الزام تراشی اور پروپیگنڈے کی جنگ میں قومی وقار ہی نہیں‘ گاہے مستقبل بھی دائو پہ لگ جاتا ہے۔ اچھا ہے کہ پاک فوج کی قیادت نے اس نکتے کا کچھ نہ کچھ ادراک کیا۔
عسکری قیادت اور عدالتوں نے اگر اس نکتے کو حرزِ جاں بنا لیا کہ ان کی قوّت‘ صبر و شکیب، اعتدال اور توازن میں ہے‘ عدل کے اہتمام میں تو بحران نہ صرف مکمل طور پہ ختم ہو جائے گا بلکہ ایک نئی سحر کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔ مدتوں سے قوم‘ جس کے لئے ترس رہی ہے۔
اکسانے والے دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو نفرت کی شدّت میں آرزو مند ہیں کہ ہر مخالف کو کچل دیا جائے۔ دوسرے وہ جو اسی لیے یا ذاتی مفادات کے لئے جا و بے جا تنقید سے زخم لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صبر اور دانش کا امتحان‘ اسی عالم میں ہوتا ہے۔
سرکار ؐ چلے جاتے تھے کہ ایک قبر پہ کھڑی بڑھیا کو‘ آپ ؐ نے چیختے چلّاتے پایا۔ فرمایا: صبر کرو۔ اس نے کہا: اگر آپؐ کا کوئی عزیز تہہ خاک اتر گیا ہوتا؟ جیسا کہ عالی جناب ؐ کا دستور تھا‘ مڑ کے دیکھا اور نہ ہی ناراض ہوئے۔ اتنے میں اسے معلوم ہوا کہ کس حماقت کا ارتکاب‘ اس نے کیا ہے۔ لپک کر آئی اور بولی: میں صبر کروں گی۔ فرمایا: صبر وہ ہے‘ جو پہلی چوٹ لگنے پہ کیا جاتا ہے۔
کبھی میں سوچتا ہوں کہ پاکستانی جنرلوں اور افواج کے سربراہوں سے ہونے والی ملاقاتوں کی روداد لکھ ڈالوں‘ خواہ دو عشرے بعد ہی چھپے۔ گزشتہ ایک عشرے میں فوج کے اندازِ فکر میں تبدیلی آئی ہے۔ آج کا نوجوان افسر بھی‘ کل کے جنرل سے زیادہ جانتا ہے۔ یہ احساس اب جڑ پکڑ چکا کہ فوجی حکمرانی کے نتائج‘ تباہ کن ہوتے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتخاب‘ جن حالات میں ہوا‘ اتفاق سے‘ یہ ناچیز ان سے واقف ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی رائے میں‘ دوسرے جنرلوں سے وہ زیادہ اہل اور لائق نہ تھے‘ بلکہ یہ گمان کہ وہ کمزور آدمی ہیں۔ کمزور بالکل نہیں‘ بلکہ جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا‘ زیادہ محتاط ہیں۔ ہیرو بننے کی خواہش ان میں نہیں پائی جاتی۔ کب سے میں دیکھتا آیا ہوں کہ خبطِ عظمت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے پرانے ذاتی دوستوں سے کبھی انہیں ملتے دیکھا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ بے ساختگی برقرار رکھتے ہیں۔
جمعرات کو جنرل آصف غفور کے طرزِ اظہار سے اطمینان ہوا۔ خیال یہ نہ تھا کہ وہ ایسے ضبط و تحمل اور سلیقہ مندی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ان کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ جوش و جذبے سے زیادہ فہم و ادراک اور فصاحت پر توجہ دیں۔ ولولہ فطری ہوتا ہے۔ اسے تھامنے میں فضیلت زیادہ ہے‘ اظہار میں کم۔ پاکستانی فوج کے ایک سپہ سالار سے عرض کیا تھا: آپ کے افسروں کو اردو آتی ہے اور نہ انگریزی۔ اگر وہ اتنا بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں تو کاکول میں زبان کا ذوق کیوں پروان نہیں چڑھ سکتا۔ بہت دن نہیں‘ اس کے لئے ڈھنگ کے کچھ استاد ہی درکار ہیں۔ چھوٹی سی ایک الگ لائبریری بھی۔
فوج میں بلوغت کے اب آثار ہیں۔ خدا کرے کہ دانش و دانائی پہ اصرار کرنے والے زیادہ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں۔ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ''ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ احمق اور سطحی لوگ آہنی یقین کے حامل ہیں۔ ذہین اور روشن خیال شکوک و شبہات کا‘‘۔
میجر جنرل آصف غفور کے الفاظ سے مختلف لوگوں نے مختلف معنی اخذ کیے۔ "Silence is also an expression"... ''خاموشی میں بھی اظہار ہوتا ہے‘‘۔ پریس کانفرنس کے لہجے اور انداز کو ملحوظ رکھیے تو اس میں کوئی دھمکی پوشیدہ نہیں۔ باقی معاشرے کی طرح پاک فوج نے اردو زبان سے بڑی بے اعتنائی برتی ہے۔ زبان صرف پڑھنے‘ سننے نہیں‘ بولنے اور لکھنے سے صیقل ہوتی ہے۔ جس قوم کی کوئی زبان نہ ہو‘ اس کی کوئی ثقافت نہیں ہوتی۔ جس کی کوئی ثقافت نہ ہو‘ اس کی شخصیت نہیں ہوتی۔ جس کی کوئی شخصیت نہ ہو‘ اس کے ابھرنے اور باقی رہنے کا جواز ادھورا ہو گا۔ اس لئے کہ خدا اور تاریخ کی بارگاہ میں معتبر وہ ہے‘ نقالی سے جو گریز کرے۔ زندگی کو جو اپنی نگاہ سے دیکھے۔
میاں محمد نواز شریف اسلام آباد میں حنیف عباسی اینڈ کمپنی کے لائے ہوئے کارکنوں سے خطاب فرما رہے تھے تو ان پہ ترس آیا ''طرزِ کہن پہ اُڑنا‘‘۔ دوسرے شعر کا دوسرا مصرعہ بھی غلط پڑھا۔ ''نہیں جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا‘‘۔ یہ اقبالؔ کے وہ اشعار ہیں‘ جو زبان زدِ عام ہیں۔ اس پر افسوس‘ جو اقبالؔ کا اردو کلام بھی روانی سے پڑھ نہ سکے۔ غلام اسحاق خان اپنی تقریر کے نوٹس‘ اپنے فاضل سیکرٹری فضل الرحمن کو لکھوایا کرتے۔ پھر اس پہ بحث ہوتی۔ بعض اوقات آخری مسودہ خود لکھتے۔ فارسی‘ اردو‘ انگریزی اور پشتو پہ دسترس تھی۔ عربی کے اہم الفاظ میں جستجو کیا کرتے۔ قائد اعظمؒ ہر خطاب اور ہر خط خود لکھتے۔ قرآن کریم انگریزی میں پڑھا کرتے۔ فاطمہ جناحؒ قرآنِ کریم کا ان سے زیادہ مطالعہ کرتیں۔ کبھی اس پر وہ تبادلہ خیال کرتے۔ ادب کے نہیں‘ قائد اعظمؒ قانون اور سیاست کے آدمی تھے۔ اس راز سے مگر آشنا کہ فصاحت شائستگی اور ذمہ دارانہ زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے: ''فصاحت مرد کا زیور ہے‘‘۔
عمران خان اور میاں محمد نواز شریف کے مداحوں نے ایسے ایسے محاسن ان میں تلاش کر لیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ پڑھنے لکھنے سے نواز شریف مفرور ہیں۔ ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام اور ڈرامے دیکھا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مزاحیہ اداکاروں کو گھر پہ بلاتے ہیں۔ والدہ محترمہ سمیت اہل خاندان کے ساتھ ان سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بے شک راز وہ رکھ سکتے ہیں۔ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ لوگوں کو برتنا جانتے اور ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مگر ذہانت اور جرات؟۔ ذکاوت و شجاعت کا باب دریا سے جوہڑ بن جاتا ہے‘ آدمی اگر خود تنقیدی کا در نہ کھول سکے۔ ان کے مداح مجھے معاف نہ کریں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دروازے کو ہمیشہ کے لئے انہوں نے بند کر رکھا ہے۔ نرگیست اس کے سوا ہے۔ مطالعہ عمران خان بھی کم کرتے ہیں۔ خود پسندی کا وہ بھی شکار ہیں۔ ادنیٰ و اعلیٰ میں تمیز بھی نہیں کرتے۔ ٹھنڈے دل سے جو مشورہ نہیں کرتا‘ خوش دلی سے جو تنقید نہیں سنتا‘ ذہنی ارتقا اس کا رک جاتا ہے۔ یہ قبل از مرگ موت ہے۔ ہمارے عہد کے عارف نے کہا تھا: جہاں عقل رکتی ہے‘ وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا تھا: راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے۔ سچی محبت کیا ہے؟ اپنے آپ سے اوپر اٹھ جانا۔ شہید اسی لئے تا بہ ابد زندہ رہتا ہے کہ قتل گاہ میں وہ خود کو بھول جاتا اور مقصدِ اولیٰ کو یاد رکھتا ہے۔
پورے وثوق سے دہراتا ہوں؛ نواز شریف خوفزدہ ہیں۔ کمپیوٹر کھولیے اور ان کے وہ الفاظ سنیے‘ ''مجھے کیوں نکالا‘ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ یاد رکھنے کی بات دوسری ہے۔ خوف ایسا ہتھیار ہے‘ جسے بہت سلیقے سے اور بہت کم برتنا چاہئے۔ عدالت ان کے لئے کافی ہے اور عدالت کو انہیں کامل انصاف سے بہرہ مند کرنا چاہئے۔ عرض کرنے والوں کو معزز جج صاحبان سے عرض کرنا چاہئے کہ ریمارکس دینے سے‘ حتیٰ الامکان گریز کریں۔ عدالتوں کے باہر اخبار نویسوں سے لیڈروں اور وکیلوں کا خطاب ایک دل خراش بدعت ہے۔ ہیجان کے مارے معاشرے کو تحمل‘ ضبط اور خود تنقیدی درکار ہے‘ چیخ و پکار نہیں۔ الزام تراشی اور پروپیگنڈے کی جنگ میں قومی وقار ہی نہیں‘ گاہے مستقبل بھی دائو پہ لگ جاتا ہے۔ اچھا ہے کہ پاک فوج کی قیادت نے اس نکتے کا کچھ نہ کچھ ادراک کیا۔