"HRC" (space) message & send to 7575

بھوکے بّچے

بھوکے بچوں کو کوئی بتائے کہ لیڈر ملکوں اور معاشروں کیلئے ہوتے ہیں۔ ملک اور معاشرے لیڈروں کیلئے ہرگز نہیں۔ آدمی کی قدروقیمت کا انحصار اس پر نہیں ہوتا کہ وہ کیا حاصل کر سکا بلکہ یہ کہ اس نے آدمیت کو کیا دیا۔
ظاہر ہے کہ کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی اس کے مفادات پہ منحصر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس خطّۂِ ارض میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات مختلف ہیں۔ پھر امریکی مصر کیوں ہیں کہ پاکستان ان کی ترجیحات کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ افغان پالیسی تشکیل دے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دلیل یہ دی ہے کہ امریکہ پاکستان کو مالی امداد مہیا کرتا رہا۔ سپہ سالار جنرل قمر باجوہ نے بدھ کی سہ پہر امریکی سفیر کو اس اعتراض کا موزوں جواب دے دیا: اپنی مدد اپنے پاس رکھو۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ اس کے بجائے ہم مفاہمت‘ دوستی اور ادراک کے آرزومند ہیں۔ امریکی انتظامیہ میں یہ شعور ہے کہ پاکستان آنکھیں بند کر کے‘ بھارت کے تزویراتی حلیف انکل سام کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ نئی پالیسی پر خود امریکہ میں بھی یکسوئی نہیں پائی جاتی۔ پوری طرح اس پر عمل درآمد کا کوئی امکان نہیں۔ آخرکار واپس ہی لینا پڑے گی۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ تنگ نظری کا شکار خود ہماری قیادت بھی یکسو نہیں۔ افغانستان میں امریکہ بھارت کیلئے ایک کلیدی کردار کا خواہشمند ہے۔ چاہتا ہے کہ چین کا گھیرائو کیا جائے۔ وسطی ایشیا میں روس کا کردار محدود کیا جائے۔ اور ان مقاصد کیلئے بھارت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خود بھارت کا مقصود کیا ہے؟ یہ بھارتی وزیر اعظم کے سلامتی مشیر جندال کی اس پالیسی سے واضح ہے‘ جو دو برس پہلے جو انہوں نے ''را‘‘ کے افسروں کی رہنمائی کیلئے ارشاد کی تھی۔ پاکستان سے بلوچستان کی علیحدگی اور قتل و غارت کرنے والے طالبان کی امداد کے ذریعے‘ ملک بھر بالخصوص قبائلی پٹی میں انتشار و افتراق۔ جندال نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی کیلئے فضا ہموار کر لی گئی ہے۔ سال گزشتہ نریندر مودی‘ شریف خاندان کے ہاں براجے تو یہی جندال ان کے ہمراہ تھے۔ اس امر کا کوئی اندیشہ انہیں ہرگز نہ تھا کہ ان کی موجودگی پہ اعتراض ہو گا۔
ایران سے پاکستان میں انٹیلی جنس کا نیٹ ورک چلانے والے کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد‘ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے سخت لب و لہجہ اختیار کرنے سے گریز کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام پر ان کا رویّہ بھی یہی ہے۔ برائے وزن ہی وہ اس پر بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک بنیادی اور سنگین مسئلہ ہرگز نہیں۔ انہی کا کیا ذکر‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی تحریکِ آزادیِٔ کشمیر کے لئے کبھی پرجوش نہیں رہیں۔ کبھی ایک سیمینار تک ان پارٹیوں میں سے کسی نے منعقد نہ کیا۔ ایک خصوصی پریس کانفرنس بھی نہیں۔ چند ماہ قبل پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے‘ بات کی تو انہوں نے ٹی وی پر اظہار خیال اور عمران خان کے ایک عدد بیان کا حوالہ دیا۔ پنجابی میں اسے گونگلوئوں (شلغموں) سے مٹی جھاڑنا کہتے ہیں۔
شیشم کے سائے میں افیونی پڑا تھا‘ بھوک کا مارا۔ ایک شتر سوار وہاں سے گزرا تو افیونی نے پکارا کہ قریب پڑے بیر اٹھا کر اس کے منہ میں ڈال دے۔ حقارت کی نگاہ‘ اس نے ڈالی اور چلتا بنا۔ ''اونٹوں والے بڑے ہی کاہل ہوتے ہیں‘‘ وہ بڑبڑایا۔
سیاسی جماعتوں نے طے کر لیا ہے کہ قومی سلامتی ان کا نہیں‘ مسلّح افواج کا مسئلہ ہے۔ فوج بھی قصوروار ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر‘ ایک طرح کی اجارہ داری اس نے قائم کر رکھی ہے۔ باہمی رابطوں میں یہ احساس دلانے کے بجائے کہ بنیادی طور پر یہ قومی رہنمائوں کی ذمہ داری ہے‘ جنرل حضرات کڑھتے رہتے ہیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور دوسرے فوجی اداروں میں سیاسی لیڈروں کو مدعو کرنا چاہئے۔ فوجی افسروں سے ان کا مکالمہ برپا ہو۔ مطالعے کیلئے ضروری مواد مہیا کرنا چاہئے۔ 
بدقسمتی سے سیاسی پارٹیوں میں ترجیحات مرتب کرنے کا کوئی نظام ہے اور نہ عرق ریزی کی عادت۔ اہم ترین موضوعات‘ توانائی‘ نجکاری‘ عالمی تجارت‘ زراعت‘ افسر شاہی اور عدالتی نظام پر ان میں کوئی سیل قائم ہے اور نہ ملک کے دفاعی مسائل پر۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف چار برس میں کتنی بار وزارت خارجہ کے دفتر گئے؟ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ اقتدار کے آخری ایّام میں صرف ایک بار۔ جبکہ مبلغ ایک سو غیر ملکی دورے انہوں نے داغے‘ اکثر لاحاصل!
