اردو میں کہتے ہیں، '' اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی‘‘... اور انگریزی کا محاورہ یہ ہے
"A camel is a horse designed by a committee"۔
چھوٹا یا بڑا، ہر محاذ پر ایک لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے ؛حتیٰ کہ ایک خاندان، چھوٹے سے ایک سٹور اور ایک چھوٹے سے نجی یا سرکاری دفتر میں بھی۔نماز میں ایک امام ہوتا ہے۔مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ دو آدمی بھی مسافرت کا قصد کریں تو ایک کو رہنما بنا لیں۔ ہمارے وزیراعظم کو نہ جانے کیا سوجھی ہے کہ قومی خزانے کے امور وہ ایک کمیٹی کے ذریعے چلانے پر تلے ہیں۔
جنابِ رسالت مآبؐ دنیا سے اٹھے تو ایسالگتا تھا کہ مدینہ کے اوپر سے آسمان نوچ لیا گیا ہے۔ ان کی تربیت مگر سرکارؐ نے کی تھی۔انہوں نے چرواہے کا انتخاب کیا۔اپنے جانشیں کا آپؐ نے اعلان نہ فرمایا تھا۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کو اپنی جگہ مسجدِ نبویؐ میں امامت کا موقع دیا تو اشارہ واضح تھا۔ ایک دن یہ فرمایا تھا : عمرؓ ‘ابو بکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔ سیدنا عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ اپنے گھر میں آپؐ تشریف فرما تھے۔صحرا کے جگمگاتے آسمان کی طرف انہوں نے دیکھا اور آپؐ سے پوچھا : کیا دنیا میں کوئی ایسا شخض بھی ہے یا رسول اللہ ؐ ! جس کی نیکیاں ستاروں کے برابر ہوں۔ فرمایا: ہاں، ابو بکرصدیقؓ۔
ابوبکرؓ آپؐ کے دوست تھے۔ مکہ مکرمہ کے مہرباں اور نامہربان موسموں میں ہمیشہ وہ آپؐ سے ملنے آتے یا آپؐ خود ان کے ہاں تشریف لے جاتے۔ابوبکرؓ سب سے زیادہ ایثار کرنے والے، سب سے زیادہ یکسو اور سب سے بہترفیصلہ کرنے والے تھے۔مساکین میں گھل مل کر رہتے۔زائد از ضرورت بات نہ کرتے۔ عہدِ جاہلیت میں بھی مسافروں کو پناہ دیتے اور مظلوموں کی دست گیری کرتے۔ پہاڑ کا سا بوجھ رسان سے اٹھا لیتے۔ ان کے سوا مسلمان کس کا انتخاب کرتے مگر بعض نے اعتراض کیا۔
انصار میں سے بعض کا خیال یہ تھا کہ یہ بستی ان کی ہے۔ جنابِ رسالت مآبؐ کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ مکّہ کے مہاجروں کو انہی نے پناہ دی ؛لہٰذا امام کا انتخاب ان میں سے ہونا چاہئے۔ رسولِ اکرمؐ کے ارشاد سے انہیں آگاہی بخشی گئی : امام قریش میں سے ہوں گے۔ اس لیے کہ قریش ہمیشہ سے بیت اللہ کے نگہبان چلے آتے تھے۔ ہزاروں برس سے خانہ کعبہ کے زائرین کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل تھا۔ نظم و نسق کا وہ تجربہ رکھتے تھے۔ دور دور تک پھیلے ہوئے جزیرہ نمائے عرب کے قبائل‘ قریش کے سوا کسی کو قائد تسلیم نہ کر سکتے تھے۔
تب کسی نے کہا : ایک امیر انصار اور دوسرا قریش میں سے چن لیا جائے۔قیادت کے موضوع پر عمر فاروقِ اعظمؓ نے تب وہ جملہ کہا، جو تاریخ کی لوح پہ ہمیشہ جگمگاتا رہے گا : ایک اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں نہیں پہنائی جاتیں۔
اصول یہ ہے کہ لیڈر بہترین میں سے بہترین ہونا چاہئے۔ صاحبِ علم، ایثار کیش، مشکلات میں ڈٹ کر کھڑا رہنے والا صاحبِ یقین۔ ایک قائد کی حیثیت سے خلیفہ الرسولؓ کے کردار کا کم ہی گہرا مطالعہ کیا گیا۔ سانحہ کے فوراً بعد مکّہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور طائف کے سوا پورے عرب نے بغاوت کر دی تھی۔ ہمیشہ سے آزاد چلے آتے قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے کہ یہ ریاست کے سامنے جھکنے کے مترادف تھا۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے ارشاد کیا کہ زکوٰۃ کی ایک رسی بھی میں معاف نہ کروں گا۔ ان کی خیرہ کن قائدانہ صلاحیت کا ثمر تھا کہ اسلام کی چٹان مضبوطی سے جم گئی۔ بعد میں پیش آنے والے پے درپے حادثات کے باوجود ایک ہزار برس تک جمی رہی ؛تا آنکہ علمی اور اخلاقی زوال نے امت کو آلیا۔
