"HRC" (space) message & send to 7575

گردنوں کی فصل

کیا یہ احساس کی موت ہے یا زمانہ کروٹ بدلنے والا ہے ؟گردنوں کی فصل کیا پک چکی؟ 
فخر الدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر بنائے گئے تو عرض کیا تھا: ساری دنیا میں جہاندیدہ انتظامی افسروں کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے ، مملکتِ خداداد میں کیوں نہیں ؟ یہ پیچیدہ اور نازک فریضہ کیونکر وہ نبھا سکتے ہیں ؟ 
علالت کا شکار ہو کر وہ کراچی جا پہنچے اور باقی ایام بستر پہ بتا دئیے ۔باقی ماندہ معرکہ جسٹس کیانی کے نام رہا۔ انہوں نے فرمایا: بے عزتی کا اگر احساس ہوا تو وہ الگ ہو جائیں گے ۔ برسوں تک اپنے منصب پر براجمان رہ کر با عزت ایک دن سبکدوش ہو کر دولت خانے پر تشریف لے گئے۔ 
موجودہ چیف الیکشن کمشنر سردار احمد رضا خان اور ان کے ساتھی مختلف ہیں ۔ سرگرم، فعال اور مستعد۔ اس فعالیت کا مگر فائدہ کیا؟ سرکاری پارٹی کے درجن بھر لیڈروں کو نوٹس جاری ہوئے ۔ اپوزیشن کے بعض رہنمائوں کو بھی ۔ کارروائی کسی ایک کے خلاف بھی نہ ہو سکی۔
انتیس ہزار ووٹ ان کے سوا ہیں ۔ ڈیٹا بیس میں ان کے انگوٹھے کا نشان ہی موجود نہیں توشناخت کس طرح ممکن ہے ؟ 45دن میں نئے کارڈ کیا بنائے نہ جا سکتے تھے؟ پولنگ کی تاریخ میں ایک دو ہفتے کی توسیع کر دی جاتی ۔
لگتا ہے سبھی ہار گئے ۔ نظام ناقص ہے تو انصاف کیسے ممکن ہے ؟ زہریلے دودھ سے خالص مکھن کیسے نکل سکتا ہے ؟ الیکشن کمیشن کی ناک کے نیچے گلیاں پختہ ہوتی رہیں ، سیوریج کے لیے کھدائی کا سلسلہ جاری رہا۔ ٹینڈر جاری ہوتے رہے اور ملازمتوں کے پروانے بٹتے رہے ۔ کہاں کا الیکشن اور کیسا الیکشن ۔ بتایا گیا کہ شہزادی لائو لشکر سمیت درشن دینے آتیں تو کہا جاتا کہ چھتوں پر سواگت ہو ۔ الزام ہے کہ ہر ایک ہاتھ ہلانے والے کے لیے ایک ہزار روپے فی کس ۔ ممکن ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ ہو ۔ مگر یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ایل ڈی اے ، ہارٹی کلچر، لاہور کارپوریشن اور بلدیات سمیت تمام صوبائی محکموں کے ملازمین جتے رہے ۔ دفتروں کی بجائے انتخابی اجتماعات میں ۔ مفلس آبادیوں میں ووٹ اس طرح بکے ، جس طرح گرما میں تربوز فروخت ہوتے ہیں ۔ اوّ ل اوّل ایک ووٹ کا نرخ پانچ ہزار تک تھا۔ آخر کو دس ہزار پہ پہنچا ۔ سرکار ہی نہیں ، اپوزیشن نے بھی ہاتھ رنگے ۔
ایک پارٹی میں رقم مختص ہوئی تو تنازعہ اٹھا ۔ امیدوار نے کہا : روپیہ میرے ہاتھ میں ہونا چاہیے ۔ بڑے چوہدریوں نے، عطیات میں جن کا حصہ تھا، مذاق اڑایاکہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ آپ کو پوچھتا کون ہے اور آپ پہ اعتبار کس کو ہے ؟ آپ کو داد سمیٹنے کا موقعہ کس خوشی میں دیا جائے ۔
زیادہ حیرت تحریکِ انصاف پہ ہوتی رہی۔ تاریخ کا رخ بدل دینے والی ایک مہلت قدرتِ کاملہ نے ارزاں کی تھی ۔ ہزار بارہ سو کارکن لاہو رسے اور اتنے ہی نواحی شہروں ، قصور ، شیخوپورہ، کامونکی، پتوکی اور گوجرانوالہ سے جمع کیے جاتے۔ ٹکڑیوں میں بانٹ کر ان کی تربیت کی جاتی۔ گھر گھر جا کر ووٹروں کو وہ پیغام دیتے کہ بالٹی میں سوراخ ہے ،اسے بند کرنا ہوگا ۔ اعداد و شمار دکھاتے کہ گلی پختہ کرنے اور نالی کھودنے پر پانچ گنا تک اخراجات ہوتے ہیں ۔ ڈٹ جائیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کرپشن کا دروازہ بند ہونے کا امکان ہے ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے سوا، جن سے بہتر امیدوار اس پارٹی کو شاید پورے ملک میں مل نہ سکے ، ایک ایک دروازہ کھٹکھٹانے کاخیال کسی کو سوجھ نہ سکا۔ آغازِ کار ہی سے کچھ مخالفت پہ تل گئے ۔ فلاں برادری کے ووٹ زیادہ ہیں ؛چنانچہ فلاں چوہدری کو میدان میں اتارا جائے ۔ چوہدری صاحب سے میں نے پوچھا ۔ ان کا جواب یہ تھا : میرا ایک دوسرا حلقہ ہے ۔میں یہاں کیوں سر کھپاتا؟ سامنے کا سوال یہ ہے کہ حکمتِ عملی اور لیڈر کا چنائو معرکہ آرائی سے پہلے ہوتاہے ۔ حالتِ جنگ میں چہ مگوئیاں ہوتی ہیں اور نہ مجلسِ مشاورت ۔ لبنان کے اساطیری مصنف خلیل جبران کا جملہ یہ ہے : بے دلی سے جو بادہ کشید کرے گا، وہ زہر آلود ہوگا ۔ اعتراضات بجا، واقعہ یہ ہے کہ اپنی شکست کا اہتمام تحریکِ انصاف نے خود کیا ۔ سب سے بڑی قوت ان کے کارکن تھے۔ انہی کو وہ بروئے کار نہ لا سکے ۔ تربیت سے گزر کر وہ صیقل ہوتے ۔ سیکھتے اور دوسروں کو سکھاتے ۔ سیاسی پارٹیوں کی سب سے بڑی متاع ان کے مردانِ کار ہوتے ہیں ۔ سیاست ہی کیا، زندگی کے ہر میدان میں ۔ اس دنیا کی تزئین و ترقی اور ارتقا و بالیدگی ، ہمیشہ ریاضت کیش اور ہنر مند ہاتھوں سے انجام پائی ہے ۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے : لکل فن رجال۔ کیسا ہی با صلاحیت آدمی کیوں نہ ہو ، آزمائش کی بھٹی سے گزر کر کندن ہو تاہے ۔ پھر انہی میں سے وہ لوگ اٹھتے ہیں ، جو انقلاب برپا کرتے ہیں ۔ معاشروں کو کنفیوژن کی دلدل سے نکال کر عظمت و رفعت کی قابلِ رشک جگمگاتی راہوں پہ گامزن کر سکتے ہیں ۔ 
جماعتِ اسلامی کو اس انتخاب سے کیا ملا؟ سید ابو الاعلیٰ مودودی ایسے بہادر لیڈر، بے پناہ منتظم اور نادرِ روزگار مصنف کے پیروانِ عالی مقام کو؟ حکمتِ عملی کی ناکامی نہیں ، یہ کوئی حادثہ نہیں ، ایک اور المیہ ہے ۔ شاعر نے یہ کہا تھا:
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے 
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی 
بار بار ٹھوکریں کھانے کے باوجود جو ادراک نہ کر سکیں ،ان کے بارے میں کیا عرض کیا جائے ؟ شنید اب یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا دامن تھامنے کا ارادہ ہے ۔ رسوائی اور ناکامی میں اگر کوئی کسر باقی ہے تو پوری ہو جائے ۔ 
غمِ حیات سے گھبرا کے بندگانِ خدا 
چلے ہیں جانبِ مے خانہ خودکشی کے لیے 
اس خیال سے ہی خوف آتا ہے کہ عزتِ نفس کے باب میںحساس ترین لیڈر سید مودودی کی متاع حضرت مولانا ڈیزل کے قدموں میں نثار کی جانے والی ہے ۔ سیاست کی تاریخ میں ایسی خودکشی کی مثال شاید ہی کوئی دوسری ہو۔ ،سوال یہ ہے کہ اپنی توقیر کے لیے جو اس قدر حساس تھے ، اتنے بے حس وہ کیونکر ہو گئے ؟ 
عجیب و غریب ناموں والی نئی مذہبی پارٹیوں کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی شاید ضرورت نہیں ۔ برساتی مینڈکوں کے بارے میں کیا بات کی جائے ؟ بس یہ سوال کہ آخری تجزیے میں انہیں کیا ملااور ان کے آقائوں نے کیا نعمت پائی ؟ 
محترمہ مریم نواز جیت گئیں اور ان کی پارٹی بھی ۔ اس پر وہ مبارک باد کی مستحق ہیں ۔ سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے شہسوار اترے ہیں ۔ منزلوں پہ منزلیں مارتے ہوئے ، مقصود کو انہوں نے پا لیا۔ اس کے بعد مگر کیا ؟ سراب اور دلدل، ناکامی ، زوال اور پسپائی ۔ ان کے مستقبل کا انحصار الیکشن نہیں عدالت پر ہے ۔ اس قابل وہ ہرگز نہیں کہ ججوں کا سامنا کر سکیں۔ یہ ثابت کر سکیں کہ بیرونِ ملک دولت کے انبارجائز اور طیب ہیں۔ محترمہ کا سیاسی کیرئیر شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے ، جو بن کھلے مرجھا گئے ۔
ہر سیاسی جنگ کا لازماً کوئی فاتح ہوا کرتا ہے ۔ یہ عجیب معرکہ تھا، الیکشن کمیشن سمیت جہاں سبھی منہ کے بل گرے۔ سبھی ہار گئے ۔ 
کیا یہ احساس کی موت ہے یا زمانہ کروٹ بدلنے والا ہے ؟گردنوں کی فصل کیا پک چکی؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں