جہالت میں معاشرے اندھے ہو جاتے ہیں۔ تازہ ترین تحقیق یہ کہتی ہے کہ آنکھوں کے اندھے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے پاس کوئی تصویری تمثیل ہی نہیں ہوتی۔
جہاں تک حسنِ بیاں کا تعلق ہے‘ ایاز امیر کا گزشتہ کالم‘ بہترین ہے۔ ایک مشّاق لکھنے والے سے بھی اندیشہ رہتا ہے کہ کسی موڑ پر خیال کو الجھا نہ دے۔ کسی مفکّر یا شاعر کا حوالہ دیتے ہوئے‘ تصوّر کی مرکزی شاہراہ سے ہٹ نہ جائے۔ یہ تحریر حشو و زوائد سے پاک ہے۔ ملال یہ ہوا کہ گورنمنٹ کالج چکوال کے لیے‘ بالآخر انہیں شیرِ پنجاب ہی سے التجا کرنا پڑی۔ شاندار ماضی کے تعلیمی ادارے کو بچانے کے لیے‘ یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔ اچھے مقصد کے لیے‘ اپنی وجاہت کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔
کیا کبھی وہ سویر ہمارے دروبام پر طلوع ہو گی‘ جب کسی شیر شاہ سوری کی بجائے‘ اداروں کو ہم پکار سکیں۔ علم سے منوّر دماغ ہی ملوکیت اور غلامی کے اندھیروں سے نجات پا کر‘ پگڈنڈیوں کی بجائے‘ ادراک کی بسیط شاہراہوں کے مسافر ہو سکتے ہیں۔
جس سمت کو چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ تمہاری ہے تو صحرا بھی تمہارا
زندگی اجالے اور اندھیرے کی پیہم کشمکش کے سوا کیا ہے۔ اس مسافت میں ہزار جنگل اور بیاباں ہیں۔ پیچ در پیچ اس سفر میں دانش ہی قندیل ہو سکتی ہے۔ علم ہی دلوں کو چین اور روحوں کو قرار عطا کر سکتا ہے۔ مگر کتاب یہ کہتی ہے: تمہیں صبر کیسے آئے‘ تم جانتے جو نہیں۔
موسیٰؑ اور خضرؑ کی کہانی پہ حیرت تھی کہ قرآن کریم کے مقدس اوراق میں کیوں جگہ پائی؟ آخر کو یہ نکتہ ایک عارف نے کھولا: جن کے باطن سے تم آشنا نہیں ہوتے‘ وہ چیزیں تمہیں الجھاتی اور مضطرب رکھتی ہیں۔
عمر بن عبدالعزیز کو جانشین کرنے والا سلیمان‘ خانہ کعبہ کے یمنی کونے پر ایک آزاد کردہ حبشی غلام‘ عطاء بن ابی رباحؒ کے سامنے کھڑا رہا۔ شاہزادوں کو تعجب ہوا کہ سیاہ فام نے سلطان کو اہمیت نہ دی؛ اگرچہ اس کے سوالوں کا شافی جواب دیا۔ تب بادشاہ رکا اور ان سے مخاطب ہوا: علم حاصل کرو میرے بچو‘ علم کمزور کو طاقتور‘ گمنام کو نامور اور محتاج کو غنی کرتا ہے۔
1877ء میں سر سید احمد خان‘ جب علی گڑھ کی بنیادیں استوار کر رہے تھے تو کرسٹان‘ نیچری اور ملحد کے طعنے‘ جوق در جوق ان کے تعاقب میں تھے۔ اکبر الٰہ آبادی سمیت‘ بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ مسلم برصغیر میں گمراہی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ علی گڑھ کالج نہ ہوتا تو پاکستان کسی بھی عرب ملک سے کمتر ہوتا‘ جن کی دولت کے انبار سینکڑوں گنا اور صلاحیت سواں حصہ بھی نہیں۔ ہم ایک اور افغانستان‘ ایک اور نائیجیریا ہوتے۔ پشاور اور لاہور کے اسلامیہ کالج‘ علی گڑھ کی معنوی اولاد ہیں۔ سینکڑوں‘ دوسرے بھی۔
شاہ عبدالعزیز کے گرامی قدر والد کو قرآن کریم کا فارسی ترجمہ کرنے پر دھمکیاں ملی تھیں۔ شاہ صاحب نے جدید تعلیم کی حمایت کی۔ علماء کی اکثریت مگر مخالف رہی۔ جمال الدین افغانی ہندوستان آئے تو انہوں نے ''الدّہریون فی الہند‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھ کر ان علماء کی تائید کی۔ عشروں بعد اقبالؔ علی گڑھ تشریف لے گئے‘ دو بار۔ قائد اعظمؒ کم از کم چار بار گئے‘ ایک ہزار روپے کا عطیہ بھی دیا‘ جو آج کے پندرہ لاکھ کے برابر ہے۔
اختلاف سر سیّد کی تفسیر سے تھا۔ علماء کرام نے غور کرنے کی زحمت کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ سر سیّد کی مذہبی فکر سے‘ علی گڑھ بے نیاز رہا۔ ہر صبح شبلی نعمانی قرآن کریم کا درس دیا کرتے۔ خوف سے سمٹے علماء کرام ماضی میں زندہ رہنے کے آرزومند تھے۔ ماضی میں کون زندہ رہ سکتا ہے؟
1990ء میں جب میاں محمد نواز شریف سریر آرائے سلطنت تھے‘ برطانیہ سے پاکستانی نوجوانوں کا ایک وفد پاکستان پہنچا۔ عہدِ آئندہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت سے انہوں نے آگاہ کرنے کی کوشش کی... اور ناکام رہے۔ شاہی خاندان نے تعلیم نہیں‘ اسے ایک کاروبار کے طور پر دیکھا۔ تفصیلات المناک ہیں‘ دہرانے سے کوفت کے سوا کیا حاصل۔ فقط یہ کہ تب آغاز کر دیا جاتا تو کم از کم پانچ ارب ڈالر کی آمدن ہوتی۔ ہر بستی میں سینکڑوں چراغ جل رہے ہوتے۔
میاں محمد شہباز شریف سرکاری خزانہ ذاتی ترجیحات کے مطابق خرچ کرنے کے قائل ہیں۔ لاہور کے لیے جدید سیوریج کا منصوبہ اس دلیل کے ساتھ انہوں نے مسترد کیا تھا ''کئی ارب روپے کیا میں زمین میں دبا دوں‘‘۔ خوش قسمتی سے تعلیمی اداروں کی نجکاری کے باب میں‘ غیر متوقع طور پر‘ ان کا فیصلہ درست ثابت ہوا ہے۔ غزالی فائونڈیشن اور ''اخوت‘‘ کو دیئے گئے پانچ سو سے زیادہ سکولوں میں طلبہ کی تعداد کئی گنا ہو چکی۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ کی بھی۔ تعلیم کا معیار بلند اور کامیاب طلبہ کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ۔
پانچ سال بیت گئے۔ اپنے شاندار ماضی کی دل گداز تصویر اوچ شریف کے نواحی گائوں‘ مکھن بیلہ کا سرکاری پرائمری سکول جوں کا توں ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ایک مشیر نے اساتذہ کے تقرر کا یقین دلایا‘ پھر مکر گئے۔ ایک نئے سکول کے لیے زمین کسی نے عطیہ کر دی ہے۔ جس قدر جلد ممکن ہو سکا‘ انشاء اللہ اب اس کی بنیادیں اٹھا دی جائیں گی۔ حکومت پنجاب اگر بے حس ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نئی نسل حالات کے حوالے کر دی جائے۔
سر سید احمد خان پر لعن طعن کی گئی۔ لعن طعن ہی نہیں‘ علماء کرام سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مسلمان ہیں‘ اور کیا علی گڑھ کے لیے عطیات دیئے جا سکتے ہیں؟ ان کا جواب یہ تھا: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کا آرزومند ملحد ہے‘ عطیات کا ہرگز کوئی جواز نہیں‘ موقع ملے تو اس کی عمارتیں ڈھا دینی چاہئیں۔
آج ڈیڑھ صدی کے بعد‘ حالات بدرجہا بہتر ہیں‘ مگر ایسی جدید اور حقیقی تعلیم سے آج بھی ہم اتنے ہی دور ہیں‘ جو سائنسی اندازِ فکر پیدا کر سکے۔ بنارس کا ہندو کالج‘ علی گڑھ سے ساٹھ برس پہلے قائم ہوا۔ اس طرح آزاد بھارت میں جدید فنی تعلیم کے بہترین ادارے بھی‘ پاکستان سے چھ عشرے پہلے وجود میں آئے‘ 1952ء میں۔ پھر اس پر تعجب کیا کہ آئی ٹی میں بھارت کی برآمدات دس بلین ڈالر اور ہماری فقط نصف بلین ڈالر ہیں۔ درآں حالیکہ صلاحیت کے لحاظ سے پاکستانی نوجوان‘ بھارتیوں سے بہتر ہیں۔
مختار مسعود مرحوم کی آخری کتاب ''حرفِ شوق‘‘ میں لکھا ہے: اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں سر سید احمد خان کی یاد میں جلسہ تھا۔ ہال بھرا ہوا‘ تالیاں بجتی رہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد‘ ایک طرح دار نوجوان نے ڈاکٹر وحیدالزمان‘ ڈائریکٹر ہسٹاریکل اینڈ کلچرل انسٹی ٹیوٹ سے سوال کیا Sir, are the Works of oldman available in the market? جناب! کیا بڑے میاں کی کتابیں بازار میں دستیاب ہیں؟۔ یہ نوجوان سرسیّد احمد خاں کا پڑپوتا تھا۔
پوری منصوبہ بندی‘ شعور اور ادراک کے ساتھ گھر گھر‘ گلی گلی اور گائوں گائوں‘ علم کے چراغ روشن نہ رہیں تو یہی ہوتا ہے‘ زوال‘ پسپائی اور کور چشمی!
جہالت میں معاشرے اندھے ہو جاتے ہیں۔ تازہ ترین تحقیق یہ کہتی ہے کہ آنکھوں کے اندھے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے پاس کوئی تصویری تمثیل ہی نہیں ہوتی۔
پس تحریر: اندازے غلط ہوتے ہیں مگر ہمیشہ نہیں۔ 2006ء میں عرض کیا تھا کہ عمران خان‘ اسفند یار ولی کو اٹھا پھینکیں گے۔ 2007ء میں اسلامی جمعیت طلبہ ان پہ چڑھ دوڑی تو لکھا تھا کہ اب اس کا زوال رکے گا نہیں۔ انہی برسوں میں بار بار جتلایا کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم فنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ ان سب نے اس طرح کردار کشی کی‘ جس طرح آج نون لیگ کے دلاور سوشل میڈیا پہ فرماتے ہیں۔ دشنام جاری رکھیں یا گوارا فرمائیں‘ این اے 120 میں شریف خاندان ظفریاب ہو یا ناکام‘ اس کا انجام بھٹو خاندان سے مختلف نہیں ہو گا۔ تباہی کی بنیاد میاں محمد نواز شریف نے 1997ء میں رکھ دی تھی جب الطاف حسین کے 500 دہشت گردوں کو رہا کیا‘ اور 50 کروڑ روپے الطاف حسین کو تاوان کے طور پر ادا کیے۔