ماضی کبھی نہیں گزرتا۔ درحقیقت وہ ماضی ہوتا ہی نہیں۔ ماضی‘ حال اور مستقبل‘ آدمی تمام وقتوں میں زندہ رہتا ہے۔ گزرے ہوئے ایام اس کے باطن میں سانس لیتے ہیں۔ اس کی جینیاتی تشکیل میں‘ اس کی یادوں میں‘ اس کے لہو میں۔
خوبصورت اور پرشکوہ مرکزی دروازے سے‘ وزیرآباد شہر میں داخل ہوئے تو معاً ماضی کی ایک طلسمی یاد نے سر اٹھایا۔ برادر اشتیاق اللہ صاحب سے عرض کیا‘ یہیں کہیں شیر شاہ سوری کے زمانے کی ایک چوکی ہوا کرتی تھی۔
وہ اپنے دیار‘ اس کی تاریخ‘ اپنے لوگوں‘ اس کے اہم خاندانوں اور شخصیات کے بارے میں بات کر رہے تھے‘ متوجہ نہیں تھے۔ ''ہاں! ہاں!‘‘ انہوں نے کہا: موجود ہے اور کچھ عرصہ قبل اس کی مرمت ہوئی تھی۔ اس عظیم فاتح کی بنائی سڑک شہرکے بیچ سے جایا کرتی۔ پہلو سے گزرنے والا راستہ ابھی تعمیر نہ ہوا تھا۔ شاید دو عشرے پہلے تک۔ دن ہو یا رات یہاں مسافر رک جاتا۔ خستہ عمارت‘ باولی یعنی سیڑھیوں والا کنواں‘ خستہ در و دیوار مگر ایک شوکت‘ جو بیتے دنوں کی کہانیاں سناتی۔
یاد ہے کہ 1981ء میں‘ گھر کا مختصر سا سامان ایک سوزوکی وین پر لاد کر‘ راولپنڈی روانہ ہوا۔ یہ ایک چاندنی شب تھی۔ ڈرائیور اور اس کا ساتھی بھلے آدمی تھے۔ چند منٹ کے لیے رک جانے کی فرمائش کی۔ بہار کی مہربان ہوا۔ ایک ایک اینٹ سے عبرت پھوٹ رہی تھی۔ مسلمانوں کے اس عہد کو یاد کیا‘ جب ان میں سے اکثر نوشت و خواند سے آشنا ہوتے۔ گھڑ سواری کے علاوہ نیزہ بازی اور شمشیر زنی سے آشنا۔ انیسویں صدی کے اوائل تک پنجاب میں تعلیم یافتہ آبادی کا تناسب 80 فیصد کے لگ بھگ تھا۔ برصغیر کی معیشت دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک تھی۔ 1801ء تک‘ کل عالم کا 25 فیصد۔
1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد‘ زوال کے آخری مرحلے کا آغاز ہوا۔ پانچ برس میں شکست و ریخت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ ایک کے بعد تحت نشینی کی دوسری جنگ‘ حتیٰ کہ بہادر شاہ ظفر کا دور آ پہنچا۔ ذوقؔ اور غالبؔ ایسے شاعر شہنشاہِ عالم کے قصیدے لکھا کرتے۔ دلّی کے مکین مگر یہ کہا کرتے ''تختِ شاہ عالم‘ از دلّی تا پالم‘‘۔
ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ حکومت کا خاتمہ تو ہونا ہی تھا۔ صرف اس لیے نہیں کہ شمشیر و سناں کی جگہ طائوس و رباب نے لے لی تھی۔ صرف اس لئے بھی نہیں کہ اُبلا ہوا گوشت کھانے والے ظہیرالدین بابر کی جگہ اب محل میں دستر خوان کی رونق کے لیے ریاضت کی جاتی۔ اس لیے بھی کہ اکثریت پر اقلیت کی حکومت تا دیر کبھی قائم نہیں رہتی۔ سلطنت کے زوال میں مگر یہ بھی کیا ضروری ہے کہ علمی اور اخلاقی افلاس بھی ٹوٹ ٹوٹ کر برسے۔ اقبال نے یہ کہا تھا۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
اشتیاق اللہ صاحب سے میں نے کہا کہ چوکی کے پاس رک جائیں کہ اس کی کچھ تصاویر بنائی جا سکیں۔ ہم سفر ڈاکٹر وحید الدین صاحب سے درخواست کی کہ وہ یہ زحمت کریں۔
وہ چاندنی رات یاد آئی‘ جب اس نواح اور اس کی یادوں کا بوجھ اٹھائے‘ جہلم کے قریب پہنچا تو آنسو بے ساختہ آنکھوں سے پھوٹ بہے۔ خود کو تھامنے کی کوشش کی اور آخرکار تھام ہی لیا۔ اجنبیوں سے ورنہ کیا کہتا کہ کس الم نے لاچار کیا۔
کچھ عرصہ بعد لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل میں گورنر غلام جیلانی سے ملاقات ہوئی۔ یہ صحافیوں کا اجتماع تھا‘ جہاں از رہِ کرم مجھے دارالحکومت کی نمائندگی کا حکم دیا گیا تھا۔ پشاوری چپل پہنے‘ آسودہ مزاج‘ خوش باش آدمی‘ ان کے درمیان اس طرح گھوم رہا تھا‘ جیسے خاندان کا کوئی بزرگ‘ حویلی کے صحن میں۔ جیلانی کشادہ ظرف اور تر دماغ حاکم تھے۔ تعارف کرایا اور گزارش کی کہ شیر شاہ کی اس یادگار کو محفوظ کرنے کا حکم صادر کریں۔ اس کی تعمیر و مرمت اور تزئین کا۔ معلوم نہیں‘ وہ کس خیال اور کیفیت کے زیر اثر تھے۔ بولے: کئی محکمے اس طرح کے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں‘ مشکل پڑتی ہے۔ جواں سال اور گمنام سے اخبار نویس نے حیرت سے انہیں دیکھا‘ پھر بے بسی کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔ گورنر صاحب اور ملاقاتی اخبار نویسوں کو تازہ موضوعات سے دلچسپی زیادہ تھی۔
یہ آج دوپہر کا وقت تھا۔ اشتیاق اللہ صاحب بے چین ہو رہے تھے۔ میرے ذہن میں تو فقط یہ تھا کہ وہ لنگر دیکھوں‘ نو برس پہلے جس کا انہوں نے آغاز کیا تھا اور جہاں دو تین سو افراد دس روپے کے عوض بہترین کھانا تناول کرتے ہیں۔ انہیں ایک اور پریشانی بھی لاحق تھی۔ کہا کہ کچھ معززین انتظار میں ہیں۔ پھر انہوں نے وزیرآباد کے اکابر کا ذکر چھیڑ دیا۔ میر شکیل الرحمن کی والدہ محترمہ گزشتہ دنوں جو یہاں تشریف لائی تھیں۔ اپنی آبائی جائیداد جنہوں نے ضرورت مندوں پہ لٹا دی۔ رشتہ داروں کی خیریت پوچھنے آیا کرتی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور فلاں اور فلاں۔ ہمارے منو بھائی اور عطاء الحق قاسمی کا انہوں نے نام تک نہ لیا۔
بھری دوپہر چوکی کے ہموار فرش پر‘ کوئی بستر بچھائے گہری نیند سو رہا تھا۔ شاید کوئی چوکی دار‘ کون جانتا ہے شاید کوئی تھکا ماندہ مسافر۔ یاللعجب وہ باولی کیا ہوئی؟ انہوں نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور ان کے چہرے پر لکھا تھا: کیا یہاں کوئی کنواں بھی تھا؟ سالِ گزشتہ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کا سفر یاد آیا۔ انگریزی عہد کی ایک ایک عمارت کس خوش سلیقگی سے سنبھالی گئی ہے۔ یہ تو ہمارا اپنا ماضی ہے۔ ہمارا گزرا ہوا کل۔ شیر شاہ صرف سوری پشتونوں کا سردار نہ تھا۔ صرف پشتونوں کا بھی نہیں بلکہ پورے مسلم برصغیر کا‘ جس کی حدود تب ماورألنہر تک پھیلی تھیں۔ عظیم ترین فاتحین میں سے ایک۔ شاید برصغیر کے تمام ماضی کا عظیم ترین منتظم۔ پانچ برس میں درجنوں ایسے قلعے اس نے تعمیر کرائے‘ جیسا کوئی بادشاہ ایک بھی بنا نہ سکا۔ بندوبست اراضی کے اُس سسٹم کی بنیاد رکھی‘ جو آج تک معتبر ہے۔ ڈاک کا نظام تشکیل دیا۔ پشاور سے کلکتہ تک وہ شاہراہ تعمیر کی‘ جس پر مسافروں کے لیے برگد کے ہزاروں‘ شاید لاکھوں درخت لگائے۔ ہر چالیس میل کے بعد ایک چوکی تعمیر کی‘ تازہ دم گھوڑے‘ جہاں قاصدوں کو مہیا ہوتے۔ پانی‘ خوراک اور سایہ بھی۔ دیہات و قصبات میں جس نے اجتماعی ذمہ داری کا تصور دیا۔ وسیع و عریض سرزمین کو امن بخشا اور جگمگاتی ہوئی یادیں چھوڑ گیا۔ کیا اس آدمی سے سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ افسوس کہ اس کی ایک بھی مکمل سوانح نہ لکھی جا سکی۔ پاکستان میں اس کی جو ایک یادگار باقی ہے‘ اس سے ایسی بھی بے نیازی۔ ایک سطحی اور بے سمت معاشرہ۔ اپنا گزرا ہوا کل جسے یاد نہ ہو‘ اُس کا آنے والا کل بھی بے ثمر‘ بے نتیجہ ہوا کرتا ہے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان روس گئے تو تیمور کا مقبرہ دیکھنے کی خواہش کی۔ اس کی زبوں حالی پہ آزردہ ہوئے۔ مہمانوں کی کتاب میں لکھا: خوب آپ لوگوں نے اس کی دیکھ بھال کی ہے۔ خود ہماری تمام حکومتوں نے اپنے درخشاں ماضی کے ساتھ کیا کیا؟ جہاں کوئی دیا باقی تھا‘ بجھا دیا۔
وزیرآباد میں تمام سوالات جنگِ تخت نشینی کے بارے میں تھے۔ کیا میاں محمد شہبازشریف سے درخواست کی جائے کہ شیر شاہ کی یادگار کے اکرام کا تقاضا پورا کریں۔ ایک چھوٹا سا عجائب گھر اور پارک یہاں بنا دیں۔ اس کے گرداگرد ایک تفریحی پارک اور قدیم انداز کا ریستوران۔ سیرگاہ‘ تاکہ اخراجات پورے ہوں۔ شہر کی شادمانی بڑھے۔ مگر وہ تو بابِ پاکستان کی تکمیل پربھی آمادہ نہیں‘ جس کا انہوں نے پیمان کیا تھا۔ اشتیاق اللہ صاحب نے اچانک انکشاف کیا کہ چوکی کی پشت پر پھیلی 25 ایکڑ زمین فوج کی مِلک ہے۔ پھر تو یہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذمہ داری ہے۔ جنابِ جنرل! کیا آپ سنتے ہیں؟
ماضی کبھی نہیں گزرتا۔ درحقیقت وہ ماضی ہوتا ہی نہیں۔ ماضی‘ حال اور مستقبل‘ آدمی تمام وقتوں میں زندہ رہتا ہے۔ گزرے ہوئے ایام اس کے باطن میں سانس لیتے ہیں۔ اس کی جینیاتی تشکیل میں‘ اس کی یادوں میں‘ اس کے لہو میں۔