حیرت سے میں نے سوچا یہ معاشرہ پھوپھی فاطمہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد ایسے لوگوں کی اہمیت کا ادراک کب کرے گا؟ آخر کب تک؟ کب تک سونے چاندی والوں سے ہم مرعوب رہیں گے؟ کب تک؟
سگی پھوپھو تو کیا‘ سرے سے وہ ہماری رشتہ دار ہی نہ تھیں۔ شاید کوئی یقین نہ کرے مگر واقعہ یہ ہے کہ سگی خالائوں اور ممانیوں سے بڑھ کر ان کا احترام ملحوظ رکھا جاتا۔ ایک ہمارے گھر ہی میں نہیں‘ آس پاس کے تمام خاندانوں میں۔
پھوپھی کے مزاج میں بظاہر ایک جارحانہ پن تھا۔ اپنی چادر سنبھالے‘ تیز قدموں سے گلی میں وہ حرکت کرتی دکھائی دیتیں۔ سرو قد‘ ذرا بھاری جثہ۔ مگر ایک بے نیاز اور بے عیب سی شخصیت۔ ان کے انداز و اطوار میں کمال کی ایک بے نیازی کارفرما تھی۔
پچاس سال اِدھر دیہات اور قصبات میں گھروں کے دروازے بند نہیں کیے جاتے تھے۔ پاس پڑوس کی خواتین اور بچے بے روک ٹوک آ جایا کرتے۔ قید تو کسی پر بھی نہ تھی۔ پھوپھی کا یہ تھا کہ کسی وقت بھی آ دھمکتیں۔ اندازِ گفتگو ایسا کہ زندگی میں پھر ایسا کوئی دوسرا نہ دیکھا۔ نا‘ یہ بتائو یہ چادر اتنی مہنگی تسی کیوں خریدی؟ تیرہ روپے کی؟۔ اس طرح کی کوئی بات وہ بی بی جی یا میری بڑی بہنوں سے کہتیں۔ تمہید اور تامل کے بغیر۔ ''بیٹھ جائو فاطمہ!‘‘ بی بی جی ان سے کہتیں۔ ''میں تمہیں بتاتی ہوں‘‘۔... ''نا‘ کس لیے بیٹھ جائوں؟‘‘۔ پھوپھی فاطمہ سراپا تحسین‘ سراپا اصرار اور سراسر سادگی کا پیکر تھیں۔ صحن میں اگے درخت کی طرح‘ اس پر چہکتے پرندوں کی طرح بے ساختہ۔
ایک ذرا سی زیادتی کسی کے ساتھ ہو‘ کہیں کوئی ذرا سی گڑبڑ محسوس ہو‘ وہ بھاگتی چلی آتیں اور سدّ باب کی اپنی سی کوشش کرتیں۔ فرض کیجئے‘ محلّے میں کسی جواں سال شوہر نے نوبیاہتا بیوی کو ڈانٹ دیا۔ جھٹ پٹے کی خاموشی میں‘ جب جانور چراگاہوں سے لوٹ رہے ہوتے۔ چولہوں کا دھواں‘ فضا میں بکھر رہا ہوتا۔ ''نا میرا پتر‘‘ وہ کہتیں‘ ''نئی نویلی دلہن کو کون ڈانٹتا ہے؟ نہ میرا بیبا پتر‘‘۔ دیکھا نہ سنا کہ کبھی کسی نے پھوپھی کو ٹوکا ہو۔ موجودگی کیا غیاب میں بھی اعتراض اٹھایا ہو کہ دخل اندازی کرتی ہیں۔ کوئی معذرت کرتا‘ کوئی وضاحت پیش کرتا کہ معاملے کی حقیقت قدرے مختلف ہے۔ کوئی قصوروار خاموش رہتا۔ اس پر پھوپھی کا پیار‘ چشمے کی طرح پھوٹ بہتا۔ اب ان کا لہجہ بہت شیریں ہو جاتا۔ کسی بہو‘ بیٹی کو گلے لگا کر یا کسی بچے کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ کہتیں ''ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے‘ میرے چن‘ تھوڑی سی بے احتیاطی سے‘ بہت سی خرابی پیدا ہو جاتی ہے‘ میرے ویر‘ میری بہن!‘‘
نکتہ یہ نہیں کہ ڈاکٹر یاسمین راشد سارے جگ کی اس مرحومہ پھوپھی کی ہوبہو تصویر ہیں‘ جس نے کبھی ریگ کنارے ایک بستی میں اجالا سا کر رکھا تھا۔ بہت قریب سے دیکھنے اور برتنے ہی سے اپنے تمام تیوروں اور پہلوئوں کے ساتھ شخصیت آشکار ہوتی ہے۔ آدمی فرشتہ نہیں ہو سکتا۔ کسی نہ کسی اعتبار سے کوئی خامی‘ کوئی کمی اور کمزوری لازماً اس میں ہوتی ہے۔ شاذونادر ہی ایسے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں‘ جن کی تہہ در تہہ شخصیت میں‘ ہر کہیں چراغ جلتے ہوں‘ ہر کہیں روشنی ہو۔ آدمی کو خود غرضی کے ساتھ تخلیق کیا گیا۔ بقا کی غالب آنے والی جبلّت اس کے خمیر میں گندھی ہے۔ نفی ٔ ذات پہ وہی قادر ہو سکتے ہیں‘ ایثار کا قابلِ تقلید نمونہ وہی بنتے ہیں‘ آغاز ہی میں صحبتِ سعید جنہیں نصیب ہو جائے۔ علم اور فقر کے سائے میں جو ہوش کی آنکھ کھولیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی صیقل ہوتے جائیں۔ حتیٰ کہ خود کو بھلا کر‘ خوف‘ حزن اور مجبوریوں کو تیاگ کر‘ الفت اور انس کے پیکر ہو جائیں۔
ایسے لوگ بھی مگر کم ہوتے ہیں‘ جو صاف‘ سیدھے‘ کھرے اور بے ریا ہوں۔ یہی لوگ معاشرے کا نمک اور اس کا جوہر ہوتے ہیں۔ اپنے عمل میں جو استوار ہوں۔ مستقل مزاج اور دھن کے پکّے۔ ابن الوقتی اور اور مفاد پرستی سے گریزاں۔ اقدار کا دامن تھامے‘ گردوپیش کے عامیوں کی بہود کے آرزومند۔
نیچے سے اوپر تک‘ سماج کی تمام سطحوں پر‘ جب ایسے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ گلی محلے سے اقتدار کے بلند و بالا ایوانوں تک‘ تبھی ملک اور معاشرے فروغ پاتے ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں اسی کو درمیانے طبقے کی قیادت کہا جاتا ہے۔ بہت نچلے‘ قوت لایموت کے غلیظ کانٹے دار جال میں الجھے افتادگانِ خاک‘ یا دھن دولت کے سنہری پہاڑوں کے پیچھے‘ الگ تھلگ جیتے مالداروں میں ہوش مند‘ باوفا اور ایثار کیش لیڈر خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اکثر مڈل کلاس ہی سے موزوں رہنما اٹھتے ہیں۔
کلر کہار سے پرے‘ دریائے چناب کے پہلو میں‘ سطح مرتفع کے جنگلوں سے ملحق ایک چھوٹی سی بستی میں ایک اجنبی کا سامنا ہوا۔ کبھی کبھار کچھ لوگ ان جنگلوں کے حاشیے پر ایک گائوں میں جمع ہوا کرتے۔ ندیوں اور چشموں کے کنارے‘ جہاں کبھی ہرنوں کی ڈاریںگل گشت کیا کرتیں۔ اور کبھی کبھار تو کسی تاریک شب کے سکوت میں شیر کے دھاڑنے کی آواز بھی سنائی دیتی۔ وہ دن خیال و خواب ہوئے‘ البتہ اس اجنبی اور اس واقعے کی یاد حافظے کی لوح سے کبھی محو نہ ہو گی۔
غبار آلودہ‘ دور دراز سے سفر کرتا ہوا وہ آیا تھا۔ بے ترتیب سے بے ڈھب سے کمروں کی قطار میں ایک نئے مسافر کیلئے سر چھپانے کا مسئلہ۔ ایک دروازے پر اس نے دستک دی جو خوش دلی سے کھول دیا گیا۔ یہاں کوئی اس کا شناسا نہ تھا۔ اس نے پوچھا کہ کیا شب بسری کی اجازت ہے؟ پھر شرماتے ہوئے‘ اس نے کہا: بھائی‘ میں بہت پریشان کرنے والے خراٹوں کا عادی ہوں‘ کیا آپ مجھے گوارا کریں گے؟۔
اسے گوارا کیا کیا اور کوئی دم میں‘ جب مسافر کی جان پہچان رکھنے والا کوئی شخص نمودار ہوا تو ایک حیران کن انکشاف ہوا۔ اگرچہ وہ کوئی پیر‘ شیخ یا مرشد نہیں‘ گمنام سا آدمی ہے مگر مبدأِ فیاّض سے ایک نادر انعام اسے عطا ہوا ہے۔ وہ ایک صاحب کشف ہے اور کشف بھی ایسا کہ باید و شاید۔ اس انکشاف پر اجنبی شاد نہ ہوا‘ خاموش رہا۔ گویا خود کو چھپا رکھنے کا آرزومند ہو۔ داستان طویل ہے‘ مختصراً یہ کہ پھوپھی فاطمہ کے بارے میں اس سے پوچھا گیا‘ کئی برس جن کے انتقال کو بیت چکے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں‘ چند ثانیے مراقبے کی حالت میں رہا۔ پھر سر اٹھایا اور یقین کے ساتھ‘ گویا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہو‘ بتانا شروع کیا۔ قد کاٹھ‘ شکل و صورت اور پھر یہ کہا: اپنے مالک پر ایمان رکھنے والی‘ اپنے مالک کی بارگاہ میں آسودہ ہے‘ شادماں‘ خورسند!
ایک صادق گواہ نے جب یہ واقعہ سنایا تو ایک ذرا سا تعجب ہوا۔ پھوپھی کو نماز پڑھتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ شاید پڑھتی ہوں گی۔ گائوں میں اکثر پڑھا کرتے۔ خیرات و صدقات کا اگر اہتمام تھا تو ایسی رازداری کے ساتھ کہ چرچا کبھی نہ ہوا۔ پھر روشنی کا ایک کوندا سا۔ ایک جملہ یاد آیا‘ جو گھر کے صحن میں پھوپھی نے اپنی ہمیشہ کی بلند آواز میں کہا تھا: جب میں بیاہ کر لائی گئی تو اپنے میاں سے میں نے کہا: صاحب! جو کچھ آپ کو سمیٹنا تھا‘ سمیٹ چکے۔ دھن دولت کو دفع کرو‘ اب ہم بھلے آدمیوں کی طرح جئیں گے۔ پھوپھی کے شریکِ حیات‘ نچلے درجے کے ایک سرکاری افسر تھے‘ ایسے منصب پہ فائز کہ ''فضل ربّی‘‘۔ چشمہ سا پھوٹ رہا ہوتا۔ ایک بھاری پتھر کی طرح پھوپھی نے اپنا پیکر اس پہ ڈال دیا۔ چشمہ سوکھ گیا۔
رزق حلال‘ راست گوئی‘ تھوڑی سی دردمندی‘ ذرا سا شعور اور بے باکی... ایک لیڈر بس یہی ہوتا ہے۔ چالاکی و عیاری‘ چرب زبانی اور شعبدہ بازی ایک بازی گر کا اثاثہ ہو سکتا ہے‘ لیڈر کا نہیں۔
حیرت سے میں نے سوچا یہ معاشرہ پھوپھی فاطمہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد ایسے لوگوں کی اہمیت کا ادراک کب کرے گا؟ آخر کب تک؟ کب تک سونے چاندی والوں سے ہم مرعوب رہیں گے؟ کب تک؟