چھوٹادائرہ ہو یا بڑا، لیڈر ایک ہی ہوتا ہے۔ اصولوں کا پاسدار اور ضابطوں کی بنیاد پر احکامات صادر کرنے والا۔پیرِ تسمہ پا اسحق ڈار کی کرم فرمائی کہ قوم کے کندھوں سے وہ اتر گئے۔ کمیٹی نہیں، ملک کو ایک مکمل وزیر چاہئے، خواہ اسے مشیر ہی کہا جائے۔ مردانِ کار کا ایسا بھی قحط نہیں پڑا کہ کوئی موزوں آدمی نہ مل سکے۔ کمیٹی کی ضرورت کیا ہے۔ وہی وزیر یا مشیر ماہرین سے مشورہ لے سکتا ہے۔
1996ء ہو یا 2013ئ، اسحٰق ڈار کووزیر اس لیے بنایا گیا کہ خزانہ شریف خاندان کے ہاتھ میں رہے۔ اکائونٹنٹ اسحٰق ڈار تین عشرے پہلے میاں محمد شریف کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، نوکری کے لیے۔ مرحوم ایسے لوگوں کے قدردان تھے۔ ذہین اور اشارۂ ابرو پر حرکت میں آنے والے۔نوکری کے قابل تو وہ نہ پائے گئے مگر سینیٹر بنادئیے گئے۔ وفاداری ثابت کرنے پر بالآخروزیرِ خزانہ بھی۔ یہ الگ بات کہ 12اکتوبر 1999ء کا فوجی انقلاب برپا ہونے کے فوراً بعد بے وفائی کا انہوں نے ارتکاب کیا۔ ہتھیار ڈالے اور وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ کمزور آدمی، جس نے دولت کے انبار جمع کر لیے تھے اور جس کے دل میں خوف نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اس کے باوجود شریف خاندان ڈار صاحب پر کیوں مہربان رہا؟
پاکستانی معیشت عجیب ہے۔ 60، 65 فیصد کالی یعنی دستاویزات میں جواپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ باقی 40 فیصد میں سے بھی شاید ایک تہائی سے بھی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے اکثر وزیرِ اعظم یا شہباز شریف جیسے کسی طاقتور وزیرِ اعلیٰ کی صوابدید سے بنتے ہیں۔ عوامی امنگوں اور ترجیحات سے کم ہی ان کا تعلق ہوتا ہے۔ جتنا ٹیکس وصول ہونا چاہئے، اس سے آدھا بھی نہیں ہوتا۔ پھر اس کا بڑا حصہ غلط ترجیحات اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل، واپڈا اور بجلی چوری سے ضائع ہونے والے چھ سات سو ارب روپے اس کے سوا ہیں‘اسراف الگ۔ مثلاً میاں محمد نوا ز شریف مدظلہ العالیٰ نے سالِ گزشتہ اڑھائی کروڑ روپے ایک غسل خانے کی تعمیر پہ صرف کر ڈالے۔اہم ترین اداروں کے سربراہ اس نقطۂ نظر سے مقرر کیے گئے کہ وہ زرداری یا شریف خاندان کو سازگار ہوں۔
پاکستان کو ایک مضبوط وزیرِ خزانہ کی ضرورت ہے۔بحران ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ سنبھالا نہ جا سکے۔ صاف نظر آتا ہے کہ روپے کی قدر کم کرنا پڑے گی۔ شاید آٹھ سے دس فیصد۔ اس لیے کہ اس کی خریداری کی قوت کم ہو چکی۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو درکار ہے۔صرف اسی سے قومی آمدن میں پانچ سو ارب روپے سالانہ کا اضافہ ممکن ہے۔ سٹیٹ بینک، نیشنل بینک اور بعض دوسرے اداروں کو شاید نئے سربراہ درکار ہون؛ اگرچہ وہ آمادہ نہیں لیکن شوکت ترین ایک بہترین وزیرِ خزانہ ہو سکتے ہیں۔اگر وہ نہیں تو ہارون اختر خان یا کوئی اور۔ ہارون اختر خان کی خوبی ان کے مزاج کا اعتدال ہے۔ بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ بحث کے ہنگام اشتعال پیدا کیے بغیر نرمی اور دلیل سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔
ادائیگیوں کا توازن ہولناک حد تک خراب ہے۔ بر آمدات گری اور درآمدات بڑھ گئی ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستانی عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے وحشت زدہ ہیں۔ قدرت نے شاہد خاقان عباسی کو ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ زرداری اور شریف خاندانوں کے پیدا کردہ معاشی عوارض کا کچھ نہ کچھ علاج کر سکیں۔ ایک اچھے وزیرِ خزانہ پہ انہیں اصرار کرنا چاہئے۔ یہی دیانت کا تقاضا ہے‘ یہی قیادت اور ملک سے وفاداری کا۔ کمیٹی کیا ہوتی ہے؟
اردو میں کہتے ہیں، '' اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی‘‘... اور انگریزی کا محاورہ یہ ہے
"A camel is a horse designed by a committee"۔