صدر آصف علی زرداری نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی حضرت مولانا فضل الرحمن کو سونپ دی تھی۔ نواز شریف سریر آرائے سلطنت ہوئے تو منصب برقرار رکھا گیا۔ عمران خان پہ تبّریٰ کرنے کیلئے طلال چودھری اینڈ کمپنی انہیں کافی نہ لگے۔ برسوں پہلے یہ کمیٹی اس لئے بنی تھی کہ دنیا کو مظلوم کشمیریوں کی حالت سے آگاہ رکھا جائے۔ نواب زادہ نصراللہ خان کی قیادت میں اس نے قابل قدر کام کیا۔ وہ غیر معمولی حافظے اور قدرت کلام رکھنے والے لیڈر تھے۔ مرعوبیت چھو کر نہیں گزری تھی۔ حاضر دماغ بہت تھے۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور فوجی افسروں کے ساتھ ہمہ وقت وہ رابطے میں رہتے۔ ان کا احترام کیا جاتا تھا اور پوری طرح ان پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ ظاہر ہے اس طرح کے معاملات میں ایسی خفیہ معلومات بھی ہوتی ہیں‘ جو ہر ایک کو بتائی نہیں جا سکتیں۔ سیاسی پارٹیوں میں سے وہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرتے‘ جو معاملے کی نزاکت و اہمیت کو سمجھتے ہوں۔ ان کی موجودگی بجائے خود ضمانت تھی کہ حکومتِ وقت تساہل کا مظاہرہ نہ کرے گی۔ بزرگ مگر جواں ہمت لیڈر پابندی سے دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں جاتے اور کشمیر کا مقدمہ پیش کرتے۔
میاں محمد نواز شریف کو ان پہ اعتراض تھا۔ ارشاد ان کا یہ تھا کہ کوئی جواں سال آدمی کشمیر کمیٹی کا لیڈر ہونا چاہئے۔ محمد سرور نامی‘ سیالکوٹ کے ایک صاحب کو انہوں نے یہ ذمہ داری سونپی۔ شخصیت غیر موثر‘ قدرت کلام سے محروم۔ انگریزی تو کیا اردو میں بھی اظہارِ خیال پہ قادر نہ تھے۔ ایسا نہیں کہ مسلم لیگ میں کوئی شخص اس قابل نہ ہو۔ مگر میاں محمد نواز شریف کیلئے آزادیٔ کشمیر کی کبھی کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔ وہ ایک کاروباری آدمی ہیں اور خود پسند۔ تمام قومی پالیسیاں وہ اپنی ذاتی ضروریات اور مفادات کے تحت طے کرتے رہے۔ اپنی فوج سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ قائد اعظم اور تحریک پاکستان سے بیگانہ و بیزار پرویز رشید جیسے ان کے مشیر ہو گئے۔ نجم سیٹھی بھارت میں ان کی نمائندگی کرنے لگے۔ بھارتیوں نے کاروبار کے باب میں‘ جب انہیں سبز باغ دکھانا شروع کئے تو کہاں کا کشمیر اور کہاں کی کشمیر کمیٹی۔ مولانا فضل الرحمن کو سونپ دینے کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ کشمیر اور تحریک آزادیٔ کشمیر کو پرِکاہ برابر وقعت وہ نہیں دیتے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب سپہ سالار نے دیا ہے۔ کیا ان سے پہلے نون لیگ اور وفاقی حکومت کو بروئے کار آنا چاہئے تھا؟ اگر ایک مشترک پلیٹ فارم سے‘ تمام سیاسی پارٹیاں صدائے احتجاج بلند کریں تو امریکی سفیر منہ میں گھاس لے کر ایوان وزیر اعظم حاضر ہو۔ وہ تو مگر اپنا ہی رونا روتے رہتے ہیں۔ زرداری صاحب کو ڈاکٹر عاصم کی فکر لاحق ہے تو میاں محمد نواز شریف مسلسل ایک ہی گانا گا رہے ہیں ''مجھے کیوں نکالا‘‘۔
بھوکے بچوں کو کوئی بتائے کہ لیڈر ملکوں اور معاشروں کیلئے ہوتے ہیں۔ ملک اور معاشرے لیڈروں کیلئے ہرگز نہیں۔ آدمی کی قدروقیمت کا انحصار اس پر نہیں ہوتا کہ وہ کیا حاصل کر سکا بلکہ یہ کہ اس نے آدمیت کو کیا دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں