اے ہمارے پروردگار‘ ہماری خطائیںبے حساب ہیں‘ اپنی رحمت سے مگر ہمیں محروم نہ کرنا۔ اسے زندگی دے‘ تاب و توانائی دے کہ ابرِکرم کی طرح برستا رہے۔ پہاڑوں اور میدانوں میں‘ بستیوں اور ریگ زاروں میں‘ حتیٰ کہ وہ گلستان ہو جائیں۔ اے ہمارے رب!
ایسے بھی کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ ان سے محرومی کا خیال ہی خوفزدہ کرتا ہے۔ وہ لوگ جو صفتِ عدل پر‘ اللہ کی صفتِ رحم کے غلبے کی علامت ہوتے ہیں۔ دیکھو تو حیرت ہوتی ہے۔ ان سے بر تو اورملو‘ تو حیرت کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ اسداللہ خاں غالبؔ نے کہا تھا: یہ بندِشب و روز میں جکڑے ہوئے بندے۔ انہیں دیکھ کرمگر یہ احساس ہوتا ہے کہ قدرت کے بعض قوانین ان کیلئے گویا معطل کر دئیے گئے ہیں۔ کچھ اور طرح سے ان کی تقدیریں بروئے کار آتی ہیں۔
نامور اور پرچم بردار نہیں‘ کبھی ان میں گمنام اور غیر معروف بھی ہوتے ہیں۔ حسنِ نیت اور خیر خواہی کے جذبوں میں گندھے ہوئے۔ خود اپنے لئے نہیں‘ وہ دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔ بے شک ایثار ہی زندگی کا سب سے بڑا وصف ہے۔ یہ جذبہ جسے بخش دیا جاتاہے‘ بے پناہ اور بے حساب ہو جاتا ہے۔ خوف اور غم سے آزاد۔ جس دائرے اور جس میدان میں وہ قدم رکھتاہے‘ زندگی کی بساط اس کی امنگوں اور ارادوں کے مطابق ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
کار آفریں‘ کار کشا‘ کار ساز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂِ مومن کا ہاتھ
ایسا ہی ایک پاکستانی‘ یورپ کے ایک ہسپتال میں پڑا ہے۔ یکایک قلب اس کا بگڑ گیا۔ جرّاحی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اسکے باوجود مجال ہے کہ کلفت نے اسے آ لیا ہو۔ رنج نے اس کے فکرو ادراک میں راہ پائی ہو۔ راضی برضا‘ رفوگری کے مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ خالق کون و مکاں کی بے پایاں رحمت کا امیدوار۔ ہزاروں دل اور ہزاروں ہاتھ ہیں‘ اللہ کی بارگاہ میں اس کیلئے مجسم دعا ہو گئے ہیں۔ صبح صادق میں‘ سحر و شام کے دھندلکے میں۔ نصف النہار کی چلچلاتی دھوپ اورشب کی تاریکی میں وہ سچی دعائیں جو عرش پہ باریاب ہوتی ہیں۔ جن کے ناکام و نامراد ہونے کا تصور ہی عجیب ہوگا۔ وہ سب مہربانوں سے زیادہ اگر مہربان ہے‘ سب سخیوں سے زیادہ سخی۔ اگر وہ قادرِ مطلق ہے اور یقینا ہے۔ اگر وہ آدم کے زمین پر اترنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھی گئی تقدیروں کو بدل سکتاہے اور یقینا بدل سکتا ہے .....تو ہمارے لرزتے ہاتھوں اور کانپتے دلوں سے بے نیاز کیوں ہوگا؟
اس آدمی کا نام ڈاکٹر امجد ہے‘ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب۔ ہم سب کی طرح وہ دو ہاتھ پائوں کا شخص ہے۔ پاس پڑوس کے کسی عامی کی طرح۔ کوئی دراز قد اور نہ شخصیت کا چھا جانے والا سحر۔ کوئی بلند و بالا خاندان اور نہ پشت پہ استوار کوئی غالب قبیلہ۔ اس کے باوجود سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ تھر اور چولستان کے ریگ زاروں سے لے کر‘ چترال اور کوہستان کے برف زاروں تک وہ سبھی کا ہے ‘سب اس کے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کوہ البرز اور اس سے آگے‘ نیلے سمندروں سے پرے‘ کیلی فورنیا کے میدانوں اور جھیلوں تک‘جہاں جہاں سرزمینِ پاک کے فرزندآباد ہیں۔ ایمسٹر ڈیم کے نواح میں گلِ لالہ کے وسیع و عریض تختوں‘ لندن‘ برلن‘ پیرس اور نیویارک کی فلک بوس عمارتوں تک‘ وہ اُنس و الفت اورایثاروقربانی کا لہکتا ہوا استعارہ ہے۔
شمع محفل کی طرح‘ سب سے جدا سب کا رفیق۔ وہ لوگ جو بنی نوعِ انسان کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ تمام آدمیت کا مشترکہ اثاثہ۔ دوسروں کی طرح‘ وہ بھی کسی گھر‘ گائوں اور گلی میں پیدا ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ پھر سرحدوں اور سمندروں سے اوپر اٹھ کر‘ ستاروں کی طرح دمکنے لگتے ہیں۔
قالینوں کے کاروبار سے ملک صاحب وابستہ ہیں۔ شائستہ‘ کم گو اور اپنی مختصر سی کاروباری دنیا میں خود کو سنبھالے رکھنے والے۔ بارہ برس ہوتے ہیں‘ فرصت کی ایک شام‘ مہمان نے میزبان سے‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی تنظیم کا تعارف کرایا۔ پھر اس احتیاط کے ساتھ جو لازم تھی‘ التجا کی کہ ''اخوت‘‘ کی مدد کرنی چاہئے۔ معصوم چہرے کے ساتھ ملک صاحب میری بات سنتے رہے۔ پھر کہا: آپ ہی بتائیے کہ کتنا اور کیا مجھے کرنا چاہئے؟۔ ماڈل ٹائون کے ایک وسیع و عریض گھر میں ملک صاحب کا ٹھکانہ ہے۔ یورپ آنے والے اپنے ملاقاتیوں کیلئے ایک الگ مکان‘ گھر کے اندرہی انہوں نے بنا رکھا ہے۔ دستر خوان وہ سجاتے نہیں ‘آباد کرتے ہیںکہ مہمان سیراب اور شاد کام اٹھیں۔ نعمتیں‘ جمع کرتے اور اس پہ خورسند ہوتے ہیں۔ ساری ہمت جمع کر کے‘ ان سے میں نے کہا ''پانچ لاکھ روپے؟‘‘۔ ریاکاری سے پاک‘ شرمیلی آواز نے کہا: دس لاکھ روپے پچھلے ہفتے پیش کیے تھے‘ کچھ اور بھجوا دوں گا۔ پھر وہ دوسری طرف متوجہ ہوئے ‘موضوع بدل دیا ۔
سحر سے شام اور شام سے آدھی رات تک یلغار کرتی مصروفیات میں گھرے‘ پروفیسر احمد رفیق اختر سے لے کر‘ دفتری ساتھیوں تک‘ کوئی ایسا نہیں کہ '' اخوت‘‘ کے لیے اعانت کی درخواست کی جائے تو تامل سے واسطہ پڑے۔ امانت و دیانت ڈاکٹر صاحب کی مسلّمہ ہے۔ ایسی مسلّمہ کہ حرفِ اعتراض کبھی اُگتا ہی نہیں۔ چاندنی کی طرح چمکتے‘ سنگِ مر مر کے حدنظر تک پھیلے فرش پہ جیسے ایک دھبہ تک نہ ہو۔
مسجد نبوی ؐکا مغربی صحن یاد آیا۔وسیع و عریض قبرستان کے پہلو میں‘ جہاں چاند ستارے سو رہے ہیں‘ مہتاب کی چودھویں شب اترتی ہے تو منظر ہی نہیں‘ زائرین کی روحیں تک نور میں نہا جاتی ہیں۔ فجر کے ہنگام حوروں کی طرح پاکیزہ‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا اور ایرانی عورتوں کے پرے‘ جوق در جوق‘ چلے آتے ہیں۔ تب یقین آتا ہے کہ آدم کی اولاد فرشتوں سے افضل ہو سکتی ہے۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے‘ میرے طویل قامت دوست میجرنادر پرویز‘ سرکارؐ کے دیار کولپکتے چلے جاتے تھے۔ آواز دی تو حیرت سے انہوں نے دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں لکھا تھا: پروانہ جب طواف کرتا ہو تو اس کی سماعت کیا باقی رہتی ہے؟
مدینہ کی اسی خاک سے ڈاکٹر امجد ثاقب نے اکتسابِ نور کیا ہے۔ ایسے میں وہ باغی شاعربلھے شاہ ہی یاد آتا ہے۔ علموں بس کریں اویار‘ اکّو الف ترے درکار۔
قلندر جز دو حرفِ لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
سرکارؐ کا ایک مبارک قول اور ایک واقعہ۔ قول یہ ہے کہ خیرات کی دس نیکیاں ہیں اور قرض حسنہ کی اٹھارہ۔ واقعہ مواخات کا ‘مکہ کے مہاجر اور انصار جب بھائی بھائی بنا دیے گئے۔ اس ایک جملے اور اس ایک عمل پر ڈاکٹر صاحب نے چودہ صدیوں کے بعد ایک نیا جہان تعمیر کر دیا۔ ادھڑے ہوئے اس معاشرے میں‘ جسے نوچنے اور لُوٹنے والے بے شمار ہیں۔ جس کے لیڈر‘ دانشور‘ واعظ اور خطیب بے رحم ہیں‘ رفوگری کا انہوں نے آغاز کیا۔ چودہ لاکھ پاکستانی خاندانوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سرمائے کا دسواں حصہ بھی ‘ اس انقلاب پہ صرف نہ ہوا۔ فرق یہ ہے کہ رزق حلال کمانے والے سارے کا سارا قرض واپس کر دیتے ہیں۔ سرکاری منصوبے نے سینکڑوں جعل سازوں کو کروڑ پتی بنا دیا۔ اور بھی بنتے چلے جا رہے ہیں۔ کچھ تو سازوسامان سمیٹ سمندر پار جا چکے۔ معاشرے میں کرپشن کا کوڑھ بودیا۔
اِدھر کامیابیوں کی فہرست ناقابل یقین ہے۔ تین سو سکول‘ کتنے ہی کالج اور اب ایک عظیم یونیورسٹی۔ رحمتِ پروردگار جب کسی کا انتخاب کرتی ہے تو وہ ایک آدمی نہیں رہتا‘ ایک لشکر ہو جاتا ہے‘ لاکھوں ہاتھ‘ لاکھوں دل‘ پہاڑوں کے دل چیر دینے والا آبِ رواں۔
اے ہمارے پروردگار‘ ہماری خطائیںبے حساب ہیں‘ اپنی رحمت سے مگر ہمیں محروم نہ کرنا۔ اسے زندگی دے‘ تاب و توانائی دے کہ ابرِکرم کی طرح برستا رہے۔ پہاڑوں اور میدانوں میں‘ بستیوں اور ریگ زاروں میں‘ حتیٰ کہ وہ گلستان ہو جائیں۔ اے ہمارے رب!