لیکن تقدیر نہیں بدلتی۔ بنیادی فیصلہ ہی غلط ہو‘ تجزیہ ہی نادرست ہو تو نتیجہ خیز حکمتِ عملی کیسے تشکیل پائے۔
میں دشمنِ جاں ڈھونڈ کے اپنا جو نکالا
سو حضرتِ دل سلّمہ اللہ تعالیٰ
کئی دن سے شاعر سعود عثمانی نے بحث اٹھا رکھی ہے کہ یہ شعر کس کا ہے۔ کسی کا بھی ہو‘ معلوم یہ ہے کہ تمام ناکامیاں اور تمام کامیابیاں اپنے باطن سے نمودار ہوتی ہیں۔ افراد ہوں یا اقوام‘ پارٹیاں ہوں یا لشکر‘ ظفریاب وہ ہوگا‘ جو مستحق ہے اور ناکام وہ ہوگا‘ جس کی تدابیر ناقص ہیں۔ ہاں‘ کوئی بھی فتح یا شکست عارضی بھی ہو سکتی ہے۔ بالکل نئی صورتِ حال اس کے بطن سے پھوٹ سکتی ہے۔ میاں شریف خاندان کے باب میں ایسے کوئی آثار نہیں۔ نون لیگ کا دعویٰ تھا کہ ان کا احتجاجی مارچ ایک تاریخ ساز واقعہ ہوگا‘ جس کی کوئی مثال نہ ہوگی۔ عملاً ہوا کیا؟
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جوچیرا تو اک قطرہِ خوں نہ نکلا
اب زوال ہے اور زوال میں یہی ہوتا ہے۔ آسمانوں سے فرشتے نہیں اترتے کہ کسی پہ پتھر برسائیں یا پھولوں کی بارش کریں۔ خیال ہوتا ہے اور خیال بھٹک جاتا ہے۔ عقل ہے اور عقل رخصت ہو جاتی ہے۔ خود فریبی ہوا کرتی ہے اور طاری رہتی ہے۔ دل جب آرزو کی گرفت میں ہوتے ہیں تو حقائق سے گریزاں ہو جاتے ہیں۔ ع
یوں نہ تھا‘ میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
انبوہ کی کثرت اور ہجوم کی تگ و تاز نہیں بلکہ حالات کا رخ فیصلہ صادر کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وقت کا دھارا کس رخ پہ اب بہہ رہا ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
سعود عثمانی کی خدمت میں کل میں حاضر ہوا۔ کتابوں کا ایک خزانہ رکھتے ہیں۔ اپنا ایک شعر انہوں نے سنایا۔
جو کچھ تجھے ملنا ہے‘ وہ مل جائے گا ہر طور
پر وقت سے پہلے‘ نہ مقدر سے زیادہ
کتاب یہ کہتی ہے: جہاں جہاں تمہیں رکنا اور ٹھہرنا ہے اور جہاں پہنچنا ہے‘ پہلے سے ہم نے لکھ رکھا ہے۔ کون کبھی اپنی تقدیر سے لڑ سکا ہے کہ آج کے سورما لڑیں گے۔ ہاں‘ لڑ مریں‘ مگر ایسی تب و تاب بھی کہاں؟ وہ اور لوگ ہوتے ہیں۔ ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں۔ روایت ہے کہ شہادت سے چند لمحے قبل‘ زندگی کی آخری سویر‘ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ‘ نماز فجر کے لیے گھر سے نکلے۔ اچانک شور مچاتی‘ فریاد کرتی بطخوں کا ایک جھنڈ نمودار ہوا۔ آواز ایسی بلند کہ بہت سننے والوں کو ناگوار ہوئی۔ کسی نے ہٹانا چاہا تو فرمایا: انہیں نہ روکو‘ یہ گریہ کرنے والیاں ہیں۔ بے شک رقص کناں ہے‘ جی ٹی روڈ پہ مگر جلوس نہیں‘ جنازہ ہے۔
سعود عثمانی کے ساتھ گھنٹے بھر کی نشست میں سیاسی ہنگامے کا حوالہ آیا تو یاس یگانہ چنگیزی کا ذکر ہوا۔
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
نشّہ خودی کا چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا
یگانہ اسداللہ خان غالب کے نقاد تھے اور نقاد بھی ایسے کہ خدا کی پناہ۔ مانتے ہی نہیں تھے۔ دلّی کا شاعر مٹی اوڑھے سو رہا تھا مگر وہ اس پہ چیختے رہتے‘ جس طرح بعد کے برسوں میں فراق گورکھ پوری‘ علامہ اقبال پر۔ فراقؔ پاگل پن کو پہنچے۔ آخر آخر کو عالم یہ تھا کہ صرف ایک قمیض پہنے‘ تنہا اپنے کمرے میں بیٹھے رہا کرتے۔ کچھ اور شہادتیں بھی ہیں‘ مگر حبیب جالبؔ کو خود کہتے سنا کہ اول فول بکا کرتے۔ یگانہؔ خوش قسمت تھے۔ پہاڑ سے سر ٹکراتے‘ عاجز آ گئے تو اپنی اصلاح کی کوشش کی ‘مگر نیم دلانہ‘ خفت کے ساتھ ادھوری سی کوشش۔
صلح کر تو یگانہ‘ؔ غالبؔ سے
تم بھی استاد‘ وہ بھی اِک استاد
ملاحظہ کیجئے‘ ''اِک استاد‘‘ وہ آدمی‘ جس نے اردو زبان کا انداز ہی بدل ڈالا۔ شاعری تو الگ‘ نثر بھی ایسی لکھی کہ آئندہ صدیوں کے لیے معیار ہو گئی۔ جو انقلاب اس عبقری نے برپا کیا‘ اب تک برقرار ہے۔ فیض پانے والے اب بھی اس سے فیض پا سکتے ہیں۔ شاعر ہی نہیں‘ سعود عثمانی نثر میں جادوگری کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ کہا‘ کوئی مشورہ؟ عرض کیا‘ غالبؔ کے خطوط پڑھا کیجئے۔ ایک سے ایک فصیح ہو گزرا ہے مگر اردو میں کوئی نثر غالبؔ کی نثر ایسی نہیں۔
غدر کے خونیں ایام گزر چکے تھے۔ بڑھاپے اور علالت میں کسی ہمدم دیرینہ کا مکتوب ملا تو جواب میں لکھا ''تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا‘ جو پیرہن نے یعقوبؑ کے ساتھ کیا تھا‘‘... ''بیمار ہوں‘ اتنی دیر میں بستر سے اٹھتا ہوں‘ جتنی دیر میں قدِّ آدم دیوار اٹھتی ہے‘‘۔
لاہور کے افق پہ بادل سیاہ ہیں۔ آئے دن بارش برستی ہے اور کبھی تو دل پہ بھی۔ بہار ہی نہیں‘ برسات بھی اداسی لے کر آتی ہے۔ شام اور شب اگر ابر و باراں کی زد میں ہوں۔ سویر اگر گہربار ہو تو اور بھی دل گداز کرنے والی۔ موسیقی کی تان اور شعر کی تاب لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر شعر ہی یاد آتا ہے اور دل تان ہی کی طرف لپکتا ہے۔ شاہراہ قائد اعظم کے پہلو میں سعود عثمانی کے کتب خانے سے‘ شملہ پہاڑی تک پہنچتے یاس یگانہ چنگیزی چھم چھم برستے رہے۔
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خون فرہاد برسرِ فرہاد
ٹی وی کے شور شرابے کو چھوڑیے۔ اخبار نویس‘ دانشور اور لیڈر‘ ایک دوسرے کی تردید کرنے کے لیے براجمان ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو زچ کرنے اور نیچا دکھانے کے لیے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں‘ واقعہ یہ ہے کہ شریف خاندان کے لیے فتوحات کے نئے سلسلے نہیں‘ یہ شکست در شکست کا آغاز ہے۔ خلقِ خدا اکتا چکی اور اکتانا ہی تھا۔ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دس گیارہ برس‘ کسی حکمران کے نصیب میں ہوتے ہیں۔ ان کے بھی اتنے ہی تھے۔ بار بار اکھاڑے گئے۔ ہر بار ہمدردی ان کے حصے میں آئی۔ اب بالآخر مکافاتِ عمل ہے۔
یہ نماز عصر کا وقت ہے‘ یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
وہ قیامتیں جو گزر گئیں‘ تھیں امانتیں کئی سال کی
لاہور ہائی کورٹ میں کبھی ممتاز وکلا کی بحثیں سنی تھیں۔ ایک کی بات سنتے تو ملزم معصوم لگتا۔ دوسرے کے دلائل میں کسی بے رحم‘ سفاک قاتل کی تصویر ابھرتی۔ ٹی وی ٹاک شو یہی ہوتے ہیں‘ فیصلہ بالآخر وقت کرتا ہے۔
بدھ کی شام تک یہ واضح تھا کہ اسلام آباد اور لاہور کی حکومتوں نے پولیس‘ پٹوار اور بلدیات کو برتنے کی پوری کوشش کی ہے۔ باایں ہمہ تعداد کا کچھ اندازہ نہ ہو سکا۔ فقط اس قدر معلوم ہو سکا کہ راولپنڈی کی مری روڈ پر گاڑیوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی‘کبھی کچھ زیادہ‘ کبھی کچھ کم۔ آج سہ پہر تک کریدنے کا سلسلہ جاری رہا۔ آخرکار انکشاف ہوا کہ شام پڑے‘ ایک مشہور ریسٹورنٹ سے پلائو کے 7500 پیکٹ منکوائے تھے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔
کھیل ختم‘ پیسہ ہضم۔ پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ بالکل ہی ایک نئے زمانے کا۔ مکرّر عرض یہ بھی ہے کہ ع
چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں